نیشنل بینک آف پاکستان ۔۔۔ہراسگی کے واقعات ،تحفظ اور قانون کا اطلاق


نیشنل بینک آف پاکستان ۔۔۔ہراسگی کے واقعات ،تحفظ اور قانون کا اطلاق
————————————-

نیشنل بینک آف پاکستان کیونکہ پاکستان کا انتہائی معتبرادارہ ہے اس لیے یہاں پر کام کرنے والے تمام ملازمین بالخصوص خواتین ملازمین کو ایک بہترین پرسکون آرام دہ اور محفوظ ورکنگ انوائرمنٹ کا ملنا بہت ضروری ہے مجموعی طور پر نیشنل بینک اف پاکستان کے دفاتر اور برانچوں میں ایک اچھا ماحول میسر ہے جس کی وجہ سے نیشنل بینک آف پاکستان کی انتظامیہ اور افسران کی تعریف بھی کی جاتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کچھ کالی بھیڑیں نیشنل بینک میں بھی گھسی ہوئی ہے معاشرے کے دیگر شعبوں اور دفاتر کی طرح بینکنگ کے شعبے میں اور نیشنل بینک کے دفاتر میں بھی بعض اوقات ایسی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں جن پر فوری ایکشن اور ازالہ ضروری ہے کام کرنے کے مقام پر خواتین کو خاص طور پر ہراساں کرنے کی شکایت کے واقعات اتنے بڑھ چکے ہیں کی سرکاری سطح پر اس کے لئے قانون سازی کی ضرورت پڑی اور خواتین کی بے حرمتی اور بدسلوکی سے روکنے کے لیے سخت سزا اور ایکشن کے لیے قانون بنا جس کی وجہ سے اب ایسے واقعات کی روک تھام میں مدد ملی ہے اور خواتین کو ماضی کی نسبت بہتر تحفظ حاصل ہوا ہے پاکستان میں وفاقی سطح پر اور صوبائی سطح پر ایسے کمیشن قائم کیے گئے ہیں جہاں پر ایسی شکایات اور واقعات کی سماعت ہوتی ہے اور سزائیں بھی مل رہی ہیں ۔
نیشنل بینک میں موجودہ انتظامیہ کے اقدامات کی وجہ سے صورتحال اطمینان بخش ہے لیکن ماضی میں اس بینک کے حوالے سے کافی شکایات سامنے آتی رہی ہیں نومبر 2016 میں فیس بک پر نیشنل بینک آف پاکستان کے کچھ افسران کو مخاطب کرتے ہوئے وارننگ دی گئی تھی کے اپنی حرکتوں سے باز آ جاؤ ۔وائس پریزیڈنٹ ریکروٹمنٹ ہیڈ آف آؤٹ سورس ایمپلائی کا حوالہ دیا گیا تھا ۔فیس بک کی ایک پوسٹ میں مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ آخری وارننگ ہے تم نیشنل بینک آف پاکستان کی لڑکیوں کو ہراساں کرنا بند کر دو اور ہماری بہنوں پر گندے جملے اور ریمارکس دینا بند کرو ۔یہ مت سمجھو کہ یہ لڑکیاں اکیلی ہیں اور تم ان کی مجبوری میں ملازمت کرنے کے معاملے سے فائدہ اٹھا لو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پوسٹ میں نام لے کر مخاطب کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔اور گروپ چیف ایچ آر ۔۔۔کا حوالہ بھی تھا ۔۔۔۔۔۔پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ اس قسم کی بے ھودگی دسویں فلور پر ختم کردو ۔۔۔۔۔کیا تم لوگوں کی ماں بہنیں اور بیٹیاں گھر پر نہیں ہیں جو تم کسی کی بہن بیٹی کے سامنے غلاظت بھرے الفاظ استعمال کرتے ہو ۔گندی غلیظ گفتگو کرتے ہو اور کسی کی بیٹیوں کو گندی نظر سے دیکھ کر غلاظت بھری بکواس کرتے ہو ۔۔۔۔پوسٹ لگانے والے نے لکھا تھا کہ یہ بہت معمولی سزا ہے ۔۔۔اس سے بھی بھیانک انجام ہوگا ۔۔۔۔۔پھر پوسٹ میں پروٹیکشن اگینسٹ ہراسمنٹ آف وومن ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2010 کا حوالہ دے کر بتایا گیا تھا کہ اس قانون میں کیا کیا لکھا گیا ہے ۔

