وقت مائل بہ کرم تم پہ سہی آج، مگر کل غلاموں کا طرف دار بھی ہوسکتا ہے (سجاد لاکھاؔ)

ضمیرچھٹی پر ہے۔۔۔۔
محاسبہ
ناصر جمال

وقت مائل بہ کرم تم پہ سہی آج، مگر
کل غلاموں کا طرف دار بھی ہوسکتا ہے
(سجاد لاکھاؔ)
پاکستان کی سیاسی اشرافیہ پہلی بار مکمل ’’سرینڈر‘‘ کرچکی ہے۔ کبھی حد ہوتی تھی، یہ گھنٹوں کے بل، کان پکڑ کر بیٹھ جاتی تھی۔ مگر اس بار یہ آنکھیں ’’موند‘‘ کر لیٹی ہوئی ہے۔ کبھی یہ وائٹ ہائوس کے رخ سجدے کرتی، پینٹاگون کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتی اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مجاوروں کے سامنے چڑھاوے چڑھاتی تھی۔ مگر لگتا ہے، اب انھوں نے یہ تمام سہولیات مقامی طور پر تلاش کرلی ہیں۔ کون اتنے تردود کرتا پھرے۔ شاید اس کی ایک وجہ دنیا کی اسٹیبلشمنٹ کا یونی سے ملٹی پاور کی طرف تیزی سے سفر ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ابھرتی نئی سپر پاور کے ’’مقامیوں‘‘ سے اچھے مراسم ہیں۔ ہلتے سنگھاسن والوں کے بھی ’’مقامیوں‘‘ سے اچھے مراسم ہیں۔ وہ بھی ’’مقامیوں‘‘ سے بگاڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ پھر ہزاروں میل دور، امیدوں کے دربار پر حاضری کا کیا فائدہ۔ مقامی پیر کے ہاتھ پرہی بیعت اچھی۔، مقصد تو منتوں، مرادوں کا حصول ہی ہے۔ رخصت ہونیوالے ’’فرزند چکوال‘‘ کو اس پر داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ پہلی بار سب، کسی پر تو ایمان لائے۔ کیا(ن) لیگ، کیا پیپلز پارٹی، کیا تحریک انصاف تو ،کیا مذہبی اور کیا قوم پرست جماعتیں، سب ایک ’’امام‘‘ پر متفق ہیں۔ کون تھا، جس نے قطار میں لگ کر ووٹ نہیں دیئے۔ سب کرامات دیکھ چکے ہیں۔
ویسے ہی یاد آیا۔ سٹیچ پر پیر پگاڑو کیلئے سنگل صوفہ لگایا گیا تھا۔ باقی سب لوگ نیچے تھے۔اکبر بگٹی آئے تو وہ سیدھے پیر پگاڑو کے ساتھ جاکر بیٹھ گئے۔ اور کہا سب نیچے بیٹھنے والے، پیر صاحب کی کرامات دیکھ چکے ہیں۔میں نے ابھی تک اُن کی کوئی کرامت نہیں دیکھی۔ جس روز کوئی کرامت دیکھوں گا ،میں بھی نیچے بیٹھ جائوں گا۔ اسی طرح سے چکوال کے پہلوان کی ریوڑیوں کی کرامات پر پوری سیاسی اشرافیہ ایمان لے آئی ہے۔
جس نے اُس روز ووٹ نہیں دیا۔ شاید، اسکرپٹ میں اُس کا رول ہی یہی تھا۔ میٹھے میں کچھ حسب ذائقہ نمک بھی ضروری ہوتا ہے۔ بلکہ یہ میٹھے کا مزہ دوبالا کردیتا ہے۔ جیسے کسی زمانے میں، جو امریکہ کو سب سے زیادہ گلیاں دیتے، وہ شام کو امریکن ایمبیسی میں بدرجہ اُتم پائے جاتے۔ ان کی ڈیوٹی تھی۔ وہ باہر ’’مقامی ہیرو‘‘ کا کردار ادا کریں۔ اور سفارتخانے میں جاکر، بے قوف عوام اور میڈیا پر ہنسیں۔ اگر آج آپ دیکھیں، صرف کرداروں کے نام بدلے ہیں۔ اسکرپٹ، ڈائیلاگ وہی ہیں۔ وہی بیانیہ، وہی ایکشن، بڑھکیں، نظریئے، تقاریر،کچھ بھی نہیں بدلا اور بڑےمزے کی بات ہے، عوام بھی نہیں بدلے۔حتیٰ کہ سب بے نقاب ہوگئے۔ ’’سیاسی کارٹل‘‘ تک بے نقاب ہوگیا۔ پہلی بار اسکرپٹ رائٹر بھی، جلوہ افروز ہوا ہے۔ مگر وہ مان نہیں رہا۔ پنجابی کی مثال ہے کہ عاشق اندھا ہوتاہے، مگر پڑوسی اندھا نہیں ہوتا۔ عاشق بھی نہیں مانتا، اور محبوب بھی اونچی ہوائوں میں اُڑ رہا ہوتا ہے۔ وہ بھی کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ مگر بھانڈہ پھوڑنے والی نظر ہمیشہ طاق میں ہوتی ہے۔ اور بھانڈہ پھوٹ کر ہی رہتا ہے۔ یہ قانون فطرت ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اس ملک میں نورانی، طور، چیمے، عباسیوں، جیسے جعلی کیدوئوں نے منظر مکمل طور پر دُھندلا کر رکھ دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک منجھے ہوئے’’چوہدری‘‘ رپورٹر نے ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو اور سابقہ ویڈیوز پر سوال اٹھایا ہے کہ ’’ہمیشہ ایسا تمام مواد،’’مخصوص صحافیوں‘‘ اور ایک ہی لاڈلے گروپ کو کیوں دیاجاتا ہے۔‘‘ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’’ڈان لیکس‘‘ کے لئے بھی پہلے، اسی گروپ کو چُنا گیا تھا۔ اس کیلئے، ایک مخصوص کردار، کو بلایا گیا تھا۔ وہ دوڑ گیا۔ اُس نے کہا کہ اس بار شاید اُسے ‘‘طمنچے ‘‘ کی بجائے ’’توپ‘‘ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کبھی ضروری ہوا تو، نام بھی لکھ دوں گا۔ ’’سرل المیڈا‘‘ بھی قربانی کا بکرا تھا۔ آپ چیک کرلیں۔ اُس کا اُسلوب ہی کچھ اور ہے۔ اسٹوری کسی اور نے لکھی تھی۔ اُس نے اپنے رپورٹر کا نام استعمال کیا۔ دبائو آیا، تو قربانی کے بکرے کو ہوش آیا۔ اسے ایڈیٹرشپ کی ٹپ دی گئی تھی۔
کہنے کامقصد ہے۔ انتخاب لاڈلے صحافی اور میڈیا ہائوس ہی تھا۔ مجبوری اور تنگی وقت کے باعث ’’بچہ‘‘ کسی اور کے حوالے کرنا پڑا۔ وہاں بھی سمجھداری سے مہرے استعمال ہوئے۔
آپ غور کریں۔ سب کچھ، آخر عمر چیمہ، انصار عباسی، طورو، اعزاز سید، ابصار عالم، حامد میر، طارق بٹ وغیرہ ہی کے گرد کیوں گھومتا ہے۔ وہی جنگ گروپ لانچنگ پیڈ کیوں ہے۔ کبھی یہ اعزاز ’’کامران خان‘‘ کے پاس ہوتا تھا۔ جب وہ اسی گروپ کے ساتھ ہوتے تھے۔ نجم سیٹھی کے بھی اس گروپ میں کمال اقبال بلند ہوئے ہیں۔ ویسے وہ باصلاحیت، کہیں بھی اقبال بلند کرسکتے ہیں۔ طلعت حسین بھی یہیں کا خمیر ہیں۔ سہیل وڑائچ کا ذکر نہ کرنا بھی زیادتی ہے۔ ’’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘‘ ہنسی آتی ہے۔ شنید ہے کہ وہ آج کل اپنے ’’جاٹ بھائی‘‘ فواد چوہدری کے ہاتھ پر ’’بیعت‘‘ کرچکے ہیں۔
ویسے میں میر شکیل الرحمٰن کی اعلیٰ صلاحیتوں کا معترف ہوں۔ وہ بھی صحافت اور مفادات کی شطرنج پر کمال مہرے رکھتے ہیں۔ وہ بھی میٹھے کے ساتھ، ساتھ، نمک ضرور رکھتے ہیں۔ مگر اس بار انہوں نے بڑی ہی گھٹیا کوالٹی کا نمک رکھا ہوا ہے۔ وہ اپنے بہترین ٹی۔ وی پر ’’پرچی اور بہنوئی‘‘ برانڈ پر اکتفا کرگئے۔ یہ بھی ان کا ہی کمال ہے۔ صالح ظافر نامی مربہ بھی، ابھی تک سنبھال کر رکھا ہے۔ وہیں پر آپ کچھ بھی کہہ لیں۔ آپکو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ’’خود کو میڈیا کے میدان میں نمبر ون پر رکھا ہوا ہے۔‘‘ ’’ایجنڈے‘‘ ان کی مجبوری ہے۔ مگر اس پر میں انھیں داد دیتا ہوں کہ آج بھی، صرف ان کے اخبار اور ٹی۔ وی پر ’’خبر‘‘ ضرور ہوتی ہے۔ جس سے تمام میڈیا ہائوسز دستبردار ہوچکے ہیں۔ رئوف کلاسرہ کی خبر کسی میڈیاہائوس کی محتاج نہیں ہوتی۔ وہ خود نیوز کا ایک مکمل برانڈ ہے۔ ان کا خالص سودا، میڈیا ہونہ ہو، ڈیجیٹل پلیٹ فارمزپر بھی خوب بکتا ہے۔ خبر، مواد اور تحقیق کے ساتھ، اُن کے پاس ہی ہوتی ہے۔ شہباز رانا اور خلیق کیانی، مہتاب حیدر اپنے دوست فرخ نواز اور طاہر شیرانی سے معذرت کے ساتھ، ان کے پاس بھی کمال خبریں ہوتی ہیں۔ بطور خاص شہباز رانا اور نوجوان طاہر شیرانی کے پاس۔ یہ نوجوان ہیں۔ ابھی انھیں، ان کا صحیح مقام ملنا ہے۔ جیسے قیوم صدیقی اور طارق چوہدری کے پاس سپریم کورٹ کی خبریں ہوتی ہیں۔ قیوم صدیقی تو سپریم کورٹ بیٹ کا ’’ڈان‘‘ہے۔ اس کے پاس تو،کبھی فیصلہ ہونے سے پہلے بھی فیصلہ پہنچ جایا کرتا تھا۔ درمیان میں کوئی پردہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ بقول عزیز عاطف شیرازی کے ’’حفظ و مراتب‘‘ کے پردے چاک ہوجایا کرتے تھے۔
’’فرزند چکوال‘‘ نے البتہ میر شکیل الرحمٰن کی یہ غلط فہمی دور کردی ہے کہ ’’وہ اس ملک میں حکومتیں گراتے اور بناتے ہیں۔‘‘ چلیں، میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ اچھا ہی ہوا۔ مگر انھوں نے نجم سیٹھی کی طرح، وقت سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ دونوں کبھی نواز شریف کے ’’قتیل‘‘ تھے۔ پھریہ میاں نواز شریف کے بیسٹ فرینڈ بن گئے۔ ابھی تک اس دوستی کے لئے، اپنی ’’کریڈیبلٹی‘‘ تک دائو پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ ہر ڈراور خوف سے مقابلہ کرتے ہیں۔ پھر پتلی گلی سے نکل بھی جاتے ہیں۔ ان کا دوست بھی مجبوریاں سمجھتا ہے۔ اسے بھی بس اتنی ہی ’’فیور‘‘ درکار ہوتی ہے۔ تاکہ اُس کی بارگینگ پوزیشن بہتر ہو۔
قارئین!!! سیاستدانوں کی طرح میڈیا ہائوسز کی غالب ترین اکثریت، سیاسی اشرافیہ کی طرح سجدہ ریز ہے۔ البتہ آپ اس ضمن میں صحافیوں کی چند توانا آوازوں نے ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا مزہ ’’کرکرا‘‘ کیا ہوا ہے۔ انھیں چباتے ہیںتو ،دانٹ ٹوٹتے ہیں۔ نگلتے ہیں تو، پیٹ اور اندرونی نظام خراب ہوتا ہے۔ اگلتے ہیں تو بے عزتی ہوتی ہے۔ اس کیلئے ’’جاٹ وزیر اطلاعات‘‘ کا گنڈاسا بھی کام نہیں آیا۔ حالانکہ میڈیا کی گردن اتارنے کا پروگرام ابھی تک موخر نہیں ہوا۔ صرف طریقہ واردات بدلا ہے۔ شاید میڈیا کی پیار سے کھال اتارکر، اسے بھوسے والا شیر بنانا مقصود ہے۔ یہ صحافی بھی بہت ہی ڈھیٹ مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ ایک کی ایک بڑی تعداد کو بے روزگار کرکے، بہت سوں کو مخصوص لیڈروں کے پیچھے لگا کر، بندہ کا پتر بنایاگیا۔ مگر پھر بھی کچھ دیوانوں کو ابھی ’’سدھایا‘‘ نہیں جاسکا۔ کیونکہ یہی ’’صحافتی شیر‘‘ نہیں بلکہ ’’صحافتی بھیڑیئے‘‘ ہیں۔ اور آپ نے کبھی کسی بھیڑیئے کو کسی ’’سرکس‘‘ میں کام کرتے نہیں دیکھا ہوگا۔ آپ کو یہ بھی پتا ہونا چاہئے کہ بھیڑیا، خاندان، بوڑھے ماں باپ کی خدمت، ایک شادی، انتقام، حکمت عملی سمیت بہت سے دیگر اوصاف کا مالک ہوتا ہے۔
دور جدید میں ان کا کیا علاج کیا جائے، یہ نسخہ کیمیا، ابھی تک کسی کے ہاتھ نہیں لگا۔
قارئین!!!
