249 کے انتخاب …. جنتر منتر …. ایک زرداری سب پر بھاری 

قومی اسمبلی کے حلقہ 249 بلدیہ ٹاون کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے کھلاڑی ٹائٹل کا دفاع کرنے میں ناکام رہے انتخابی مہم کے دوران ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ اس باری آوٹ ہیں کھلاڑی ۔لگتا ہے امپائر نے انگلی بھی نہیں اٹھائی۔ امپائر انگلی اٹھاتا بھی تو کیوں کر “وفاداری بشرط استوری ” کھلاڑیوں کو آزمانے کے لیے ڈھائی سال کافی تھے ۔اس دوران کپتان نے اہل کراچی کو کئی مرتبہ بے وقوف بنایا اور مایوس بھی کیا۔ 11 سو ارب کا کراچی ترقیاتی پیکیج کا اعلان ستمبر 2020 کے پہلے ہفتے میں کیا گیا تھا ۔ابھی تک یہ بھی طہ نہیں ہوا کہ رقم کہاں سے آئے گی اور اس کی نگرانی وفاق کرے گا یا صوبہ ، دور دور تک کوئی سن گھن نہیں کہ کراچی میں کسی ترقیاتی پیکیج اور منصوبوں پر کام شروع ہونے والا ہے ۔کراچی کے عوام نے خاص طور پر مہاجروں نے عمران خان کو قائد تحریک کے متبادل کے طور پر قبول کیا تھا۔ 2014 اور 2018 میں ووٹوں سے ڈبے بھر دئے عزیز آباد کے حلقہ سے 70 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا عمران خان کے لیے کم عزاز کی بات نہیں تھی۔ لیکن خان صاحب نے اہل کراچی کی قدر نہیں کی۔ پی ٹی آئی والوں میں اور خاص طور پر ایم این اے اور ایم پی اے میں تکبر اتنا کہ خدا کی پناہ، کراچی والوں کو پلٹ کے پوچھا تک نہیں کہ تم کیسے ہو ۔ تمیں پانی بجلی مل رہی ہے۔ تماری سڑکوں پر سے کوئی کچرا بھی اٹھا رہا ہے، تمیں کوئی سواری بھی مل رہی ہے آنے جانے کے لیے ۔ کوئی ایک کام کیا ہو تو لوگ یاد کریں۔ 2018 کے انتخابات میں جن جن حلقوں سے پی ٹی آئی جیتی کوئی ممبر آج تک حلقہ میں واپس نہیں آیا ایم این اے اور ایم پی اے فنڈ بھی تو ملتے ہوں گے وہ کہاں خرچ ہو رہے ہیں۔ کراچی جتنا جلدی پیار کرتا ہے نفرت بھی اسی تناسب سے کرتا ہے ۔یقینا چھٹا نمبر سن کر کچھ یاد تو آیا ہو گا۔ خان صاحب اگر چاتے ہیں کہ کراچی کے نوجوان ان کے ساتھ جڑھے رہیں تو کراچی سے تعلق رکھنے والے ہر ایم این اے کو حکومت سے نکال کر فنڈ کے ساتھ حلقہ میں واپس بھیج دیا جائےاور واضح ہدایت کی جائے کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں جیت ملے گی تو پھر ملیں گے۔ کراچی کے عوام بہت دکھی ہیں سب کو آزما چکے اب ان کو کوئی نظر نہیں آتا جو ان کے دکھوں کا مداوا کرے۔ زخموں پر مرہم پٹی باندھے۔ ۔ بلدیہ ٹاون کے نتائج پی ٹی آئی کی ناقص کارکردگی کے باعث کراچی کے عوام کی جانب سے غم وغصہ کا اظہار ہے۔ یہ ایسا ہی غم و غصہ ہے جو 2014 میں عزیز آباد کے حلقہ میں ایم کیو ایم کے خلاف دیکھنے میں آیا تھا۔ کھلاڑی کچھ کارکردگی دیکھائے گا تو جنتر منتر کا اثر بھی چڑھے گا ،پیچ بھی ساز گار ہو گی اور امپائر کی انگلی بھی اٹھے گی۔ کوئی کارکردگی ہی نہیں ہو گی تو نواز شریف اور آصف علی زرداری کو چور چور کہنے سے تو کوئی ووٹ نہیں دے گا ۔غیر متوقع طور پر پاکستان پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا۔ مجھے لگتا ہے کہ کراچی کے عوام سب کو آزمانے کے بعد پیپلزپارٹی کی طرف پلٹنے کا سوچ رہے ہیں ۔۔ بے شک لوگ مراد علی شاہ کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ اس کے دور اقتدار میں کراچی میں کچرا تو نہیں اٹھا لیکن بلاول پیکیج کے تحت سڑکوں اور پلوں کے میگا منصوبوں پر ترقیاتی کام جاری ہیں اور بہت سارے منصوبے مکمل بھی ہو چکے ۔ اس لحاظ سے بلدیہ ٹاون کے عوام کا فیصلہ کچھ غلط بھی نہیں کہ تمام وسائل اور اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں تو اس سے لڑائی جھگڑا کس بات کا ۔۔انتخابات کے ایک دن پہلے تک پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کی کوئی امید تھی نہ توقع ۔ انتخابی ماہرین کی رائے تھی کہ پولنگ کے اختتام پر متوالے شیر کا ماڈل اٹھائے حلقے کا چکر اور بلدیہ ٹاون کی پہاڑیوں پر آتش بازی کا شاندار مظاہرہ کریں گے۔ رات 9 بجے کے خبر نامہ میں مریم بی بی کا بیان آئے گا کہ عوام نے نیازی کو مسترد اور نواز شریف کے بیانیہ پر مہر ثبت کر دی ۔ لیکن متوالوں کے جذبات ٹھنڈے اور امیدوں پر اونس پڑھ گئی جب معلوم ہوا کہ تیر نے شیر کا شکار کر لیا۔ متوالوں کا خیال تھا کہ ساحل سمندر پر نمی کے باعث تیر زنگ آلود ہو چکا، بلاول ہاوس کے کسی طہ خانہ میں رکھا ہو گا۔ ان کو معلوم ہی نہیں ہوا جب بلاول اور مریم بی بی اگٹھے جلسہ کر رہے تھے تو آصف علی زرداری تیر کو کسی خاص بھٹی میں پان لگوا رہے تھے ۔ آصف علی زرداری آل راؤنڈر ہیں ہر فیلڈ کے کھلاڑی ہیں ان کو معلوم تھا کہ تیر کا تیار رہنا ضروری ہے شکار کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے ۔قادر خان مندوخیل کی کامیابی کی خبر سن کر لگا کہ نواز شریف کا بیانیہ بھاری نہیں، ایک زرداری سب پر بھاری ہے۔۔ نواز شریف کا بیانیہ کیا ہے سب جانتے ہیں اور کون اس پر مہر لگاتا اور کون مٹاتا ہے اب یہ بھی پوشیدہ نہیں رہا۔ لیکن بلدیہ ٹاون کے انتخابات تو یہی اشارہ کر رہے ہیں کہ بیانیہ ایک ہی چلے گا جنتر منتر کا ۔۔۔ مریم بی بی عمران خان کی حکومت کو سلیکٹڈ کہتی ہے ۔ قادر خان مندوخیل کو کیا کئیں گی سلیکٹڈ ہے یا الیکٹڈ ۔ اگر سلیکٹڈ ہے تو یہ سلیکٹر کون ہے ۔ مولانا کو خبر ہو کہ آصف علی زرداری اپنے پتے کھیلتا ہے اتحادیوں کے نہیں ۔ بڑی مشکل سے میدان میں اترا ہے آپ پی ڈی ایم میں دعوت دے کر پیولین میں بلانا چاتے ہو ۔کوئی مانے یا نہ مگر سچ یہی ہے کہ بلدیہ ٹاون کے انتخاب میں مسلم لیگ ن نہیں مریم کی سیاست ہار گئی وہ مریم نواز ہو یا اورنگزیب ۔صرف شاستہ اردو اور جارحانہ انداز ہی سیاست نہیں، تدبر، معاملہ فہمی بھی کسی بلا کا نام ہے۔۔ لہذا شہباز شریف ہی کے نئے بیانیہ کے ساتھ آگئیں بڑھنے سے ممکن ہے جنتر منتر کا اثر ظاہر ہونا شروع ہو جائے ۔امید یہ تھی کہ پی ٹی آئی والے اور مصطفی کمال ضرور پریس کانفرنس کریں گے کہ جو ووٹ ڈبوں میں ڈالے گئے وہ جوگی کے جنتر منتر کی وجہ سے گنتی کے وقت انتخابی عملے کی نظر سے اوجل رہے۔ مصطفی کمال نے تو حسب توقع ایسا ہی کیا ۔ سید مصطفی کمال انتہائی ایماندار، عبادت گزار اور انتظامی امور میں تجربہ کار، انسان دوست شخصیت ہیں۔سیاست میں داخلے کے وقت انہوں نے قائد تحریک پر جو لعن طعن کی اس سے مہاجر ان سے ناراض ہیں۔ لگتا ہے انہیں کچھ عرصہ اور انتظار کرنا پڑے گا۔ کسی دن اچانک مینار پاکستان کی طرح نشتر پارک بھی بھر جائے گا ۔ دوسرے دن ان کی گڈی آسمان پر اور وہ خود ایوان میں ہوں گے۔ ابھی وقت ایسا نہیں آیا۔ ان کا صبر آزمانے کا دورانیہ ابھی چل رہا ہے۔ اگر وہ اسی طرح لگے رہے تو کامیاب ضرور ہوں گے ۔ اس مرتبہ ان کو اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ مقابلے کی فہرست میں کھڑا ہونے کا موقع مل گیا جب کہ ایم کیو ایم سے ووٹ بھی زیادہ لے کر یہ ثابت کیا کہ ان کی جماعت عوام میں جڑیں پکڑ رہی ہے۔ ایم کیو ایم والے ابھی بھی انتظار میں ہیں کہ کب ” ہیلو” ہو اور ہم جواب دیں ” جی بھائی” پھر ست بسم اللہ جی آیاں نو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ۔درست کہا سعید غنی نے کہ بلدیاتی انتخابات بھی پیپلز پارٹی جیتے گی۔ لیکن شرط ہے کہ بلدیہ ٹاون کے عوام کو مایوس نہ کیا جائے ۔ اگر پیپلز پارٹی نے بلدیہ ٹاون میں حق نمائندگی ادا کیا تو کراچی میں اگلا دور پیپلز پارٹی کا ہے ۔ بلدیہ ٹاون کے عوام کو پانی سیوریج اور سڑکیں چاہئے ۔جو پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی دسترس میں ہے ۔ یہ تو دو، چار ارب کے کام ہوں گے ڈھائی سال میں کچھ زیادہ نہیں ۔ کارکردگی اچھی ہوئی تو کراچی آپ کا۔ ورنہ آئند انتخابات میں پی ٹی آئی کی طرح چار بجے کیمپ اتار کر بھاگنے میں ہی آفیت سمجھی جائے گی ۔