سیاسی اور مذہبی جماعتیں بجلی چوری اور کنڈا سسٹم کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتیں ؟۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شدید گرمی کا موسم آتے ہی وہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور ان کے رہنما ملک بھر میں بجلی کمپنیوں کے خلاف احتجاج کی کال بھی دے دیتے ہیں اور بجلی کمپنیوں کے خلاف بیانات سے لے کر دھرنے دینے تک تیار بیٹھے رہتے ہیں لیکن سارا سال ان لوگوں کے بارے میں ایک بیان بھی نہیں دیتے جو بجلی چوری کرتے ہیں اور کنڈا سسٹم چلاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کراچی سمیت ملک کے بڑے شہروں میں بجلی کی چوری کا ایک باقاعدہ منظم نیٹ ورک کام کر رہا ہے خاص طور پر کچی بستیوں میں کنڈے لگا کر دیے جاتے ہیں غیر قانونی طور پر بجلی بیچی جاتی ہے بجلی کا غیرقانونی استعمال ہوتا ہے وہاں طاقت اور سیاست کے زور پر کچے پکے مکانوں میں بغیر کنکشن بغیر میٹر لکڑی کے بانس لگا کر عارضی طور پر غیر محفوظ طریقے سے بجلی کنڈے کے ذریعے دی جاتی ہے اس حوالے سے سیاسی مذہبی جماعتیں اور ان کے رہنما سب کچھ جانتے ہوئے اپنی آنکھیں اور زبان بند رکھتے ہیں کیونکہ یہاں سے انہیں اپنی سیاست چمکانے کا ایندھن ملتا ہے سیاسی جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے لئے مین باور دستیاب آتی ہے اور الیکشن میں انہیں یہاں کے لوگ بڑا ہتھیار نظر آتے ہیں جنہیں وہ ووٹر کی صورت میں اپنے ساتھ سینے سے لگا کر چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ان کچی بستیوں کے لوگ بیچارے کی حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں انہیں بنیادی سہولتوں کے بغیر کیسے زندہ رہنا پڑتا ہے اور کس طریقے سے وہ بنیادی یوٹیلیٹی حاصل کرنے کے لیے کچھ عناصر کو رشوت دیتے ہیں تو ان کا کاروبار زندگی چلتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس پر کوئی نہیں بولتا ۔۔۔۔۔اس پر کوئی بیان نہیں دیتا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پر کوئی احتجاج کی کال نہیں دیتا ۔۔۔۔۔۔۔اس پر کسی کو دھرنا دینے کا خیال نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو بجلی کمپنیاں مشکل حالات کے باوجود ، مسائل زدہ علاقوں میں اپنے اسٹاف کو بھیجتی ہیں جب کبھی ان کی گاڑیوں پر ان کے عملے پر حملے ہوتے ہیں اور ان کے دفاتر میں آکر توڑ پھوڑ کی جاتی ہے انہیں برا بھلا کہا جاتا ہے ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور انہیں دھمکایا جاتا ہے تو کیا کوئی ان کے لیے آواز اٹھاتا ہے بجلی کمپنیوں میں کام کرنے والے بھی تو کسی کے بیٹے ہیں بھائی ہیں شوہر ہیں باپ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔پھر ان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ؟۔۔۔۔۔۔اب تو یہ تاثر عام ہے کہ بجلی کمپنیوں میں کام کرنے والے لوگ اپنے گلی محلوں میں یہ بتاتے بھی نہیں ہیں کہ وہ کہاں کام کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بہت عجیب بات ہے اور افسوسناک ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ایسا نہیں ہے کہ سارا قصور بجلی کمپنیوں کا ہے مان لیتے ہیں کہ بجلی کمپنیوں کی طرف سے بھی کوتاہی لاپرواہی زیادتی ہوتی ہوگی جی اس کے ذمہ دار کچھ غیر ذمہ دارانہ رویہ رکھنے والے افسران اور ملازمین ہو سکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر بجلی کمپنیوں میں کام کرنے والے تمام افسران اور ملازمین پورے نہیں ہو سکتے نہیں پوری کی پوری کمپنی چور ہو سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔ہمارے ملک میں جس طرح کے کاروباری حالات ہیں بجلی کمپنیاں بھی انہی حالات میں اپنا کام چلانے کی کوشش کر رہی ہیں جہاں جہاں معاملات سرکار کے ہاتھ میں ہیں وہاں کے مسائل الگ ہیں اور جہاں یہ کمپنیاں نجی طور پر کام کر رہی ہیں وہاں کے مسائل کی نوعیت الگ ہے ۔اگر ملک میں بجلی کی جنریشن اور ڈسٹری بیوشن اور سپلائی کا نظام آئیڈیل ہوتا تو سرکاری حکام پرائیوٹ ہاتھوں میں کیوں جانے دیتی ۔