رفیق آزاد بھی چلے گئے۔ ہمیں خود ہی کچھ کرنا پڑے گا

۔
سہیل دانش
—————-

میں نے آخری بار انہیں ہل پارک جنرل ہسپتال کے آئی سی یو میں دیکھا تھا وہ نلکیوں میں لپٹا ہوا تھا۔ سارا درد کرب اس کے دل کا سارا اضطراب اس کے چہرے پر ابھر آیا تھا بہت پیارا ساتھی تھا۔وہ اُمنگ وہ حوصلے وہ ارادے اور وہ رنگین خواب سب کچھ اپنے ساتھ لے گیا۔ جب ہم نے 1996؁ء میں لاہور سے روزنامہ دن کا آغاز کیا تو رفیق آزاد کراچی بیورو میں کرائم رپورٹر کی حیثیت سے ادارے سے وابستہ ہو گیا۔ پیارے دوست زاہد سید کراچی میں ”دن“کے پہلے بیوروچیف تھے۔ پہلی بار رفیق آزاد سے انہوں نے متعارف کرایا۔ زاہد سید کی یادیں اور باتیں سچ مچ بہت یاد آتی ہیں۔ کیا زندہ دل انسان تھے موت کا فرشتہ انہیں بھی آناً فاناً جھپٹ کرلے گیا تھا۔
صحافت بھی ادب کی طرح زندگی میں عہد بہ عہد بدلتی ہے۔ ترقی کے زینے چڑھ رہی ہے۔ روپ بدل رہی ہے۔ وقت نے ہم سب کی طرز زندگی بھی بدل ڈالی ہے۔ کائنات کے کچھ نئے رموز بھی آشکار ہو گئے ہیں۔ فکر و شعور کے کچھ درکھلے دنیا سمٹ کر رہ گئی۔
لیکن جب میں گذشتہ چند برسوں میں رفیق آزاد اور ان جیسے متعدد ساتھیوں کی سماجی و معاشی نا آسودگی کی وجہ سے اس شعبے میں جو اضطراری اور مایوسی کی کیفیت دیکھتا ہوں۔ جب میں اپنے ساتھیوں کو مسائل اور الجھنوں سے نبرد آزما دیکھتا ہوں جس نے انہیں جسمانی طور پر بھی شکست و رنجت سے دو چار کر دیا۔ تو میں اس صورت حال کا سب سے بڑ ا ذمہ دار خود صحافی برداری کو سمجھتا ہوں۔میں سوچ رہا ہوں ہماری زندگی بھی تو اس ہائی وے کی مانند ہے جہاں زندگی کی شاہراہ پر ہم چلتے رہتے ہیں۔ دوڑتے رہتے ہیں بے حد مصروف اور اپنی دھن میں مست راہگیروں کی طرح جو ایک لمحے کے لئے ایک دوسرے سے ملتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں مسکرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں دوستیاں، قہقہے، چٹ پٹے کھانے کی تواضح ایک دوسرے کے لئے دم بھرتے نہیں تھکتے۔ پھر اپنی اپنی Exitکا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ جو ہمیں ایک دوسرے سے دور تنہائی کے اس بے کراں سمندر کی طرف لے جاتی ہیں۔ جہاں ہم اجنبیت کے خلاف اپنے تن پر چڑھائے اپنے اپنے دکھ کی صلیب اپنے کندھوں پر اٹھائے اکیلے اور تنہا رہ جاتے ہیں یہ منظر میں آج کل اپنی صحافت کے فرش پر دیکھ رہا ہوں۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم اپنے اردگرد کے حالات اور واقعات سے لا تعلق سے ہو گئے ہیں ہم میں احساس کی حس سکڑتی جارہی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ جب میں اپنے ساتھیوں کو تنگدستی کا شکار دیکھتا ہوں برادرم سعید خاور نے رفیق آزاد کی موت کا نوحہ کس خوبصورتی سے لکھا ہے۔ مکان کا کرایہ، بچوں کی تعلیم، چیختی چھنگاڑتی بیماریاں، نان نفقہ جب بندہ بے بس ہو کر ہر نعمت سے محروم ہو جائے تو کیا کرے۔ بیماریاں اس کو آپکڑ تی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ اس کے بے دم جسم سے جان نکل جاتی ہے یہ تماشہ ہمارے سامنے ہو رہا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں۔ برادرم سعید خاور اس کی ذمہ داری کووڈ 18اور کووڈ 19پر ڈال رہے ہیں۔ جب مہنگائی اور مسائل سے لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں حکومت ڈھٹائی سے ریاست مدینہ کا درس دے رہی ہے۔ اگر ان پر تجزیہ کریں گے تو کچھ نہیں ہو گا سب کچھ ایسا ہی چلتا رہے گا۔