2010 کے قانون کے مطابق ، جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا عمل خود کام کے مقام پر تین طریقوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
اختیارات کا غلط استعمال
کسی فرد کے ذریعہ جنسی حقارت کا مطالبہ authority ایک سپروائزر ، اعلی نظم و نسق کا فرد ، آجر ، اور اس کو ملازمت کے کچھ مراعات حاصل کرنے کی شرط بنانا جس میں یہ شامل ہوسکتے ہیں:
اجرت میں اضافہ
پروموشن (اعلی درجے تک)
تربیت کا موقع (ملک کے اندر یا اس سے باہر)
(کسی دوسری جگہ ، محکمہ وغیرہ) میں تبادلہ کریں
نوکری ہی
معاندانہ کام کرنے والے ماحول کی تشکیل
کسی بھی ناخوشگوار پیشرفت ، جنسی حق کے لئے درخواست ، دیگر زبانی یا جسمانی طرز عمل ، کسی فرد کی کام کی کارکردگی میں مداخلت کرنا یا معاندانہ اور خوفناک کام کا ماحول پیدا کرنا۔ اگر متاثرہ جنسی زیادتی کرنے سے انکار کرتا ہے تو ، مجرم درج ذیل طریقوں سے جوابی کارروائی کرسکتا ہے:
تربیت ، آئندہ کے فروغ کے لئے کسی ملازم کے اختیارات کو محدود کرنا
تشخیص کو مسخ کرنا (سالانہ خفیہ رپورٹس)
ملازم کے خلاف گپ شپ پیدا کرنا
اس کے حقوق تک رسائی کو محدود کرنا (شکایت کرنے کا حق ، وقار کے ساتھ کام کرنے کا حق ، ترقیوں کا حق ، اجرت میں اضافہ وغیرہ)
کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ کو جنسی طور پر ہراساں کرنا پڑتا ہے تو کیا کرنا ہے؟
اس قانون کے تحت سزا .ں
اگر آپ نے اپنی تنظیم یعنی انکوائری کمیٹی میں شکایت درج کروائی ہے تو ، مجرم کو مندرجہ ذیل دو قسم کی سزا دی جاسکتی ہے۔ مجاز اتھارٹی انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر درج ذیل میں سے ایک یا زیادہ جرمانے عائد کرسکتی ہے۔
معمولی سزا
سنسر
ایک مخصوص مدت کے لئے ، انکولڈنگ انکریمنٹ یا پروموشن روکنا
ٹائم اسکیل میں ایک موزوں بار پر رکنا ، وقت کی ایک خاص مدت کے لئے
تنخواہ یا مجرم شخص کے کسی دوسرے ذریعہ سے معاوضے کی وصولی (اس معاوضہ کا شکار کو ادائیگی کرنا ہوگی)
بڑی سزا
کم پوسٹ یا کم ٹائم اسکیل میں کمی
لازمی ریٹائرمنٹ
ملازمت سے برخاست (یہ ملازمت کے لئے نااہل ہے)
خدمت سے ہٹانا
ٹھیک
اگر براہ راست پولیس میں شکایت درج کروائی گئی ہے تو ، مجرم کو زیادہ سے زیادہ 3 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے ، یا زیادہ سے زیادہ 5 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔
پاکستان پینل کوڈ ، سیکشن 509 میں ترمیم
2010 میں ، حکومت پاکستان نے کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں ہونے سے بچنے کے لئے نہ صرف ایک مخصوص قانون پاس کیا بلکہ پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کے سیکشن 509 میں بھی ترمیم کی۔ ترمیم کے بعد ، اس نے ہراساں کی واضح طور پر وضاحت کی ہے اور اس میں کام کی جگہ پر ہراساں کرنا بھی شامل ہے۔ اس نے مجرموں کے لئے ایک سے تین سال تک کی سزا کو بھی بڑھایا ہے۔ اب ، اس ترمیم میں کہا گیا ہے کہ خواتین کی شائستگی کی توہین کرنا یا انھیں جنسی طور پر ہراساں کرنا جرم ہے۔ اس جرم کے مرتکب شخص کو قید کی سزا ہوسکتی ہے ، جس میں 3 سال تک کی سزا ہوسکتی ہے یا وہ پی کے آر 500،000 (5 لاکھ) تک جرمانہ یا دونوں کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ تاہم ، یہ جرم اب بھی قابل ضمانت اور پیچیدہ ہے (معاملہ عدالت میں ہونے پر بھی فریقین آپس کے مابین معاملہ نمٹ سکتے ہیں ، عدالت کی اجازت کے بعد)
