خواجہ سعد رفیق کا” ناکردہ گناہ”……..!!

نیوز روم/امجد عثمانی

amjad usmani column nigar 2632021

گھوٹکی ٹرین حادثہ 60 سے زائد جانیں لے گیا…….ریل کے اس المناک سانحے پر پورا ملک سوگوار ہے مگر کچھ وزیر اور مشیر “بے ڈھنگے طریقے “سے حکومت کا “ناکام دفاع” کر رہے ہیں…….وفاقی وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری نے صاف صاف کہہ دیا کہ حادثات کا خون ن لیگ اور پی پی کے سر ہے…..سعد رفیق کے گناہوں پر اعظم سواتی کیوں استعفی دیں……یہ بے تکی بات ہے…..
پنجاب کی مشیر اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان نے تو” بے احتیاطی” کی حد کردی…..میڈیا کے روبرو بول گئیں کہ اللہ کے فضل و کرم سے یہ اس سال میں پہلا حادثہ ہے…..قوم کو وہ دن یاد ہیں جب ہر دوسرے دن یہی ریلوے ٹریک کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہوتا تھا………

زیادہ زمانہ نہیں گذرا، یہ ماضی قریب کی بات ہے کہ جناب عمران خان دنیا کی مثالیں دے دے کر بتایا کرتے تھے کہ مہذب ملکوں میں حادثوں پر وزیر کیسے استعفے دیتے ہیں…….؟؟تین چار دن کی بات ہوتی تو اور بات تھی…..حکومت کو ایک دو نہیں ،پورے تین سال ہوگئے ہیں اور اب ان کے” ترجمان” فرما رہے ہیں کہ یہ حادثے سابقہ حکومتوں کے ” گناہ” ہیں……کوئی فلسفی ہی اس فلسفے کی گتھی سلجھا سکتا ہے کہ کسی موجودہ” آنر ایبل منسٹر” کے “اعمال” کا جواب دہ تین سال پہلے کا “بے چارہ وزیر” کیوں اور کیسے ہو سکتا ہے…….؟؟؟کیا وزیروں مشیروں کے “بے وزن بیانیے” سے “تبدیلی سرکار “کو” استثنی” مل جائے گا؟؟؟ہرگز نہیں ،قانون قدرت ہے جو کرتا ہے وہی بھرتا ہے…..اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کے تین سال ریلوے کے لیے نیک شگون ثابت نہیں ہوئے……ان 48 مہینوں میں کئی حادثے ہوئے،کتنے ہی خاندان اجڑ گئے…..سوال ہے جب شیخ رشید ایسا “تجربہ کاری اتحادی” اب کی بار اس وزارت سے بری طرح فلاپ ہوکر نکلا تو پھر “نا تجربہ کار” اعظم سواتی کو اتنا” چیلنجنگ قلمدان” کیوں سونپا گیا…..؟؟؟وہ شریف آدمی زیادہ سے زیادہ ایک” ہومیو پیتھک ٹائپ وزارت “چلانے کے اہل ہیں……..وہی بات کہ جس کا کام اسی کو ساجھے…..!!!

ادھر سعد رفیق نے حادثے کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے…..انہوں نے حکومتی الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ سرسید ایکسپریس حادثے کا شکار ہو گئی جس کا افتتاح کرتے ہوئے خان صاحب نے کہا تھا کہ شیخ رشید کی کارکردگی بہترین ہے….. حکومت کو آئے تین سال ہوگئے ….دھیلے کا کام نہیں کیا….ریلوے کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا….خاص کر پچھلے وزیرریلوے یعنی شیخ صاحب نے تو تباہی مچادی تھی……

خواجہ سعد رفیق سے کوئی ملاقات ہے نہ ان کی وکالت مطلوب مگر جو دیکھا سنا اسے من و عن بیان کرنا صحافتی فرض ہے…..
تین سال پہلے کی بات ہے میں ایک اخبار کی لانچنگ کے لیے لاہور سے ٹرین پر ملتان جا رہا تھا…….میرے ساتھ ریلوے کے دو افسر بھی بیٹھ گئے…….کچھ دیر سکوت کے بعد گفتگو شروع ہوگئی…..میں نے باتوں باتوں میں پوچھا ن لیگ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر ریلوے کے بارے کیا خیال ہے؟؟؟؟…انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی اعتراف کیا کہ پہلے دو اڑھائی سال خواجہ سعد رفیق نے بہت کام کیا……کہہ لیں محکمے کا قبلہ ہی درست کر دیا…….مگر بعد میں پتہ نہیں کیا ہوا کہ باقی مدت وہ پہلے کی طرح نہیں کھیلے………
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ریلوے نے “لاہور نارووال” کے درمیان” فیض احمد فیض ٹرین” بحالی کو “افتتاح “کا نام دیا تو خواجہ سعد رفیق بول اٹھے اور سوشل میڈیا پر طنزیہ کہا کہ کسی روز لاہور یا نارووال ریلوے سٹیشن کا افتتاح مت کر دیجئے گا، آپ کو تو عادت ہی پڑ گئی ہے …… ہیں جی؟ اکائونٹ ایڈمن کے مطابق اس ٹرین کا افتتاح 2014 میں خواجہ سعد رفیق کے ساتھ فیض احمد فیض کی صاحبزادیاں کر چکی ہیں……

