کرونا سے بچاؤ کے لیے ملازمین کی ویکسینیشن میں نیشنل بینک آف پاکستان نے کتنا ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ؟

کرونا کے مشکل حالات میں بینک ملازمین کو بھی فرنٹ لائن سولجرز کہا گیا کیونکہ معیشت چلانی تھی لوگوں کو بھوکا نہیں مانتا تھا اس لیے بینکوں کو اپنے کاموں کو آگے بڑھانا پڑا ۔سخت ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ایک بڑا چیلنج تھا ۔بینک برانچوں میں آنے والے کسٹمرز کی بڑی تعداد خطرے اور حادثات کا باعث تھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس سلسلے میں واضح ہدایات جاری کیں اور تمام بینکوں کو مشکل صورتحال میں اپنے ملازمین کے بچاؤ اور کسٹمرز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ڈاکٹروں کی جانب سے جاری کردہ گائیڈ لائن پر عمل درآمد پر پابند بنایا اور ضروری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی ۔بینک انتظامیہ کی جانب سے ہر برانچ میں اضافی حفاظتی انتظامات کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے افسر ملازمین کرونا کی لپیٹ میں آئے جس کی وجہ سے ڈیوٹی پر آنے والے اسٹاف کی تعداد میں کمی آگئی ۔ایک طرف ورک لوڈ بڑھ گیا دوسری طرف ملازمین کی تعداد گھٹ گئی ۔اکثر کسٹمر کرنسی نوٹوں کو چھوتے ہوئے بھی ڈر رہے تھے بار بار ہاتھوں اور نوٹوں پر اسپرے کراتے ۔سینیٹائزر کا استعمال ہر برانچ میں کئی گناہ بڑھ گیا ۔سیکورٹی گارڈ سے لے کر برانچ گئے کاؤنٹرز تک جگہ جگہ سینیٹائزر کا استعمال کرایا گیا ۔ہاتھ دھونے کا انتظام بھی کیا گیا ۔ماسک لازمی کیا گیا ۔

پاکستان میں یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہو رہا تھا جب عین اسی وقت پڑوسی ملک بھارت میں بڑی تعداد میں بینک ملازمین احتجاج کر رہے تھے کہ انہیں کرونا کی ویکسین دلائی جائے انہیں فرنٹ لائن سولجر مانا جائے اور ان کی جان بچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے ۔سوشل میڈیا پر آنے والی اطلاعات کے مطابق بارہ سو سے زیادہ بینک ملازمین کرونا کی وبا کا شکار ہونے کے بعد جان کی بازی ہار چکے ہیں یہ کسی ایک شعبے میں مرنے

والوں کی بہت بڑی تعداد ہے اور یہ بہت تشویشناک صورتحال ہے ۔


پاکستان کے وزیراعظم عمران خان شروع دن سے پاکستان کے کم آمدن والے طبقے اور غریب لوگوں کے بارے میں فکر مند رہے اس لیے وہ مکمل لاک ڈاؤن کے خلاف تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ کے لوگ بھوک کا شکار ہو ں۔
ان حالات میں وفا ق اور چاروں صوبوں میں ضروری حفاظتی انتظامات اور سمارٹ لاک ڈاؤن کیا گیا لوگوں کو گھروں نہ سے بچانے کے ساتھ ساتھ معیشت کو بھی پاؤں پر کھڑا رکھنے کی کوشش کی گئی ۔


