بسکٹ انڈسٹری اور خواتین ورکرز کی صورتحال


برطانیہ سے آسٹریلیا اور امریکہ تک بسکٹ فیکٹری میں خواتین ورکرز نے اپنے حقوق کے لیے جو جدوجہد کی اور تحریک چلائی اس کی بدولت مختلف فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کو انیسویں اور بیسویں صدی میں ان کے اہم حقوق حاصل ہوئے چاہے ان کا تعلق فیکٹریوں میں کام کرنے کے اوقات کار سے تھا ، کام کے دوران چھٹی ملنے سے متعلق تھا ، کام کرنے کی جگہ پر مسلسل کئی گھنٹے کھڑے رہنے کے دوران بریک حاصل کرنے اور بریک کے دوران کرسی پر بیٹھنے کی سہولت حاصل کرنے تک کا تھا ، بیماری کی صورت میں چھٹی حاصل کرنا اور تنخواہ نہ کاٹے جانے کا معاملہ تھا کیا حاملہ ہونے کے بعد اور بچے کی پیدائش کے بعد کے دنوں میں نوکری بچانا اور تنخواہ حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج تھا ان سمیت مختلف چیلنجوں اور حقوق کے لیے جو تحریک بسکٹ فیکٹری کی عورتوں نے اپنے کام کے دوران آسٹریلیا برطانیہ اور امریکہ میں چلائی اس کا فائدہ آج ساری دنیا میں کام کرنے والی ان خواتین کو ہورہا ہے جو مختلف شعبوں میں فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں میلبورن آسٹریلیا سے لے کر نیو پورٹ امریکہ تک اور برطانیہ

کے مختلف علاقوں میں قائم ہونے والی مختلف فیکٹریوں جہاں بسکٹ سازی کا کام ہوتا اور خواتین ورکرز کو کام پر لیا جاتا ان میں گیسٹ بسکٹ کمپنی سے لے کر نیو پورٹ ڈسٹرکٹ کمپنی تک خواتین ورکرز کے لیے مختلف ادوار آئے ۔دستاویزی شہادتوں کے مطابق اٹھارہ سو ستر میں آسٹریلیا میں خواتین ورکرز کی باقاعدہ ملازمت کا ریکارڈ ملتا ہے جہاں پہلی مرتبہ چالیس کے قریب خواتین کو بھرتی کیا گیا اور پھر ان کی حاضری اور تنخواہ کا ریکارڈ رکھا گیا ۔ماضی میں خواتین کا گھروں سے باہر نکل کر کام کرنا ممکن کر آسان نہیں تھا آسٹریلیا برطانیہ اور امریکا میں مختلف فیکٹریوں نے انیسویں صدی میں خواتین کو بھی بھرتی کرنا شروع کیا اور ان کی جدوجہد اور تحریکوں کے بعد خواتین کو دنیا بھر میں فیکٹریوں میں کام کرنے کے بہتر مواقع میسر آنا شروع ہوئے بنا ان کا استحصال کیا جاتا ہے مثال کے طور پر ان سے دس گھنٹے سے زیادہ کام لیا جاتا تھا لیکن حضرت صرف دس گھنٹے کی دی جاتی تھی اسی طرح مختلف فیکٹریوں میں خواتین کی حاضری پر آنے کا ریکارڈ تو رکھا جاتا تھا ان سے فیکٹری میں آمد پر دستخط کرائے جاتے تھے یا اٹھا لگوایا جاتا ہے لیکن سرکاری وقت پورا ہونے پر خود ہی ان کی چھٹی کا ریکارڈ مرتب کر لیا جاتا حالانکہ وہ اس ٹائم کے بعد بھی کافی دیر اور کئی گھنٹوں تک فیکٹری میں کام کرتی رہتی لیکن انہیں نہ تو اوور ٹائم ملتا نہ ہی ان کو باقاعدہ اجرت ملتی ۔انیسویں صدی میں امریکہ میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کم اجرت ملنے کے حوالے سے بھی عورتوں نے تحریک چلائی اور خواتین ورکرز کے معاوضے میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا اور پھر یہ مطالبہ منظور کرایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان بھارت اور دیگر ملکوں میں بھی مختلف فیکٹریوں بالخصوص بسکٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کو قانونی تحفظ اور حقوق حاصل ہیں لیکن چند بڑی فیکٹریوں کو چھوڑ کر باقی جگہوں پر یہ حقوق حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔۔۔۔۔۔پاکستان میں گارمنٹ فیکٹریوں

اور ٹیکسٹائل ملوں میں کام کرنے والی خواتین کو زیادہ مشکلات درپیش ہوتی ہیں اور اس حوالے سے متعدد شکایات سامنے آتی رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ پاکستان کی بسکٹ فیکٹریوں میں انگلش بیسٹ مینوفیکچر وہ کمپنی ہے جس نے اپنی خواتین ورکرز کا زیادہ خیال رکھا ۔ اس کمپنی کے مالک خاور بٹ کو قدرت نے ذہین اور قابل بیٹیاں عطا فرمائی اس لیے اس کمپنی نے شروع سے ہی خواتین ورکرز کا زیادہ دھیان رکھا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے ان کے لئے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کا عزم کیا ۔اس کمپنی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہاں پر چالیس فیصد خواتین ملازمین ہیں جن کے حقوق کا تحفظ کرنے میں کمپنی اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کرتی آرہی ہے اس کمپنی نے 1967 میں اپنے قیام کے بعد کراچی اور پھر کے پی کے ہتار فیکٹری لگائی آج سے دس سال پہلے اس کمپنی کی فیکٹریوں میں ایک لاکھ ٹن پیداوار سالانہ کی گنجائش تھی جس سے بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ کیا جا چکا ہے اس کمپنی کے پاس 40 فیصد مارکیٹ تھا جو بڑھ کر 48 فیصد ہو چکا ہے اس کمپنی کے 26 سو ملازمین میں چالیس فیصد خواتین تھی اب ان ملازمین کی تعداد چار ہزار سے پانچ ہزار کے قریب ہے یہ کمپنی ایک ارب سے زیادہ ٹیکس اور ڈیوٹی کی مد میں سرکاری خزانے کو رپورٹ جمع کرا دی ہے اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈبلیو ٹی او بعد میں آیا لیکن ای بی ایم نے بہت سال پہلے سے اپنی فیکٹریوں میں پاکیزگی کے تصور کو فروغ دے کر کوالٹی عالمی معیار کے مطابق بنائی۔اس کمپنی نے نو مختلف جدید پلانٹ مشینری ماحول دوست انداز میں بنائے ۔جدید پلانٹ پر 2 ارب 60 کروڑ روپے سے زائد مالیت کے اخراجات کیے ویسٹ مینجمنٹ کے انتظامات کیے Incinrators لگوادیے ۔
——————-
Salik-Majeed—-whatsapp—-92-300-9253034