میں نے اس پر کمنٹس میں نارووال سٹیشن کی حالت زار بارے لکھتے ہوئے شکرگڑھ ریلوے ٹریک کا دکھ بھی بیان کر دیا…….میں نے لکھا:قبلہ سعد رفیق صاحب!آپ کا وہ “سٹیٹ آف دی آرٹ” ریلوے سٹیشن بھی برے حال میں ہے……عید کے روز میرا فیملی کے ساتھ پہلی مرتبہ ٹرین کے ذریعے نارووال جانا ہوا……وہاں کے واش رومز کی حالت نا گفتہ بہ تھی…..بیسن پر صابن تک نہیں تھا………میں ٹکٹ عملے کے پاس گیا…..وہ کہنے لگے اگر یہی بات آپ سٹیشن مینجر کو بتا دیں تو سب کا بھلا ہو جائے گا……میں نے” صاحب “سے رجوع کیا…..انہوں نے واش رومز کے ٹھیکیدار کو بلا کر کلاس لی کہ آپ سے کہا بھی تھا کہ خیال رکھا کریں……وہ “یس سر” کہہ کر چلا گیا…….سر…..!آپ نے بھی تو شکرگڑھ کو” اگنور “کرکے زیادتی کی تھی،لگتا ہے یہ اسی “نا انصافی” کی “سزا” ہے کہ آپ کے منصوبے “چوری” ہو رہے ہیں….!!!

کسی ایک کالم میں پہلے بھی خواجہ سعد رفیق سے نارووال شکرگڑھ ریلوے ٹریک کو نظر انداز کرنے پر شکوہ کیا تھا کہ یہ تحصیل شکرگڑھ کے 10لاکھ باسیوں کا 18 سال پرانا اور جنیوئن مقدمہ ہے……..میں نے عرض کی تھی: 1927میں قائم ہونے والی نارووال چک امرو ریلوے لائن پر نوے کی دہائی میں ٹرینوں کی لائن لگی ہوتی تھی…….2000کے بعد صرف پانچ سال میں سارے سسٹم کا” ستیا ناس “ہو گیا…..2003تک اس ٹریک پر روزانہ” اکلوتی گاڑی” “ہچکیاں “لیتی تھی جبکہ 2005میں ہفتے میں ایک یعنی” سنڈے ٹرین”رہ گئی…217اپ ،218ڈائون، یہاں چلنے والی آخری ریل گاڑی تھی…..پھر اس کا “بوڑھا انجن” بھی “جواب دے گیا اور یہ ٹریک اجڑ گیا…..کہتے ہیں 1971کے بعد یہ ٹریک باقاعدہ مرمت نہیں ہوا…..2003کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے اس ریلوے لائن کو زمین کھا گئی…..ریلوے وزیروں کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لیں تو سعد رفیق سب سے آگے نظر آتے ہیں…..سنا ہے ان کے دور میں نارووال میں بھی سٹیٹ آف دی آرٹ ریلوے سٹیشن بنا مگر افسوس ترقی کا یہ سفر بھی ضلعی ہیڈ کوارٹرز تک ہی محدود ہو کر رہ گیا…….

کوئی شک نہیں کہ خواجہ سعد رفیق انرجیٹک آدمی ہیں……اللہ نے اچھا دماغ اور بڑا دل بھی دیا ہے……مذکورہ” شواہد “کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کے دور میں ریلوے بڑی حد تک ٹریک پر آگئی تھی…….اصول کی بات یہ ہے کہ گھوٹکی حادثہ موجودہ حکومت کے دور میں پیش آیا اور صرف اور صرف وہی اس کی ذمہ دار ہے…..وزیر ریلوے نے حادثے کی ذمہ داری قبول کرکے اچھی مثال قائم کی
مگر وہ منصب چھوڑنے کے لیے تیار نہیں…..بہتر ہوتا ہے وہ بدقسمت مسافروں کے غمزدہ لواحقین سے معافی مانگ کر گھر چلے جاتے….اس سے ان کے کپتان اور ان کی عزت میں اور اضافہ ہوتا……..جناب فواد چودھری سے بھی گذارش ہے کہ سواتی صاحب کی” وزارت ” میں “خونی حادثے “کا “خون “سعد رفیق کے ہاتھ پر تلاش کرنا قرین انصاف نہیں….ہو سکتا ہے وزیر اطلاعات کے پاس ان کے گناہوں کی طویل فہرست ہو مگر یہ حادثہ ان کے کھاتے میں ڈالنا” ناکردہ گناہ” کے زمرے میں آئے گا…. فردوس عاشق صاحبہ کی خدمت میں بھی عرض ہے کہ میڈم!سوچ کر بولا کریں کہ اللہ کے فضل و کرم سے حادثے ہوتے نہیں،ٹلتے ہیں…!!!