بینکوں کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے قومی بینک نیشنل بینک آف پاکستان کی ذمہ داریاں سب سے زیادہ تھی اسے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اپنے بینک نیٹ ورک کے ذریعے پاکستانی عوام کو ہمہ وقت اپنی خدمات کی فراہمی جاری رکھنی تھی اور اس سلسلے میں اضافی حفاظتی انتظامات کو ملحوظ خاطر بھی رکھنا تھا ۔
یقینی طور پر نیشنل بینک آف پاکستان جیسے بڑے قومی ادارے کے لیے یہ مشکل صورتحال تھی ماضی میں کبھی کسی نے اس قسم کے تجربے سے گزر کر حالات کا مقابلہ نہیں کیا تھا یہ بالکل منفرد اور انوکھی صورتحال تھی جس کا سامنا کیا جارہا تھا بلکہ اب تک کیا جا رہا ہے لیکن پہلا سال زیادہ مشکل اور کٹھن تھا اور آنے والے دنوں کے ساتھ ساتھ اس میں لوگوں کی انڈرسٹینڈنگ بڑھ گئی لیکن چیلنج موجود ہے مشکلات میں کمی نہیں آئی مسائل بڑھ رہے ہیں کیونکہ ملک بھر میں مریض بڑھ گئے ہیں کیا نیشنل بینک آف پاکستان کی انتظامیہ نے کرونا کے ان مشکل دنوں میں اپنے افسران اور ملازمین کو کرونا سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی فراہمی کے حوالے سے کوئی نمایاں اقدامات اٹھائے یا نہیں ؟اس حوالے سے بینکنگ حلقوں میں کافی بحث ہو چکی ہے سوشل میڈیا پر بھی مختلف بینکوں کے کردار اقدامات اور ملازمین کو درپیش صورتحال پر تبصرے ہو رہے ہیں تصاویر شئیر ہو رہی ہیں اور کرونا کا شکار ہونے والے مرد اور خواتین ملازمین کے بارے میں صارفین اپنی اپنی معلومات بیان کر رہے ہیں مجموعی طور پر حکومت پاکستان نے ملک بھر میں جس انداز سے ویکسین کی فراہمی کا عمل شروع کیا ہے اسی طریقے سے بینک ملازمین بھی یہ ویکسین لگوا رہے ہیں نیشنل بینک آف پاکستان کی انتظامیہ پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی تھی کہ وہ اپنے افسران اور ملازمین میں ویکسین کے حوالے سے پائے جانے والے خدشات اور غلط تصورات کو دور کرنے میں کردار ادا کریں اور نہ صرف افسران اور ملازمین کو خود ویکسین لگوانے پر رضا مند رکھیں بلکہ ان کے اہل خانہ اور قریبی عزیزوں کو بھی ویکسین لگوانے کی تلقین کرتے ۔ملک کے کچھ علاقوں میں نیشنل بینک آف پاکستان کے بعض افسران کی اس سلسلے میں ذمہ دارانہ کوششوں اور رویہ کی تعریف سامنے آئی ہے اور کچھ برانچوں میں بالکل کوئی احتیاط نہ برتی جانے اور اس معاملے کو بہت حلقہ لینے کی شکایت بھی آئی۔ یہ سوال ہے سے بعض دیگر بینکوں کے معاملات بھی سامنے آئے اور شکایات پر نوٹس لیا گیا ۔سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے دنوں میں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کے موقع پر اور عید الفطر سے پہلے بینک برانچوں پر کافی ورک لوڈ دیکھا گیا یہی وہ وقت تھا جب کرونا کے پھیلنے کا سب سے زیادہ اچھا ظاہر کیا جا رہا تھا لیکن اللہ نے بڑا کرم کیا اور مختلف بڑے چھوٹے شہروں میں کرونا کا گراف اوپر جانے کے بعد پھر نیچے آنا شروع ہو گیا اس سلسلے میں حکومتی اقدامات اور پالیسی کامیاب رہی لیکن ابھی بھی مسئلہ ختم نہیں ہوا اس لیے احتیاط لازمی ہے نیشنل بینک آف پاکستان جیسے قومی ادارے کو اپنے دفاتر اور برانچوں میں افسران ملازمین اور کسٹمرز کی صحت اور تحفظ کے لئے ضروری حفاظتی انتظامات اور اخراجات کے معاملے میں کنجوسی نہیں برتنی چاہیے بلکہ اضافی اخراجات مزید کچھ عرصے کے لیے جاری رکھنے پر توجہ دینی چاہیے ملازمین کا کہنا ہے کہ صحت سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ بعض برانچوں کے فنڈز اور ملازمین کی حاضری میں کمی کے مسائل سر اٹھا رہے ہیں اس حوالے سے نیشنل بینک آف پاکستان کے ہیڈ آفس کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے بالخصوص بینک کے سی ای او اور صدر عارف عثمانی چونکہ ساری صورتحال کو خود بھی سمجھتے ہیں اور یقینی طور پر وہ نہیں چاہتے کہ کوئی بھی ملازم یا بینک کا کسٹمر نیشنل بینک آف پاکستان کی کسی برانچ پر کرونا کا شکار ہو یا اس کی صحت و زندگی کو کوئی خطرہ لاحق ہو اس لئے ان سے بجا طور پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے نیشنل بینک کے نیٹ ورک اور پندرہ سو سے زیادہ برانچوں میں کرونا سے بچاؤ اور حفاظت کے ضروری اقدامات اور کاموں کو جاری رکھنے کے لیے فنڈ فراوانی سے فراہم کرائیں گے اور اس حوالے سے اگر کوئی شکایت ہے تو اس کا فوری نوٹس لیا جائے اور ازالہ کیا جائے اس کے علاوہ یہ بات بھی یقینی بنایا جائے کہ بینک کے تمام افسران اور ملازمین کی ویکسینیشن عمل میں آ جائے اگر کسی علاقے میں افسران اور ملازمین یہ ویکسین لگوانے سے گریز کر رہے ہیں تو اس کا نوٹس لیا جائے اور غلط تصورات اور خدشات کا ازالہ کیا جائے ۔اس سلسلے میں خود وزیراعظم عمران خان کے آفس میں بھی صورتحال سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے نیشنل بینک آف پاکستان اور اس جیسے اہم قومی اداروں سے رپورٹ لینی چاہیے ۔
——————
Salik-Majeed
——————–
Whatsapp……92-300-9253034