اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) وزرائے خارجہ کونسل کا 48 ویں کانفرنس کا انعقاد – مسلم ممالک کے مندوبین 22 اور 23 مارچ 2022 کو اسلام آباد شریف لارہے ہیں – اس اجلاس کا موضوع، اتحاد، انصاف اور ترقی ہے

( تفصیلات نمائندہ جیو ے پاکستان ڈاٹ کام’ طارق اقبال سے ) پیر 21 مارچ 2022ء
پاکستان کی رکن ممالک کے درمیان اتحاد کو فروغ دینے، مسلمانوں کے لیے انصاف کے حصول کو بڑھانے اور او آئی سی کے تمام رکن ممالک کے لیے جامع اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کے عزم کی نمائندگی کرتا ہے۔‘ او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 48 ویں اجلاس کے موقع پر اسلامی دنیا کے وزرائے خارجہ، مندوبین اور دیگر اعلیٰ شخصیات کی پاکستان آمد کا پرتپاک خیر مقدم کرتے ہیں۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن قومی معاملات میں یکجہتی کا مظاہرہ ہونا چاہئے اور اس طرح کے بیانات سامنے نہیں آنے چاہئیں۔ جس سے ملکی وقار کو ٹھیس پہنچے، او آئی سی کانفرنس کا انعقاد ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مسلمان ممالک کی صورتحال نازک ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ممالک تنزلی کا شکار ہیں ، ایک وقت تھاجب مسلم ممالک پیشوائی و رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے تھے مگر آج حالت یہ ہے کہ مسلمان ممالک بکھرے ہوئے ہیں، ہماری اول و آخر شناخت ہمارا مذہب ہے مسلمان ممالک اجلاس میں مسائل پر بھی غور کریں اور اپنے اپنے ملک کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ درسگاہوں میں فرقہ وارانہ نصاب پڑھانے کی بجائے علم پڑھائیں تاکہ ہم مسلمان ترقی یافتہ ملکوں کا مقابلہ کر سکیں۔ او آئی سی کانفرنس کے حوالے سے اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ معزز مہمانوں کی آمد ہمارے لیے باعث مسرت و افتخار ہے، ہم ان کے جذبے اور عزم کی تحسین کرتے ہیں کہ وہ افغانستان، جموں و کشمیر، فلسطین سمیت اسلامی دنیا کو درپیش کثیر الجہتی درپیش اہم مسائل پر غور کے لیے 22 اور 23 مارچ 2022 کو اسلام آباد شریف لارہے ہیں، اپوزیشن سمیت تمام پاکستانیوں کو مسلم ممالک کے مندوبین کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خیر مقدم کرنا چاہئے۔ اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کے 48 ویں اجلاس کی خاص اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ پاکستان کی 75 ویں سالگرہ کے موقعے پر منعقد ہورہا ہے۔‘۔ پاکستان کے 22 کروڑ لوگوں کی اکثریت موجودہ حکومت سے مطمئن نہیں ہے، بد ترین مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث حکومت کے خلاف پہلے لاوا پک رہا تھا ، اگر حکومت میں تھوڑی بھی سوجھ بوجھ ہو تو اسے گولڈن چانس یا بہترین بہانہ میسر آیا ہے کہ وہ ایک طرف ہو جائے ، عدم اعتماد کی تحریک کے سلسلے میں وسیب سے جو ارکان منحرف ہوئے ہیں ان میں سے رانا قاسم نون نے نجی ٹی وی انٹرویو میں برملا کہا کہ ہم نے صوبہ محاذ بنایا تھا ، ہمارے ساتھ صوبے کا وعدہ پورا نہ ہوا، ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ نے بھی یہی بات کی ، ملک احمد حسین ڈیہر نے پہلے تو کمزور بات کی کہ میرے حلقے میں کرپٹ ایس ایچ او تعینات کئے گئے مگر بعد میں ایک نجی ٹی وی پر احمد حسین ڈیہر نے بھی کہا کہ ہمارے ساتھ صوبے کا وعدہ پورا نہیں ہوا، ہمارے وسیب کے لوگ طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم پر الزام بھی لگائے جا رہے ہیں اور واپسی کا بھی کہا جا رہا ہے ، شہباز گل کو کہا کہ آپ لوگ 18 کروڑ لینے کی بات کرتے ہیں جبکہ میں نے 40 کروڑ کی زمین ریسکیو 1122کو عطیہ کی ہے، ہم لینے والے نہیں ، ہم دینے والے لوگ ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ منحرف اراکین اسمبلی کو احساس ہو گیا ہے وہ جلد واپس آ رہے ہیں، ہماری رائے کے مطابق عمران خان خود ایک طرف ہو جائیں تو سیاسی حوالے سے ان کے لئے سود مند ہے، اب ان کی حکومت تماشہ بنی ہوئی ہے جبکہ اقتدار سے علیحدگی کے بعد وہ تماشہ دیکھنے والے ہوں گے اور اگلے الیکشن میں عمران خان مظلوم بن کر سامنے آ سکتے ہیں کہ مجھے مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، سیاسی لحاظ سے اس کا ان کو فائدہ ہوگا جبکہ اپوزیشن والے نہ تو مہنگائی کم کر سکیں گے اور نہ ہی لوگوں کو کچھ ریلیف دینے کے قابل ہوں گے اور اس سے پہلے وہ خود عہدوں کے معاملے پر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوں گے۔

=================================================