ضیاء مصطفی کی موت۔؟ پونچھ میں 20 روز سے مقابلہ جاری ۔

سچ تو یہ ہے۔

بشیر سدوزئی

آزاد کشمیر خاص طور پر راولاکوٹ کی سول سوسائٹی کا احتجاج ہے کہ حکومت پاکستان ضیاء مصطفی کا جسد خاکی ان کے ورثاء کے حوالے کرنے کا حکومت بھارت سے سرکاری مطالبہ کرے ۔۔ جسے بھارتی فورسز نے 24 اکتوبر کو پونچھ کے علاقے سرن کوٹ کے جنگلات میں جعلی مقابلے میں شہید کر دیا۔ ضیاء مصطفی راولاکوٹ کا شہری جو جموں کی کوٹ بلوال جیل میں گزشتہ 18 سال سے قید تھا، 24 اکتوبر 2021ء کو پونچھ کے علاقہ سرن کوٹ کے جنگلات میں جعلی مقابلے میں شہید کر دیا گیا ۔ 10 اپریل 2003 کوگرفتاری ظاہر کرتے ہوئے سری نگر میں جموں وکشمیر کے ڈی جی پولیس اے کے سوری نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ضیاء مصطفیٰ لشکر طیبہ کا ڈسٹرکٹ کمانڈر اور 24 کشمیری پنڈتوں کے قتل کا ماسٹر مائنڈ ہے ۔ یہ پنڈت پلوامہ کے ندی مرگ گاوں میں قتل کئے گئے تھے۔ جس کے بعد خوف سے پشتی باشندے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ ۔ بھارت نےدنیا بھر میں واویلا مجایا، اس کا اتنا اثر ہوا کہ پرویز مشرف کو کشمیر پالیسی میں تبدیلی، جہادی تنظیموں پر پابندی اور مجاہدین کی عملی حمایت بند کرنا پڑی۔جموں کشمیر کے پولیس سربراہ نے اس وقت میڈیا کو بتایا تھا کہ  ضیاء مصطفیٰ کے پاس سے اے کے۔47 رائفل، گولہ بارود، وائرلیس سیٹ اور دیگر دستاویز برآمد ہوئے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق  ضیاء مصطفی نے تفتیشی ٹیم کو بتایا کہ اسے پاکستان میں واقع لشکر طیبہ کے لیڈروں نے کشمیری پنڈتوں کو قتل کرنے کے لیے اکسایا ۔ لشکر طیبہ سمیت تمام مذاحمتی گروپوں نے پنڈتوں کے ساتھ پیش آنے والے اس لرزا خیز واردات سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور کہا تھا کہ یہ بھارتی حکومت کی کشمیر میں مذہبی نفرت پھیلانے کی سازش ہے۔ عملی طور پر اس واردات کا فائدہ بھارت کو ہی ہوا تھا،تاہم ضیاء مصطفی کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ اتوار 24 اکتوبر 2021ء کو صبح پونچھ کے علاقے مینڈھر اور سرنکوٹ کے پہاڑی علاقوں کے گھنے جنگلات میں جاری حریت پسندوں کے ساتھ مقابلے میں بھارت کے دو پولیس اہلکار اور ایک آرمی افسر زخمی ہوگئے تھے۔ گزشتہ 20 روز سے جاری اس مقابلے میں 11 سے 14 اکتوبر تک 9 فوجی اہلکار مارے گئے ۔ جموں وکشمیر پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پونچھ تصادم کے دوران پاکستانی لشکر طیبہ کا دہشت گرد ضیاء مصطفیٰ کو دہشت گردوں کا پتہ لگانے کے لئے بھٹا دریاں لے جایا گیا تھا۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرچ آپریشن کے دوران آرمی اور پولیس کی مشترکہ ٹیم پر دہشت گردوں نے دوبارہ فائرنگ شروع کی جس سے دو پولیس اہلکار اور آرمی کا ایک افسر زخمی ہوگیا۔ اسی فائرنگ میں دہشت گرد ضیاء مصطفیٰ بھی زخمی ہوا۔ بھاری فائرنگ کے سبب اس کو جائے حادثہ سے فوراً نکالا نہیں جاسکا، تاہم بعد میں باڈی کو انکاونٹر سائٹ سے نکال لیا گیا۔ ہفتہ 23 اکتوبر پولیس ضیاء مصطفیٰ کو 10 دنوں کے ریمانڈ پر کوٹ بلول جیل سے مینڈھر لے گئی۔پولیس کو رپورٹ ملی تھی کہ وہ جیل سے پاکستان میں لشکر طیبہ کے لیڈروں کے ساتھ مبینہ طور پر رابطے میں تھا۔ پونچھ کے جنگلات میں جو افراد مذاحمت کر رہے ہیں ضیاء مصطفی ان کے بھی رابطہ میں ہے۔ یہ سب صورت حال بھارتی فورسز کے اوسان خطا اور ڈپریشن کی نشان دہی کرتی ہے۔ بھارتی جیل میں کشمیری حریت پسند ضیاء مصطفی کو یہ ساری سہولتیں کہاں سے میسر آئیں بھارتی پولیس اس حوالے سے خاموش ہے ۔ میڈیا ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں کشمیری مذاحمت کاروں کے ساتھ 20 روزہ اصاب شکن مقابلے میں ناکامی کے بعد بھارتی فورسز فرسٹیشن کا شکار ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں پہلے سے شدت لائی ہیں۔ نہ صرف ضیاء مصطفی کو جیل سے لا کر شہید کر دیا بلکہ مقبوضہ پونچھ، کے علاقے سرن کوٹ کے بلند و بالا پہاڑی جنگلات میں آگ لگا دی ہے۔ بظاہر تو اس آگ کا مقصد آتنگ بازوں کی کمین گاوں کا خاتمے ہے لیکن حقیقت میں بھارتی فورسز پر حریت پسندوں کا خوف طاری ہے جس کی وجہ سے وہ آپریشن کی غرض سے جنگلات میں داخل نہیں ہو سکتی۔ بھارتی آرمی اور حریت پسندوں کے درمیان 20 دن سے جاری مقابلے کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ۔ 1989 کے بعد یہ سب سے طویل مقابلہ ہے جسے بھارتی فورسز سرچ آپریشن کا نام دے رہی ہے لیکن جو عملی اقدامات ہو رہے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ 15 لاکھ سے زیادہ مسلحہ اہلکار مقبوضہ کشمیر کی تحریک مزاحمت پر قابو پانے میں ناکام ہو چکے، بلکہ خوف زدہ بھی ہیں۔ مقبوضہ پونچھ کے 20 کلومیٹر علاقہ فوج کے گھرے میں اور غیر اعلانیہ کرفیو لگا رکھا ہے جہاں بلند ترین پہاڑی جنگلات کے ساتھ کئی گاوں میں آباد ہزاروں افراد اور جانور گزشتہ 20 روز سے گھروں میں بند ہیں ۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق وہی دروازہ کھلنے کی اجازت ہے جس پر بھارتی فورسز دستک دیں ۔ 20 دن قبل بھارتی فورسز اور مذاحمت کاروں کے درمیان راجوری اور پونچھ کے سنگم میں جھڑپ کے دوران 7 بھارتی فوجی ہلاک ہونے پر مذید کمک منگوائی گئی تھی دو فوجیوں کی بعد میں لائشیں ملی تھی جن کو حریت پسند ساتھ لے گئے تھے۔ تاہم مذاحمت کاروں کو گرفتار یا ہلاک کرنے میں بھارتی فورسز بری طرح ناکام ہوئیں۔ بھارتی فورسز کا خیال ہے کہ مذاحمت کار مینڈھر کے جنگلات میں چھپے ہوئے ہیں اور علاقے کے مکین ان کے سہولت کار ہیں ۔درہ گلی، طوطا گلی ،منڈی، بھٹا دورئیاں ،بھمبر گلی اور جڑاں والی تک کے علاقوں کے کئی گاوں میں سرچ آپریشن کے نام پر انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ بھارتی آرمی کے مسلحہ دستے، گن شپ ہیلی کاپٹر، ڈرون، بھاری توپ خانہ اور کمانڈو فورس بھی مذاحمت کاروں پر قابو پانے میں ناکام ہے۔اس دوران 4 کشمیریوں کو شہید اور دو خواتین سمیت 25 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ زرینہ بی بی پر الزام ہے کہ اس نے فوجیوں کو ہلاک کرنے والے آتنگ بازوں کو پناہ اور بھاکنے میں مدد کی۔ فوج میں روز بروز اضافہ کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کے مختلف چینل مقامی لوگوں کے حوالے سے رپورٹ کرتے ہیں کہ روزانہ کئی فوجی کانوائے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہورہے ہیں، پہلے ہی 9 لاکھ کے لگ بھگ فوج تعینات ہے، خدشہ ہے کہ بھارتی سرکار کوئی بڑی گھناونی سازش کرنے جارہی ہے۔اکتوبر کے مہینے میں بھارتی فوج نے 16 کشمیریوں کو شہید کیا۔ جب کہ پانچ کشمیری صحافیوں کو تشدد کے بعد حراست میں لے کر ٹارچر کیا جارہا ہے۔ان کا محض یہ جرم ہے انہوں نے مقبوضہ کشمیر کی صحیح صورت حال،عالمی میڈیا کو بتائی۔ مقبوضہ پونچھ کی صورت حال انتی خراب ہو چکی کہ بھارتی آرمی چیف نے ایل او سی کا دورہ کیا اور پونچھ کی صورت حال پر بریفنگ لی، بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی آرمی چیف کئی روز سے جاری آپریشن میں شریک بھارتی فوج کے اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں، سوشل میڈیا پر متحرک افراد مسلسل خبریں، تصویریں اور ویڈیو لوڈ کر رہے ہیں کہ فوجیوں نے پیراملٹری فورسز کے ہمراہ دونوں اضلاع کے علاقوں مینڈھر ، تھنہ منڈی اور سرنکوٹ میں کارروائیاں تیز کی ہوئی ہیں اور پورا دن شدید فائرنگ جاری رہتی ہے ۔ضلع پونچھ کے علاقے بھٹا دورئیاں کے رہائشی افراد نے میڈیا کو بتایا ہے کہ وہ گزشتہ چند دنوں سے مسلسل علاقے میں بڑے دھماکوں کی آوازیں سن رہے ہیں جس کی وجہ سے شدید خوف و دہشت پائی جاتی ہے۔ تمام علاقے 20 روز سے جموں اور سری نگر سے کٹے ہوئے ہیں حتی کہ راجوری اور پونچھ کے اندرونی علاقے میں بھی آمدورفت بند ہے انسانوں اور جانوروں کا راشن ختم ہے علاقے میں کئی ہزار افراد فاقہ کشی کا شکار ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ صورت حال کا نوٹس لیا جائے ۔