جلتا اور ڈوبتا لاھور

تحریر ۔۔۔۔شہزاد بھٹہ ۔۔

لاھور جو کھبی ایک شہر تھا باغوں پھولوں اور رومانس کا شہر جو پنجاب کا دل تھا جہاں سال میں پانچ موسموں کے نظارے دیکھنے کو ملتے تھے جہاں راتیں جاگتی اور گیت گاتی تھیں برسات کے اپنے خوبصورت رنگ ،  سیاہ اور گھنے بادل اور باغوں میں جھولے لیتی ناریاں ۔۔بہار کے موسم میں ھر طرف رنگ برنگ اور دل کش پھولوں کی کیاریاں اور موسم گرما اور سرما کی اپنی بہاریں۔
۔لاھور دنیا کا واحد شہر جس کے شہری ھر موسم کا لطف اٹھاتے ھیں لاھور نے مختلف تہذیبوں کے نظارے کیے اور دریائے  راوی کا عروج بھی دیکھا جب یہ ایک دریا تھا اور اس کے موجوں پر رنگ برنگنی کشتیاں اور اس میں گیت گاتے ملاح بھی دیکھے اور اسی دریا کو ایک گندے نالے میں تبدیل ھوتے ھوئے  بھی دیکھا
معاشی ترقی کے سیلاب نے اس تاریخی شہر کو تباہ و برباد کر دیا  ھمارے ترقیاتی اداروں نے  ترقی کے نام پر لاھور کا بیڑہ غرق کر دیا ھے۔۔۔لاھور کی تاریخی حیثت ھی بدل کر رکھ دی
اورینج ٹرین منصوبہ نے تو حد ھی کر دی کہ جس کی وجہ سے لاھور کی تاریخی اور پرانی عمارتوں کا نام و نشان ھی مٹ گیا لاھور شہر کے درمیاں سے گزرتی اورینج ٹرین کی وجہ سے تاریخ شہر کا  نقشہ ھی تبدیل ھو کر رہ گیا ۔ترقیاتی اداروں نے تو سونے پہ سہوگے کا کام کیا ایسے ایسے منصوبے بنائے جس سے پیسے تو خوب بنائے مگر شہر کا بیڑہ غرق کر دیا ۔
مسلم اور انگریز حکمرانوں نے لاھور شہر اور گردونواح میں لاتعداد باغات پارک اور سڑکوں کے کناروں پر سایہ داد پھل داد درخت لگائے جن کے نشانات ابھی بھی دیکھے جا سکتے ھیں ان درختوں کی وجہ سے لاھور کا موسم معتدل رہتا تھا مگر پھر ھم نے نئی نئی سڑکیں عمارتیں پلازے اور نئی نئی ھاوسنگ سوسائٹیاں بنانے کے چکر میں ھزاروں لاکھوں بڑے تناور درختوں کو بے دردی سے کاٹ کر بیچ دیا اور جو نئی بلڈنگ ۔پلازے سکولز کالجز اور دفاتر بنائے وھاں درختوں کا نام ونشان نظر نہیں اتا ۔اگر کوئی شجر کاری کی بھی تو برائے نام ۔۔۔چھوٹے چھوٹے یورپین ٹائپ کے پودے لگائے پیسہ بنایا اور گھر کو چل پڑے ۔
جس سے لاھور کے موسم میں سخت تبدیلیاں واقع ھو گئیں اور شدید قسم کی گرمی پڑنی شروع ھوگئیں ۔سال میں گرمیوں کا دورانیہ بڑھ گیا حتی کہ جون جولائی میں لاھور کا ٹمریچر 48 سے 50 سنٹی گریڈ تک پہنچ گئے اور اوپر سے ھم نے اپنا قدیمی کھلا اور ھوا دار طرز تعمیر بھی تبدیل کر دیا اور بالکل بند تعمیرات شروع کر دیں جس سے بجلی اور ائر کنڈیشنرز کا استعمال بڑھ چکا ھے اور ان کی گرم ھوائیں ماحول کو تباہ اور شدید گرمی پیدا کر رھی ھیں جس سے لاھور جل رھا ھے اور حکمرانوں اے سی والے کمروں میں بیٹھے سکون کی بانسی بجا رھے ھیں
اور دوسری طرف برسات کے موسم کی بات کریں تو تب بھی لاھور کا حال برا ھوتا ھے لاھور میں  بارش نہ ھو تو مٹی دھول اور اگر  بارش ھو جائے تو پھر ھر طرف پانی ھی پانی نظر اتا ھے سڑکیں انڈر پاسز بستیاں حتی کہ پورا لاھور برساتی پانی میں ڈوب جاتا ھے اس میں ماڈرن اور نشبی علاقوں کی کوئی تمیز نہیں رہتی۔ نکاس اب کا کوئی مستقل حل نہیں صرف ڈنگا ٹپاو پالیسی پر ھی عمل کرتے ھیں اوپر سے لاھور کے ترقیاتی اداروں نے سڑکوں پہ سڑکیں بنا بنا کر  لاھور کی شہری ابادیوں کو سڑکوں سے کم از کم چھ سے سات فٹ گہرے  کر دیا ھے۔۔
سڑک بنانے کا بین الاقوامی اصول ھے کہ سڑک جس لیول پر ھو اس کو بیس سال بعد بھی اسی لیول پر ھونا چاھیے مگر ھم نے جب بھی کوئی سڑک بنانے کا فیصلہ کیا تو ھم نے ھر دفعہ انہی سڑکوں کو مذید  پتھر ڈال ڈال کر اونچا کردیتے ھیں اور سڑکوں کے ارد گرد والی ابادیاں  خودبخود نیچے ھوتی ھے
ایک وقت تھا کہ ھر سڑک کے دونوں اطراف بارشی پانی کے نکاس کی نالیاں بناتے تھے مگر پھر  ھمارے محکمے سڑکوں کے ساتھ بارشی پانی کے نکاس کے نالیاں تعمیر کرنے  ھی بھول گئے جس کی وجہ سے پانی سڑکوں پر ھی جمع رہتا ھے اور گاٰڑیوں کے ٹائروں سے ضائع ھوجاتا ھے ماھرین کے مطابق پانی سڑک کے لیے زہر قاتل ھے جس سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ شکار رہتی ھیں مگر ھم نے ٹھیکے لینے اور پیسے کمانے کے چکر میں سڑکیں اونچی سے اونچی کرتے جارھے ہیں۔ برسات میں جب بھی بارش ھوتی ھیں تو شہری ڈوبتے ھیں قیمتی سازوسامان تباہ بھی ھوتا ھے مگر ھم صبر و شکر کرکے بیٹھے رہتے ھیں ۔۔اس صورت حال سے لاھور اور دوسرے شہروں کا حلیہ ھی بگڑ چکا ھے ۔۔۔لاھور کی اسی فیصد سے زیادہ شہری صرف جلنے اور ڈوبنے کے لیے رہ گئے ھیں