پاکستان میں کولیسٹرول کی زیادتی کا مرض وبائی صورتحال اختیار کر گیا ہے

پاکستان میں کولیسٹرول کی زیادتی کا مرض وبائی صورتحال اختیار کر گیا ہے

جس کے نتیجے میں نوجوانوں میں میں دل کے دورے کے سبب اچانک اموات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار ماہرین صحت نے ورلڈ لپڈ ڈے 2022 کے موقع پر پریس کانفرنس میں کیا۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر جاوید اکرم نے کولیسٹرول کی زیادتی کے اسباب اور اس کے سدباب کے لئے ایک کروڑ روپے کی ریسرچ گرانٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ادویہ ساز کمپنیوں کو بھی اتنی ہی رقم مزید فراہم کرنی چاہیے۔انہوں نے اس موقع پر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کی جانب سے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں دل کے امراض سے بچاؤ کا سینٹر قائم کرنے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ یہ سنٹر اگلے چار سے چھ ہفتوں میں کام کرنا شروع کر دے گا۔ انہوں نے کہاکہ دل کی امراض سے بچاؤ کے لیے پرو گرام شروع کیے جائیں ۔ نیشنل لپڈ پروگرام کے ایڈوئزر پروفیسر عباس رضا کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں زیابطیس کے نئے تشخیص شدہ 80 فیصد مریضوں میں کولیسٹرول کی زیادتی پائی گئی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف انہیں شوگر بلکہ کولیسٹرول کنٹرول کرنے کرنے کا بھی علاج کروانا پڑ رہا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ہائی کولیسٹرول کے صرف 10 سے 15 فیصد مریض اپنا علاج کروا رہے ہیں، زیادہ تر افراد باقاعدہ ورزش، متوازن خوراک اور باقاعدگی سے ادویات کے استعمال سے اپنا کولیسٹرول کنٹرول میں رکھ کر دل کے اچانک دورے اور فالج کے خطرے سے بچ سکتے ہیں۔پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر بلال محی الدین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 20 سے 30 اور 30 سے 35 سال کی عمر کے افراد میں دل کی بیماری کی شرح بڑھتی جارہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ غیر صحت مندانہ طرز زندگی ہے، انہوں نے اس موقع پر خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ کھانے کا تیل ہر گز دوبارہ استعمال نہ کریں، تلی ہوئی اشیاء کھانا چھوڑ دیں، مقامی تیل بشمول مکئی اور کینولا آئل کا استعمال بڑھائیں ۔

———–