میں یہ بات بار بار کہہ رہا ہوں کہ ہمیں خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ اپنے ساتھیوں کی بیماری میں علاج معالجہ اور ان کے بچوں کی تعلیم میں تسلسل۔ صرف آپ ان دو شعبوں پر کام کر لیں۔ ظاہر ہم اس شہر کے تمام غریب بچوں کی فیس ادا نہیں کر سکتے لیکن ظاہر ہے اپنی استطاعت کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں۔ اپنے صحافتی حلقے میں خبر گیری ضرور کر سکتے ہیں ہم ہفتے میں بچوں کے ساتھ ایک بار ریسٹورینٹ میں کھاتے ہیں اگر نہ کھائیں تو کیا مر جائیں گے؟ ہم ہر مہینے بچوں کے لئے کپڑے خریدتے ہیں اگر نہیں خریدیں گے تو کیا بچے ننگے رہیں گے؟ ہر تین ماہ بعد نئے جوتے لیتے ہیں اگر نہیں لیں گے تو کیا ننگے پاؤں پھریں گے؟ مہمانوں کے لئے پانچ، پانچ ڈشیں تیارکرتے ہیں اگر ایک آدھ کم ہو اجائے تو کیا مہمان بھوکے رہیں گے؟ ہر چھٹی پر آؤٹنگ کے لئے جاتے ہیں اگر ایک اتوار نہیں جائیں گے تو کیا زندگی ختم ہو جائے گی؟ہر دو تین ماہ بعد کہیں کا چکر لگاتے ہیں اگر دو کے بجائے چاریا چھ ماہ کے بعد چلے جائیں گے تو کیا حج کا ثواب مارا جائے گا؟ روزانہ آئسکریم کھاتے ہیں اگر ایک دن چھوڑ کر کھا لیا کریں تو کیا قیامت آجائے گی؟ یہ جو پیسے بچیں گے اس سے ہم اپنے کسی ساتھی کے بچوں کی حس ادا کر سکتے ہیں۔ کوئی کسی کو دوائیں لے کر دے سکتا ہے۔ یہ بات تو خود میں نے درجنوں بار آزمائی ہے جب ہم کسی ضرورتمند کے لئے کسی بیمار کے لئے کسی مجبور کے لئے اپنے کالم کے ذریعے درخواست کرتے ہیں تو ان کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ میں نے رمضان ٹرانسمشن میں صاحب ثروت لوگوں کی دریا دلی دیکھی ہے۔ اس سلسلے میں کئی ویلفئیر تنظیمی ہاتھ ملانے کے لئے تیار ہیں میں اس کا تذکرہ کیسے بھول سکتا ہوں جس نے جل وطنی کے دور میں صرف ایک درد مندانہ کالم پڑھ کر کسی بیمار کے لیور ٹرانسلائٹیشن کے لئے ۵۳ لاکھ روپے بجھوا دیئے تھے۔ یہ شہر صاحب ثروت لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہاں دنیا میں پانچویں اور پاکستان میں پہلے بم کی چیر پٹی ہوتی ہے۔ ملک ریاض اور زمرد خان جیسے لوگ موجودہیں۔ جو بے آسروں کی امید نہیں ٹوٹنے دیتے۔ اب صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی صفوں میں ایسی تنظیم کو منظم کریں جو اس سارے منصوبے پر عملدرآمد کرائے۔ اللہ نے ہم میں سے خود بہت ہوں کو بہت کچھ دیا ہے۔ اللہ کا نام لے کر اپنے ہم پیشہ لوگوں کی مدد کاارادہ تو کر کے دیکھیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہمارا بالائی طبقہ ہمارے زیریں محروم اور پسے ہوئے طبقے سے اتنا دور ہو چکا ہے۔ کہ اس کی فیلنگ تک تبدیل ہو چکی ہے۔ لیکن ساری کڑوی کسیلی حقیقتوں کے باوجود اس یقین کے لئے کچھ کرنے کا ارادہ تو کریں۔ یقین جانیں ہماری یہ عملی کوشش غریب، بے روز گار اور کمزور صحافیوں کے لئے امید کی چابی ثابت ہو گئی۔
رفیق آزاد تو چلا گیا لیکن اس کی فیملی کا یہ احساس کتنا اذیت ناک ہے کہ ان کا کفیل اور ان کا سر پرست ان کے گھر سے ہی نہیں ان کے زندگی سے دور جارہا ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اس پیارے ساتھی کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