صادق اور امین وزیراعظم عمران خان بمقابلہ ایف آئی اے افسر بشیر میمن ۔۔۔کون سچا کون جھوٹا ؟

وزیراعظم عمران خان نے بشیر میمن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا
بشیر میمن کو فائز عیسیٰ کے خلاف کبھی کیسز بنانے اور تحقیقات کا نہیں کہا، بشیر میمن کو مریم نواز، ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کیخلاف کبھی کیسز بنانے کا نہیں کہا۔وزیراعظم عمران کی سینئر صحافیوں سے گفتگو

وزیراعظم عمران خان نے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا ہے، انہوں نے کہا کہ بشیر میمن کو فائز عیسیٰ کے خلاف کبھی کیسز بنانے اور تحقیقات کا نہیں کہا،بشیر میمن کو مریم نواز، ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کیخلاف بھی کیسز بنانے کا نہیں کہا۔ انہوں نے سینئر صحافیوں اور اینکرپرسنز سے ملاقات میں گفتگو میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بشیر میمن کے الزامات بے بنیاد ہیں،بشیر میمن جو بھی بات کر رہا ہے جھوٹ اور لغو ہے۔
بشیرمیمن کو اس سے پہلے کوئی خاص جانتا تک نہیں تھا۔ بشیر میمن کو فائز عیسیٰ کے خلاف کبھی کیسز بنانے اور تحقیقات کا نہیں کہا، ریفرنس فائل کرنے کا کام بشیر میمن کا تھا ہی نہیں تو ان سے کیوں کہتا؟ بشیر میمن کو مریم نواز، ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کیخلاف بھی کیسز بنانے کا نہیں کہا۔
خاتون اول کی تصویر کے معاملے میں مریم نواز پر دہشتگردی کا مقدمہ بنانے کا کبھی نہیں کہا۔

انہوں نے کہا کہ بشیرمیمن صرف اومنی گروپ کی جےآئی ٹی میں پیش رفت پر بریف کرتے تھے۔ بشیرمیمن نے آصف زرداری جےآئی ٹی کیسز پر ایک باراپ ڈیٹ کیا تھا۔ لیکن میں نے ان کو کبھی کسی کے بارے میں کیس بنانے کا نہیں کہا۔ کابینہ میٹنگ میں ضرور کہا تھا کہ خواجہ آصف کےخلاف تحقیقات ہونی چاہیے۔ بشیرمیمن کو صرف خواجہ آصف کے اقامے کے معاملے پر تحقیقات کا کہا تھا۔
خواجہ آصف کیس کی تحقیقات کا فیصلہ کابینہ اجلاس میں بھی کرچکے تھے۔ بشیرمیمن کو صرف خواجہ آصف کے اقامے کے معاملے پرتحقیقات کا کہا تھا۔ کہا تھا تحقیقات کریں یہ کیسے ہوسکتا ہے وزیر خارجہ اور دفاع غیرملکی اقامہ اور تنخواہ لیتا ہو؟ انہوں نے کہا کہ علی ظفر دیکھیں گےکہ کہیں کوئی اثررسوخ تواستعمال نہیں کررہا۔ ڈاکٹر رضوان کو ہٹایا نہیں ابوبکر خدا بخش بھی ان کیساتھ ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیرترین کے معاملے پرملنے والے وفد نے جوڈیشل کمیشن بنانے کا کہا۔
—————————

