انجینئر خالد پرویز چیئرمین IEEEP کراچی سینٹر کی جیوے پاکستان کے لیے وحید جنگ سے خصوصی گفتگو ۔

انجینئر خالد پرویز چیئرمین IEEEP کراچی سینٹر کی جیوے پاکستان کے لیے وحید جنگ سے خصوصی گفتگو ۔
========================

جی الحمداللہ یہ ہمارا چھتیسواں سمپوزیم تھا پچھلے سال کرونا کی وجہ سے ہم یہ سمپوزیم نہیں کر پائے تھے اور اس کا ہمیں بڑا افسوس رہا لیکن بہرحال کس قسم کے معاملات میں آپ کچھ نہیں کر سکتے ۔اس مرتبہ سمپوزیم کے انعقاد کو لوگوں نے بہت سراہا ہے اس لیے کہ اس مرتبہ شرکاء کی تعداد


زیادہ تھی لوگ بہت شوق سے شریک ہوئے بڑے متحرک انداز سے لوگوں نے شرکت کی ان کا جوش بھی نظر آرہا تھا ماضی میں ہم دیکھتے رہے ہیں کہ ٹیکنیکل سیشنز میں لوگ اتنے متحرک نظر نہیں آتے تھے لیکن اس مرتبہ لوگوں نے کافی Actively شرکت کی اور یہ خوشی کی بات تھی اسی طرح ہمارا پینل ڈسکشن بھی بہت کامیاب رہا

اب اس کی سفارشات کو رمضان المبارک کے بعد اب ہم اوپر حکام بالا تک پہنچانا چاہتے ہیں جن میں حکومت پاکستان اور


نیپرا کے اعلیٰ حکام شامل ہے وحدہ کا اپنی آواز پہنچانا چاہتے ہیں اور انشاءاللہ عید کے بعد اس کو ٹیک اپ کریں گے ۔عصمت بہت اچھا رسپانس ملا اکیڈمیاسے بھی بہت اچھا رسپانس ملا ۔ اسٹوڈنٹس کہا اس میں کافی انوولمنٹ رہا ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مجموعی طور پر یہ سمپوزیم بہت کامیاب رہا آپ

کو بتاؤں کہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ باہر سے تین پیپر آن لائن پڑھے گئے ۔یہ کرو نا کی مرہون منت ہے یہ کرونا کی وجہ سے اچھی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں اس مرتبہ دو امریکہ سے اور ایک سنگاپور سے آن لائن پیپر پڑھا گیا اس طرح مجموعی طور پر تین پیپرز آن لائن بیرون ملک سے


پڑھے گئے یہ بہت خوش آئند بات ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے سمپوزیم میں اس چیز میں اضافہ ہوگا ۔


اس سوال پر کہ مجموعی طور پر کتنے ٹیکنیکل سیشن ہوئے اور کتنے پینل ڈسکشن ہوئے ؟ انجینئر خالد پرویز نے بتایا کہ مجموعی طور پر چار ٹیکنیکل سیشنز تھے ان میں سے ایک ٹیکنیکل سیشن اسٹوڈنٹس کا تھا اس کے علاوہ تین جنرل ٹیکنیکل سیشن تھے ۔ان تینوں کا اپنا اپنا ایک تھیم تھا اور ہر سیشن میں چار چار پیپرز پڑھے گئے تھے ۔اس طریقے سے آپ دیکھیں تین ٹیکنیکل سیشن تھے ان میں کل ملا کر بارہ پیپرز پڑھے گئے ۔اور تین پیپرز اسٹوڈنٹس کے