———————————

ہراساں کیے جانے کے واقعات مختلف قسم کے ہیں ایسا نہیں ہے کہ صرف ورک پلیس پر کسی کو جنسی طور پر ہراساں کیا جائے تو ہی اسے ہراسگی کہیں گے بلکہ ہر اس کی کئی اور بھی شکلیں ہیں اور عدالتیں بھی اس حوالے سے کافی وضاحت دے چکی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سال2015 میں نیشنل بینک آف پاکستان کے سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ برائے زرمبادلہ برانچ خالد بن شاہین جو ایک اچھے اور مشہور ٹی وی ایکٹر بھی ہیں اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کے قریبی رشتہ دار بھی ۔۔۔۔۔۔انہوں نے سندھ ہائی کورٹ میں اپنے وکیل کے ذریعے درخواست دائر کی تھی کہ انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے ۔۔۔۔انہیں کون ہراساں کر رہا تھا اس حوالے سے عدالت نے بتایا گیا کہ ایف آئی اے اور رینجرز کی جانب سے ان پر دباؤ آیا اور ڈاکٹر عاصم کے زرمبادلہ کے کھاتے اور پراپرٹی کے بارے میں سوال جواب کیے گئے جب صاف صاف بتا دیا کہ انہیں اس حوالے سے جو کچھ پتہ تھا بتا دیا ہے اور ڈاکٹر عاصم نے ایک پائی بھی نیشنل بینک آف پاکستان سے نہیں بھیجیں تو اس کے بعد قومی احتساب بیورو کی جانب سے نوٹس آ گیا ۔خالد بن شاہین کے وکیل نے سندھ ہائیکورٹ سے استدعا کی کہ ان کے موکل کی حفاظتی ضمانت منظور کی جائے ورنہ ان کی گرفتاری کا خدشہ ہے اس حوالے سے عدالت میں کافی دلائل دیئے گئے پر ضمانت حاصل ہوئی ۔لیکن اس واقعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہراسگی کے مختلف انداز ہیں اور صرف بینک میں کام کرنے والی خواتین ہی ہراساں نہیں ہوتی بلکہ وہاں کام کرنے والے مرد بھی مختلف قسم کی ہراسگی کا نشانہ بن سکتے ہیں ۔نیشنل بینک کے مختلف ملازمین کے حوالے سے جو سامنے واقعات آئے ہیں ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں پر سب اچھا نہیں ہے اس لیے کافی محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور قانون کی عملداری کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے چاہیے اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام افسران اور ملازمین پر نظر رکھے اور ان کے روئے سلوک اور شکایات پر فوری ایکشن لیں۔ نیشنل بینک آف پاکستان کے علاوہ دیگر بینکوں میں بھی کافی شہرت سامنے آ چکی ہیں حکومت سندھ کی جانب سے قائم کیے گئے ہیں کمیشن کے پاس مختلف بینکوں کے حوالے سے خواتین ملازمین کی جانب سے رجوع کیا گیا جن میں سے ایک بینک حبیب بینک لمیٹڈ کے افسر کے خلاف ایکشن ہوا اور خاتون ملازم کو انصاف فراہم کیا گیا ۔صوبائی حکومت کی جانب سے قائم کردہ اس کمیشن کے مختلف دفاتر اور اندرون سندھ کے شہروں میں بھی قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ کراچی کے علاوہ دیگر مقامات پر اس قسم کی شکایات کی روک تھام کے لیے فوری ایکشن لیتے نئی بنایا جا سکے اور متاثرہ ملازمین بالخصوص خواتین کو ان کے گھروں کے قریب ترین مقام پر انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے ۔