اس وقت حکومت، اپوزیشن، دوست، ادارے سب ایک پیج پر ہیں۔ ایک نظرنہ آنے والا ستون، بہت گڑ بڑ کررہا ہے۔ وہ علی احمد کُرد کی طرح مسلسل’’رنگ میں بھنگ‘‘ ڈال دیتا ہے۔ اس وقت حالت دیدنی ہوتی ہے۔ جب رنگ میں بھنگ ڈالنے والوں کا سی۔ وی۔ سامنے آتا ہے تو، غصہ اور بڑھ جاتا ہے۔ معاشرے کے معیارات کے مطابق تو ،یہ ’’تھرڈ ریٹڈ‘‘ لوگ ہیں۔ بینک بیلنس، تنخواہیں، سہولیات، گھر، زندگی، کا معیار، سواریاں، کچھ بھی تو ڈھنگ کا نہیں ہے۔ پھر یہ کیسے مزاحمت کررہے ہیں۔ بے روزگاری، کم اجرتوں کے میزائل بھی یہ برداشت کرگئے۔ تمام ارب اور کروڑپتی’’صحافی‘‘ جی ’’حُجور، حجور‘‘ کررہے ہیں۔ پھر انھیں کیا مسئلہ ہے۔
ملکی اشرافیہ کو مشورہ ہے کہ ان ’’مزاحمتیوں‘‘ کو بھی سیٹھ بنادو۔ ان پر تو سیٹھوں کو بجلی، گیس کی مد میں ملنے والی کھربوں کی سبسڈی، روپے کی تنزلی سے پیدا ہونے والے ڈالروں کے بچے اور اربوں میں تبدیل ہوجانے والے پلاٹوں سے بھی کم خرچ ہونگے۔ آپ کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
البتہ ایک مسئلہ ہوجائے گا۔ یہ ملک ریاض، میر شکیل الرحمٰن، اے۔ کے۔ ڈی، عارف حبیب، علیم خان، جہانگیر ترین، بننے پر بھی، واپس اُسی راستے پر ہولئے تو، کیا ہوگا۔
یہ ضمیر بہت خراب چیز ہے۔ کسی کو یہ کُرد تو کسی کو کلاسرہ۔ کسی کو ضیاء الدین تو کسی کو شہباز رانا، کسی کو مہتاب حیدر تو کسی کو ثناء اللہ، کسی کو قیوم صدیقی تو کسی کو شیرانی، کسی کو خلیق کیانی کسی کو ایاز امیر، کسی کو ندیم ملک، کسی کو سہیل بھٹی، کسی کو ناصرہ زبیری تو کسی نادرشاہ عادل، کسی کو صفدر بھائی تو کوئی جی۔ ایم جمالی، کوئی جاوید چوہدری کراچی والا، کسی کو شاید نبی ملک توکسی کو ادریس بختیار، ارسلان بختیار، کسی کو تنویر عباس نقوی، کسی کو نوشین نقوی، کسی کو شہزاد فاروقی، کسی کو استاد ریاض تھہیم، کسی کو میجر علیم ملک، کسی کو شیخ ایوب ناصر تو کسی کو تنویر ہاشمی، عزیزی عاطف شیرازی، فرید رئیس تو، کسی کو امتیاز فاران، عاجزجمالی اور پتانہیں، کیا، کیا بنا دیتا ہے۔
اب صاحب، آپ ہی بتائیں، ایک پیج کا کاروبار کیسے پنپے گا۔ اس کیلئے ضمیر کو چھٹی پر بھجوانا پڑے گا۔
نظام عدل میں کسی نے نقب لگائی تھی؟
ضمیر کس نے خریدے؟ یہ کل کا قصہ ہے
(سجاد لاکھاؔ)