تھے وہ تینوں گولڈ میڈلسٹ تھے انہوں نے بہترین طریقے سے پڑھ کر گولڈ میڈل حاصل کیا تھا ۔یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم ایک سال پاکستان اسٹوڈنٹ مقابلہ کراتے ہیں اس میں جو بیسٹ 3 پیپرز ہوتے ہیں انہیں گولڈ میڈل دیتے ہیں اور پھر انہیں یہاں سمپوزیم میں شرکت کا موقع ملتا ہے ۔اس کے علاوہ تین سلور میڈل بھی ہم سٹوڈنٹس کو دیتے ہیں اور گولڈ میڈل حاصل کرنے والے اسٹوڈنٹ کو یہاں پر مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ شرکاء کے سامنے اپنے پیپرز پڑھیں یہ اسٹوڈنٹ کے لیے بہت بڑی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ وہ اتنے بڑے بڑے فارم پر آکر اتنے بڑے فورم میں پروفیشنلز کے سامنے اپنا پیپر پڑھیں اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بڑی خدمت ہے جو اللہ ہم سے کروا رہا ہے مستقبل کے لیڈر اور انجینئرز تیار ہو رہے ہیں ان کو گروم کرنے کے حوالے سے یہ بہت اہمیت کا حامل کام ہے ۔
اس سوال پر کہ یہ سمپوزیم منعقد کرتے ہوئے کتنا عرصہ ہو چکا ہے کیا یہ درست ہے کہ چالیس سال ہو گئے ہیں اور یہ بتائیے کہ پہلا سمپوزیم کب شروع کیا گیا تھا ؟
انجینئر خالد پرویز نے بتایا کہ انیس سو بیاسی1982 میں اس کی شروعات کی گئی تھی .اور موجودہ موو ن پک ہوٹل اس وقت شیرٹن ہوٹل ہوا کرتا تھا یہاں سے آغاز ہوا تھا ۔طویل عرصے تک اسی ہوٹل میں ہوتا رہا اور اس کے بعد ری کانٹینینٹل ہوٹل میں شفٹ کیا گیا ۔
اس سوال پر کے یہاں بڑے قابل اور ذہین لوگ آتے ہیں اور سفارشات دے کر جاتے ہیں ان پر حکومت کتنا عمل کرتی ہے ؟
انہوں نے بتایا کہ دیکھیں یہ ایک رضاکارانہ فورم ہے ہم لوگ اپنے کاروبار بزنس کام میں سے وقت نکال کر اسے کرتے ہیں


اس لیے یہ سراہا جانے والا کام ہے جو سفارشات یہاں ماضی میں سامنے آتی رہی ہیں ہم ان کو پلاننگ کمیشن سے لے کر منسٹری آف واٹر ۔اسی طرح واپڈا نیپرا سمیت دیگر متعلقہ اہم اداروں کو وہ سفارشات بھیجتے رہے ہیں والو اب ایک الگ معاملہ ہے حکومتی اداروں کا رویہ یہ ہے کہ وہ آپ کو Acknowledgement کا لیٹر تک نہیں بھیجتے۔ یہ بدقسمتی کہیئے یا کچھ بھی کہئیے ۔انہوں نے کہا کہ میڈیا اس سلسلے میں


بہت دیر سپورٹ کر سکتا ہے ہم سفارشات کو آگے اوپن لیٹر کی شکل میں بھیج سکتے ہیں اور میڈیا کے ساتھ وہ لیٹر شیئر کر سکتے ہیں ۔تو پھر آزاد میڈیا اپنے طور پر حکومت سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ بڑی محنت سے یہ کام تیار کیا گیا تھا سفارشات بنی تھیں تو حکومت نے اس کا کیا کیا ؟ میرا خیال ہے کہ اس کام کا آغاز کیا جا سکتا ہے اور اسی سال سے کر دینا چاہیے ۔رمضان کے بعد ہم اپنی سفارشات کو حتمی شکل دیں گے اور مختلف اداروں کو بھیجیں گے تو پھر میڈیا سے بھی شیئر کر لیں گے ۔


اس سوال پر کہ آپ سیمینار بھی کرتے ہیں پھر سمپوزیم بھی منعقد کرتے ہیں اور پھر ایک ایکسپو بھی کرواتے ہیں اس سال اگست میں جو ایکس کو یا نمائش ہوگی اس میں کتنے شرکاء آ رہے ہیں اور باہر سے کتنے لوگ آئیں گے ؟ انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال کرونا کی وجہ سے نمائش نہیں کر پائے تھے لیکن اس مرتبہ پوری توقع ہے کہ جس طرح یہ سمپوزیم کامیاب ہوا ہے نمائش بھی کامیابی سے منعقد کی جائے گی ۔
==============================