گورنر سندھ کی آمد پر تعلیمی اداروں کے کانووکیشن میں سیکیورٹی بڑھانے کا فیصلہ


تعلیمی اداروں کے کانووکیشن میں گورنر سندھ کی آمد پر سیکیورٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہےبا خبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے سندھ مدرستہ الا سلام یونیورسٹی میں گورنر سندھ کی آمد پر اسٹیج تک سیکیورٹی گارڈ ز کے پہنچنے کا سبب یہی فیصلہ ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے 8 1دسمبر کو ایک مصروف دن گزارا جس کے دوران گورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس کے بعد وہ عثمان انسٹیٹیوٹ اورڈاؤ یونیورسٹی گئے تھے۔ڈاؤ یونیورسٹی میں منعقد ہونے والےگیارویں کانووکیشن میں بھی شریک ہوئے، جہاں ڈاؤ یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے بعض افسران اور ملازمین نے عین اسی مقام پر ایمبولینس کھڑی کردی جہاں گورنر سندھ عمران اسماعیل اور ان کے قافلے کے ساتھ آنے والی گاڑیاں کھڑی ہونی تھیں۔ با خبر ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر سندھ کی سیکیورٹی پر مامور ڈی ایس پی اور دیگر اہلکاروں نے احتجاج کرنے والے ملازمین کوگورنر سندھ کے قریب آنے سے حفاظتی حصار بنا کر روکا۔گورنر سندھ کے سیکیورٹی اسٹاف کی جانب سے احتجاج کرنے والے ملازمین اور افسران کی جانب سے گورنر کا راستہ روکنے اور ان کی گاڑی کی جگہ ایمبولینس کھڑی کرنے کو بھی “سیکیورٹی خدشات” ہی تصور کی جا رہا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض حساس رپورٹس میں احتجاج کرنے والے افسران اور ملازمین کے اشتعال انگیز انداز میں گورنر سندھ کی جانب بڑھنےکو “حملہ” باور کرایا گیا ہےاور اس سلسلے میں “حملہ آوروں” کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ 18 دسمبر کے واقعات کے بعد 22 دسمبر کو گورنرجب سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے کانووکیشن میں پہنچےتو سیکیورٹی اسٹاف کے پیشِ نظر، وہ خدشات اور حساس اداروں کی سفارشات تھیں جس میں سیکیورٹی بڑھادی گئی۔ ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے ملازمین کے متعلق گورنر سندھ یا ان کے عملے کی جانب سےڈاؤ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو زبانی احکامات بھی دئیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں یونیورسٹی انتظامیہ نے گورنر اور صوبائی وزیر صحت کی آمد کے موقع پر احتجاج کرنے والے 10 ملازمین کو شوکاز نوٹس دئیے ہیں جن میں ان سے پوچھا گیا ہے کہ 18 دسمبر کو وہ اپنی ڈیوٹی پر موجود نہیں تھےاور وہ کانووکیشن گراؤنڈ میں کیوں موجود تھے جبکہ ان کی ڈیوٹی وہاں پر نہیں تھی۔ذرائع کا کہنا ہے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں جماعتیں اپنے تحفظات اور اختلافات کےباوجود تعلیمی اداروں اور صحت کے اداروں میں مزاحمتی تحریک کے خلاف ہیں۔ بدھ کے روز صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی نے واضح کیا کہ وہ جائز مطالبات کے لئے بھی اسپتال میں کسی ہڑتال کے حق میں نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت چاہتی ہے کہ صحت کے لئے مختص وسائل کا بڑا حصہ براہ راست مریضوں پر خرچ ہونا چاہیئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر کی سیکیورٹی بڑھائے جانے کے عملی اقدامات اور ڈاؤیونیورسٹی کی جانب سے ملازمین اور افسران کو شوکاز نوٹس کے اقدامات سے یہ واضح ہے کہ این آئی سی وی ڈی اور ڈاؤ یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے ملازمین سے سختی سے نمٹا جائے گا او ر اس نکتے پر وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس ایک پیج پر ہیں