ماحول دوست ایندھن سی این جی کی بندش کا کون ذمہ دار ھے

تحریر ۔۔شہزاد بھٹہ


اب جولائی میں ماحول دوست ایندھن سی این جی کی بندش کا کون ذمہ دار ھے پہلے تو سردیوں میں گیس جم جانے کا بہانہ کرکے بند کر دی جاتی تھی اب جون جولائی کے سخت ترین مہینے میں گیس کی بندش کی وجہ کیا ھے؟
  جس ملک میں اللہ نے تیل و گیس وافر تعداد میں مہیا کر رکھی ھو بلوچستان سندھ و پوٹھوھار پنجاب اور کے پی کے کے علاقوں میں وسیع ذخیرہ موجود ھوں تو  پھر بھی ھم دونوں بنیادی ضرورت کی اشیاء ایندھن دیگر ممالک سے کیوں حاصل کرتے ھیں پچھلی نواز شریف حکومت نے قطر سے مہنگی گیس کا معاہدہ کیا تھا چلو پھر بھی سی این جی سارا سال دستیاب رہتی تھی مگر اب جون جولائی میں اخر سی این جی کی قلت کیوں پیدا ھوگئی ۔
کیا اس بندش کے پیچھے تیل مافیا تو نہیں ؟  جو حکومتی اہکاروں و اوگرا کے ساتھ مل کر عوام کو سستی ماحول دوست  سی این جی کی بجائے زبردستی مہنگا ایندھن پڑول اور ڈیزل خریدنے پر مجبور کر رھا ھے۔۔
مہنگا تیل استعمال کرنے سے مہنگائی کو بھی پر لگ جاتے ھیں جس سے لازمی درمیانہ اور غریب طبقہ شدید متاثر ھوتا ھے اور تیل مافیا راتوں رات کروڑوں ارب روپے  کما کر سکون کی نیند سو جاتا ھے ۔۔


معاشیات کا اصول ھے کہ جہاں سے اپ کو سستی چیز ملے وہ حاصل کریں اور اپنی عوام کو فراھم کریں ۔تجارت میں سب سے پہلے حق ہمسائے ممالک کا ھوتا ھے کہ اپ اپنے ہمسائے ملک کے ساتھ تجارت کریں پاکستان جس خطہ میں واقع ھے اس کی سرحدیں قدرتی طور پر چین ہندوستان ایران افغانسان اور روس سے ملتی ھیں تو تجارتی اصولوں کے مطابق پاکستان کو سب سے پہلے انہی ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارت کرنی چاھیے تاکہ اپ کو ذرائع امدورفت  و دیگر  اخراجات کم سے کم برداشت کرنے پڑھیں ۔اور اپ اپنی عوام کو سستی ضروریات زندگی کی اشیاء مہیا کر سکیں ۔۔اور جو اشیاء ہمسائے ممالک سے دستیاب نہ ھوں تب اپ دوردراز کے ممالک سے حاصل کرں
اگر تیل و گیس کی بات کریں تو ہمسائے مسلم ممالک ایران میں دنیا سب سے زیادہ ذخائر موجود ھیں ایرانی بلوچستان  تیل اور گیس کی دولت سے مالامال ھے ایران سے سستی گیس حاصل کرنے کے صدر زرداری کی حکومت میں ایک معاہدہ ھوا جس کے تحت گیس پائپ لائن ڈالی گئی ایرانی حکومت نے تو اپنے علاقے میں گیس پائپ لائن ڈالنے کا کام مکمل کر لیا تھا اور پاکستان علاقے میں پائپ ڈالنے کا کام جاری تھا تو پاکستان میں حکومت تبدیل ھوگئی اور امریکی مفادات کے لیے اس منصوبہ کو روک دیا گیا اور اسی دباو پر سمندر پار قطر سے مہنگی گیس ایل این جی لینے کا معاہدہ کرلیا گیا جس سے ماحول دوست ایندھن سی این جی کی قیمتیں  بھی اسمان کو چھونے لگیں
اور اگر تیل کی بات کریں تو ایرانی تیل دنیا میں سب سے سستا تیل ھے اور ہمسایہ ھونے کی وجہ سے تیل کی سپلائی پر بھی اخراجات بہت کم  اتے ھیں۔
۔اس وقت ایرانی تیل غیر قانونی طور پر اسمگل ھوکر پاکستان ارھا ھے جو بلوچستان میں پچاس  سے ستر روپے فی لیڑ اسانی سے  دستیاب ھے حتی کہ کراچی سندھ اور پنجاب  کے بعض علاقوں میں اسمگل شدہ  ایرانی تیل دستیاب ھے ایران سے تیل کی سمگلنگ کئی سالوں سے جاری ھے بلکہ سرحدی علاقوں کے 85 فیصد ابادی اسی کاروبار سے منسلک ھے بلکہ جہاں پانی اور بجلی موجود نہیں ھے وھاں ایرانی تیل بااسانی دستیاب ھے ایرانی تیل کی اسمگلنگ روکنے کے لیے حکومت نے اقدامات کئے ھیں مگر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ھے پاکستان کے محکمے  اپنے کمشن کے چکر میں عرب و دیگر ممالک سے مہنگا تیل حاصل کر رھے ھیں اور پھر اس تیل پر لاتعداد ٹیکسز عائد کر کے مہنگا ترین تیل وغیرہ عوام کو سپلائی کرتے ھیں جس کا تمام تر بوجھ غریب عوام پر پڑتا ھے۔۔۔۔
حکومت پاکستان کو چاھیے کہ ایران سےقانونی طور پر تیل لانے کی اجازت دے تاکہ عوام کو سستا تیل میسر ائے اور حکومتی امدن کے لیے دیگر ذرائع استعمال کرے صرف تیل کو ھی حکومتی مالی معاملات کے لیے ذریعہ نہ بنائے۔۔۔


