کشمیر میں تشدد کی تازہ لہر 1150 گرفتار 6 ہلاک، بھوڑھے تھانہ طلب ۔

سچ تو یہ ہے،
—————


بشیر سدوزئی،
————–

بھارتی فورسز نے وادی کشمیر میں گرفتاریوں کا سلسلہ اچانک تیز کر دیا۔ چار روز کے دوران 1150 نوجوانوں کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں۔ وائس آف امریکہ نے 700 سو بتاتا ہے ۔ جن کو بھارت کی مختلف ٹارچر سیلوں میں منتقل کر دیا گیا ۔ معمر خواتین و حضرات کو صبح و شام تھانہ میں طلب کیا جا رہا ہے۔ اسی دوران سات نوجوانوں کو شیہد کر دیا گیا ۔ علاقوں میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائی ابھی بند نہیں ہوئی۔سری نگر میں شہریوں نے ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ بھارتی فورسز نے جبر واستبداد کی کارروائیاں تیز کر دی ہیں اور ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول ہے۔ فورسز تلاشی کے بہانے ہر گھر میں گھس کر خواتین کے ساتھ بدتمیزی اور بزرگوں کی بے حرمتی کر رہی ہے ۔ ستر برس سے زائد عمر کی خواتین کو بھی تھانوں میں طلب کر کے ہراساں کیا جا تا ہے ۔اس انسان سوز کارروائی کی نگرانی بھارتی انٹیلی جنس بیورو ، انسداد دہشت گردی آپریشنز کے سربراہ تپان ڈیکا کر رہے ہیں جو سری نگر میں موجود ہیں۔ ریاستی دہشت گردی اور تشدد کی یہ تازہ لہر چار غیر مسلموں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد شروع کی گئی۔ آزادی پسند تنظیموں نے ان قتال کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ مسلمان قائدین اور عوام ان واقعات کی مذمت کر رہے ہیں، لیکن بھارت سرکار اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ سری نگر میں غیر مسلموں کی نشانہ بند قتل سرحد پار کی ہدایت پر علیحدگی پسندوں نے کی کارروائی ہے۔ لہذا ان کے قلع قمع تک ریاستی آپریشن اور تشدد جاری رہے گا۔ گورنمنٹ بوائز ہائر سیکنڈری سکول عید گاہ سری نگر کی پرنسپل سپندر کور اور استاد دیپک چند کو جمعرات کی صبح نامعلوم مسلح افراد نے گھات لگا کر گولیوں کا نشانہ بنایا۔جب کہ 5 اکتوبر کی شام سری نگر اقبال پارک کے نزدیک معروف دوا فروش کشمیری پنڈت اور ہندو برہمن مکھن لال بندرو کو ان کی دکان بندرو برادرز ہیلتھ زون کے سامنے گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔۔ اس کے کچھ ہی منٹ بعد نامعلوم افراد نے سری نگر کے لال بازار میں وریندر پسوان نامی ایک پانی پوری بیچنے والے کو سر عام قتل کر دیا گیا۔ دا رزسٹنس فرنٹ‘ (ٹی آر ایف) نامی تنظیم نے مبینہ طور پر ان ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کی ہے زمین پر جس کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی یہ کوئی مزاحمتی گروپ ہے۔ تاہم بھارتی حکومت اور فورسز اس تنظیم کو لشکر طیبہ کی ایک ذیلی شاخ قرار دیتی ہیں۔جب سے مودی برسراقتدار آیا جموں و کشمیر کے عوام کو سکون سے نہیں رہنے دیا جا رہا ۔وادی میں صورت حال پرسکون ہونا شروع ہوتی ہے اچانگ ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جس کا بہانہ بنا کر بھارتی سرکار تشدد انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور گرفتاریاں و قتل عام شروع کر دیتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ سرکار بچوں کو جوان ہونے کے انتظار میں کچھ توقف کرتی ہے ۔ جوں ہی نئی فصل تیار ہوتی ہے کاٹنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ کشمیریوں کی نسل کشی کی بدترین مثال ہے جو دنیا کے کسی کونے میں نہیں ملتی ۔ اس ریاستی جرم کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے کشمیریوں کے پاس موثر سفارتی ذریعہ نہیں ۔ انہوں نے اس ظلم کے خلاف سفارت کاری کرنے کی کبھی کوشش بھی نہیں کی ۔ دنیا نے مانا کہ کشمیریوں کے سفیر وزیر اعظم عمران خان کی تقریر آج کے عالمی رائنماوں میں سب سے اعلی ہے۔ اقوام متحدہ میں ان کی تقریر کو گزشتہ دو سال کی طرح اس سال بھی سب سے زیادہ سنا اور دیکھا گیا۔ عمران خان کی تقریر پر اثر بھی تھی اور بامقصد بھی جس میں ان مسائل کو زیر بحث لایا گیا جو آج دنیا کے لیے کور ایشو ہیں ۔ کشمیر ہمارا کورایشو ہے جس پر وزیر اعظم پاکستان نے مدلل گفتگو کی۔ طیب اردگان نے بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کو خوب لتاڑا۔ کیا ان تقریروں سے کشمیریوں کو بھی کچھ سہولت حاصل ہوئی یا بھارت پر بھی کچھ اثر ہوا۔ امریکی صدر کی جانب سے مودی کو گاندھی کا فلسفہ امن کا سبق یاد کرانے کے باوجود شیاما پرساد موکر جی کے پیروکار ہٹلر ثانی کو ایک ریاست کے انسانوں پر بربریت روکنے کا کوئی نہیں کہتا ۔ عمران خان نے پہلے سال کے خطاب میں نریندر مودی کو اور اس کی پالیسیوں کو بے نقاب کیا تھا۔ اس خطاب کی واہ واہ جاری تھی کہ مودی نے 5 اگست کا اقدام کیا ۔ اس سال کی تقریر کی گونج ابھی باقی ہے کہ وادی کشمیر میں انسانی زندگی اجیرن بنا دی گئی ۔ مبینہ طور پر ستر سال سے زائد عمر کی خاتون کو صبح و شام تھانہ حاضری لگانا پڑتی ہے ۔ بھارت یہ خوب جانتا ہے کہ ستر سال کی عورت دہشت گردی نہیں کر سکتی لیکن وہ کشمیری عوام کو نفسیاتی طور پر اتنا تنگ اور پریشان کررہا ہے کہ لوگ اپنے بین الاقوامی تسلیم شدہ حق سے دست بردار ہو جائیں ۔ اس کے لیے وہ نسل کشی اور نئی نسل کے ہر فرد کو گرفتار اور ٹارچر کیا جا رہا ہے۔ جو قابو میں نہ آئے وہ قتل ہو رہا ہے۔ عمر رسیدہ خاتون آسیہ اندرونی اور ان کی ساتھیوں پر فرد جرم عائد کی گئی ہے ۔ ان مظالم کا مقابلہ اور تدارک تقریروں سے ممکن نہیں۔ تقریر سے اب یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ۔ کشمیر کا مسئلہ بین الاقوامی سطح پر ایک بڑی سیاسی مہم اور جارانہ سفارت کاری سے کا متقاضی ہے ۔ جس کو کشمیریوں نے خود چلانا ہے۔ پاکستان اندرونی اور بیرونی مشکلات اور بعض سفارتی مجبوریوں کے باعث بھارت کے خلاف جہارانہ سفارت کاری نہیں کر سکتا اور نہ ہی سفارتی تعلقات ختم کر سکتا ہے۔ بھارت اس کے بغیر ٹیبل پر آنے والا نہیں ۔ مودی کو کشمیریوں سے نہیں کشمیر اور وہاں ہندو آباد کاری سے مطلب ہے تاکہ آبادی کا تناسب تبدیل کر دیا جائے۔ وہ کشمیری معاشرے کو صدیوں پیچھے لے جانے چاتا ہے جب ہندو راجہ مسلمان ہوا، اس کے ساتھ عوام بھی مسلمان ہو گئے تھے۔ کشمیری اس عمل میں مذاحمت کر رہے ہیں ۔ مودی ان کو زندہ دیکھنے نہیں چاتا ۔ عمران خان نے اس بار بھی خطاب بہت اچھا کیا مگر کیا۔ بھارت نے کشمیر کے حوالے سے جو اقدامات کیے ہیں یا کر رہا ہے ان کا محض اچھے خطاب سے تدارک ممکن ہے۔ اسلام آباد کے حالیہ دورے کے دوران آل پارٹیز حریت کانفرنس پاکستان چپٹر کے کچھ رہنماؤں سے ملاقات کا موقع ملا جن کو کنفیوز پا کر حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ۔ حریت یہ جاننے کے باوجود کہ ان کی سیاست اور سفارت کاری فی زمانہ نہیں، وقت کے ہم آہنگ فیصلہ کرنے سکت کھو چکی ۔ اگر کوئی درست سمت کی نشان دہی کرے بھی تو حریت قایدین خاموش رہتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کاروبار میں مصروف ہے ۔ کشمیری قوم اجتماعی طور پر قیادت سے بانجھ ہے۔ سوچنے کا مقام آ پہنچا کہ کشمیری ایک لاکھ نوجوانوں کے خون کو بھولنا چاتے ہیں یا یہ تشدد خاموشی سے آخری کشمیری کے قتل تک سہتے رہیں گے۔ سوچنا چاہئے کہ بھارت کے خلاف ایسی کیا جامع حکمت عملی تشکیل دی جائے جس سے بھارت مذاکرات کے ٹیبل پر آئے اور تشدد بند کرے، سیاسی ماحول بحال ہو ۔ اس کے لیے ہمہ گیر جہارانہ بین الاقوامی سفارتی مہم کی ضرورت ہے تاکہ اس نازک مرحلے پر ریاست کی وحدت پر کوئی آنچ نہ آ سکے۔کشمیریوں کو جلد کچھ سوچنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ اس حوالے سے ہمارا موقف عالمی سطح پر مسترد کردیا جائے۔