یقینی طور پر پہلے بھی مسائل تھے اور آج بھی ہیں لیکن مسائل کا حل توڑپھوڑ احتجاج اور دھرنے نہیں ہے مذاکرات کے ذریعے اور بہتر بات چیت کے ذریعے بھی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اگر ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی قیادت اور پارلیمنٹ میں موجود منتخب اراکین اس حوالے سے سنجیدہ کوشش کریں اور نتیجہ خیز اقدامات کی جانب قدم بڑھائیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن غور کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اندر بھی اپنے مسائل ہیں منتخب اراکین اپنی قیادت کے ہاتھوں یرغمال بنے رہتے ہیں یا قیادت کی مرضی کے بغیر اسمبلی میں تقریر بھی نہیں کر پاتے گویا ان کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں تو پھر سارا دوش بجلی کمپنیوں کی انتظامیہ پر کیوں ؟ جو پارٹیاں آج احتجاج کر رہی ہیں ماضی میں انہیں مختلف سطح پر اقتدار کے مواقع مل چکے ہیں اور کچھ تو آج بھی اقتدار میں ہیں تو پھر ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ بجلی کے یہ درینہ مسائل انہوں نے اپنے طور پر حل کیوں نہیں کرائے ۔۔۔۔۔۔۔۔آج بھی بجلی کے مسئلے پر ملک بھر میں سیاست ہو رہی ہے مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتیں ایک دوسرے پر الزامات عائد کر رہی ہیں اسے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا نام دیا جاسکتا ہے لیکن اس سب کے نتیجے میں سخت گرمی کے اس موسم میں عوام کا کوئی بھلا نہیں ہو رہا جو لوگ پہلے بجلی چوری کر رہے تھے آج بھی کر رہے ہیں جنہوں نے کنڈے سے بجلی لینی ہے وہ مزے میں ہیں پریشان تو وہ ہو رہے ہیں جنہوں نے ہر مہینے بجلی کا بل دینا ہوتا ہے بالکل بھی باقاعدگی سے دیتے ہیں اور پریشانی بھی اٹھاتے ہیں ۔لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ ان علاقوں میں بجلی کی فراہمی کا نظام بہت بہتر ہے جہاں بجلی کی چوری نہیں ہوتی ۔جہاں کنڈے نہیں لگتے کراچی میں ایسے بے شمار علاقے ہیں جہاں لوڈ شیڈنگ زیرو ہو چکی ہے اس کی بڑی وجہ وہاں پر کنڈا سسٹم اور بجلی چوری کا قلع قمع ہے اس سلسلے میں عوام کو خود بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے اور بجلی کمپنیوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے جو کوئی بجلی چوری کرتا ہے یا بجلی چوری کرنے کے راستے پر اکساتا ہے اس کا راستہ روکنا چاہئے اور اس کی شکایت متعلقہ فورم پر کرنی چاہیے تاکہ قانون حرکت میں آ سکے ۔اب جن علاقوں میں فالٹ آتا ہے وہاں فالٹ کو صحیح کرنے میں وقت بھی لگتا ہے اتنا انتظار تو کرنا پڑے گا کے فالٹ کی نشاندہی کے بعد شکایت دور کرنے والی گاڑی کھائے اور عملے کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا کام سکون سے کر سکے ۔جہاں پر تشدد واقعات ہوں گے احتجاج میں بجلی کمپنیوں کے عملے اور گاڑیوں پر حملے کیے جائیں گے اور ان کا خیال نہیں رکھا جائے گا وہاں نقصان کس کا ہوگا بجلی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ عوام کا نقصان ہوگا ۔بجلی کمپنیوں کے مسائل حل کرنا حکومت کا ریاست کا کام ہے۔ اس حوالے سے متعلقہ فورم پر مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل تجویز ہونا چاہیے اور عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے ضروری اقدامات پر سنجیدگی سے غور و فکر اور ضروری کاموں پر عمل درآمد کو تیز رفتاری سے آگے بڑھانا چاہیے یہ سب کچھ مل جل کر ہو سکتا ہے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے سے نہیں ۔احتجاج کے نام پر اپنے ہی اداروں میں توڑ پھوڑ اور کام کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا اس حوالے سے نوجوانوں کو طیش دلانا اور اشتعال دلانہ درست نہیں بلکہ دانشمندی بردباری سنجیدگی اور صبر و تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے
—————————-jeeveypakistan.com—-report