یہاں ایک اور بات کا ذکر کرنا ضروری ھے کہ پہلے محکمہ پڑولیم حکومت پاکستان تیل وغیرہ کی قیمتوں میں سال بعد قومی بجٹ کے موقع پر اضافہ یا کمی کرتی تھی پھر اوگرا اتھارٹی بن گئی جس نے پہلے ماھانہ وار تیل ڈیزل اور سی این جی کی قیمتوں میں ردوبدل کرنا شروع کردیا اور پھر تیل مافیا کے ساتھ مل کر ھر پندرہ دن بعد پڑولیم کی قیمتیں کم یا زیادہ کرنی شروع کر دیں عام طور دیکھا گیا کہ ھر پندرہ دن بعد تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ ھی کیا جاتا ھے ھر پندرہ دن کے بعد نیا بجٹ اجاتا ھے جس سے ھر چیز کی قیمتوں میں اضافہ لازمی ھوتا ھے اور اگر کھبی اتفاق سے قیمتیں کم بھی ھوجائے تو مہنگائی کم نہیں ھوتی۔
تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے امیر لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ تو 150 روپے لیڑ تیل  بھی لے سکتے ھیں مگر عام شہری اور خاص طور محنت کش اور کسان زیادہ متاثر ھوتا ھے کیونکہ کسان کو اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ڈیزل انجن کی ضرورت پڑتی ھے جس سے وہ اپنی زمینوں کو پانی دیتا ھے اور ڈیزل تیل نہایت مہنگا پڑتا ھے جہاں تک بجلی کا تعلق ھے وہ تو ھمارے دیہی علاقوں میں گھنٹوں نہیں اتی ۔۔۔اس سے کسان کے اخراجات میں بے انتہا اضافہ ھو جاتا ھے اور غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ بھی جس کا سارا بوجھ عام غریب بندہ پر ھی ھوتا ھے لہذا پاکستانی حکومت کو چاھیے کہ جہاں سے اس کو سستا تیل و ڈیزل ملے وھاں سے حاصل کرے اور اپنی عوام  کے لیے امریکی و دیگر یورپی مفادات کو ترک کرئے ۔۔۔