جیو نیوز کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان، وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم، مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو انتقامی کارروائی کے الزامات کا سامنا ہے، الزام ہے کہ وزیراعظم کے دفتر سے مخالفین کے خلاف کیس بنانے کے غیرقانونی احکامات دیئے گئے،وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے پروگرام میں کہا کہ بشیر میمن سے میں نے کبھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کیس بنانے کی بات نہیں کی، وزیراعظم نے کہا بشیر میمن سے فائز عیسیٰ کیس پر کوئی بات نہیں ہوئی، شہزاد اکبر، اعظم خان اور وزیراعظم نے بھی کبھی بشیر میمن کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف کیس بنانے کیلئے نہیں کہا، پتا نہیں بشیر میمن یہ کیوں کررہے ہیں کہ ایگزیکٹو اور عدلیہ آپس میں لڑیں لیکن ایسا نہیں ہوگا، کوئی اگر کوشش کررہا ہے کہ ہمیں لڑائے مگر ہم نہیں لڑیں گے، عدلیہ ہمارے سر کا تاج ہے، پتہ نہیں کون چاہتا ہے ایگزیکٹیو اور عدلیہ میں لڑائی ہو، این اے 249سے پی ٹی آئی کے امیدوار امجد آفریدی نے پروگرام میں بتایا کہ تحریک انصاف نے حلقے میں چالیس سے پچاس کروڑ کے فنڈز لگائے، این اے 249سے ن لیگ کے رہنما مفتاح اسماعیل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے این اے 249 میں کوئی کام نہیں کیا، این اے 249سے پی ایس پی کے امیدوار مصطفی کمال نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ این اے 249کے حالات پاکستان کے شہری علاقوں میں سب سے زیادہ خراب ہیں۔تفصیلات کے مطابق فروغ نسیم نے جیو کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے بشیر میمن کے الزامات کو غلط اور جھوٹ پر مبنی قرار دیا ہے، وزیراعظم سے میں نے پوچھا کبھی بشیر میمن سے قاضی فائز عیسیٰ کیس پر بات ہوئی، وزیراعظم نے کہا بشیر میمن سے قاضی فائز عیسیٰ کیس سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی، ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے اعظم خان، شہزاد اکبر اور بشیر میمن کبھی ایک ساتھ میرے دفتر نہیں آئے، اعظم خان صرف ایک مرتبہ اگست 2018ء میں میرے دفتر لیگل ریفارمز پر بات چیت کیلئے آئے تھے، بشیر میمن کے الزامات اسی سے غلط ثابت ہوجاتے ہیں، میں سمجھتا تھا بشیر میمن اچھے اور ایماندار آدمی ہیں ان کا بیان سن کر اچنبھے میں آگیا،میرے گمان سے باہر ہے بشیر میمن کیوں یہ غلط باتیں کررہے ہیں۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر بہت دفعہ میرے پاس آئے ہیں، بشیر میمن دو تین میٹنگوں میں شریک ہوئے جس میں مزید لوگ بھی تھے، بشیرمیمن جن دنوں کی بات کررہے ہیں اس وقت میرا جسٹس فائز عیسیٰ کیس لڑنے کا ارادہ نہیں تھا، وزیراعظم کے کہنے پر میں نے کیس لڑنے کا فیصلہ کیا، میں اور شہزاد اکبر عدالت میں ضرور گئے دلائل انور منصور خان نے ہی دینے تھے، سوال یہ ہے کہ بشیر میمن ڈھائی سال تک خاموش کیوں رہے،بشیر میمن کو سوچنا چاہئے اور اپنا بیان واپس لینا چاہئے،بشیر میمن بیان واپس نہیں لیتے تو ان کیخلاف قانونی چارہ جوئی کرسکتا ہوں، بشیر میمن کو لیگل نوٹس بھیجنے کیلئے ڈرافٹنگ شروع کردی تھی لیکن کچھ سوچ کر رک گیا، ڈی جی ایف آئی اے سپریئر کورٹ کے جج کیخلاف کیس نہیں بناسکتا یہ سپریم جوڈیشل کونسل کا استحقاق ہے، وزیراعظم یا میں بشیر میمن کو ایسا کرنے کیلئے کیوں کہیں گے۔ فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ پتا نہیں کون چاہتا ہے ایگزیکٹو اور عدلیہ کی لڑائی ہو، بشیر میمن سے میری کوئی دوستی نہیں ہے،شہزاد اکبر کی بات دوسری ہے وہ آتے جاتے ہیں، ہمارے خلاف یا حق میں فیصلہ دینے والے ججوں کی عزت کرتا ہوں، میرا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کوئی جھگڑا نہیں ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بھی عزت کرتا ہوں۔ فروغ نسیم نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس بھیجنے کیلئے میری ایف آئی اے کے کسی افسر سے بات نہیں ہوئی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس بھیجنے سے پہلے میری وزیراعظم اور صدر سے بات ہوئی،مکمل ڈسکشن کے بعد ریفرنس بھیجاگیا تھا، رولز آف بزنس کے مطابق ریفرنس وزارت قانون بھیجتی ہے۔ این اے 249سے پی ٹی آئی کے امیدوار امجد آفریدی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ این اے 249میں پانی اور سیوریج کے مسائل بلدیاتی نمائندوں کو حل کرنا تھے، ن لیگ کے چار چیئرمین اس حلقے سے تھے جنہوں نے کام نہیں کیا، تحریک انصاف نے حلقے میں چالیس سے پچاس کروڑ کے فنڈز لگائے، تحریک انصاف وہ پارٹی ہے جس نے تیس چالیس سال بعد اس حلقے میں کام کیا، میں اس علاقے کا بیس پچیس سال سے رہائشی ہوں سارے مسائل میرے ذاتی ہیں، وزیراعظم سے ملاقات میں علاقے کے مسائل پر ان سے بات کی۔این اے 249سے ن لیگ کے رہنما مفتاح اسماعیل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے این اے 249 میں کوئی کام نہیں کیا، فیصل واوڈا نے تین سال میں حلقے میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا، مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے لوگ تباہی کے کنارے پر آگئے ہیں، پی ٹی آئی کو ووٹ دینا اپنا ووٹ ضائع کرنا ہوگا، پیپلز پارٹی نے 13سال میں یہاں گٹر کا ڈھکن نہیں لگایا پچھلے 13دنوں سے کام کررہے ہیں، بلدیہ میں پانی کی قلت نہیں ہے لیکن ڈسٹری بیوشن کا مسئلہ ہے، پیپلز پارٹی بلدیہ کے لوگوں کا پانی ہائیڈرنٹس لگا کر بیچ رہی ہے، ہائیڈرنٹس بند کروانے کیلئے اپنے خرچے سے قانونی چارہ جوئی کروں گا۔ این اے 249سے پی ایس پی کے امیدوار مصطفی کمال نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ این اے 249کے حالات پاکستان کے شہری علاقوں میں سب سے زیادہ خراب ہیں، پچاس فیصد ایسے علاقے ہیں جس میں پورے سال میں صرف چھ گھنٹے پانی آتا ہے، میں کراچی کا ناظم تھا تو ساٹھ لاکھ گیلن کی پائپ لائن بچھائی، آج اس پائپ لائن پر پچیس ہائیڈرنٹس اور 178غیرقانونی کنکشن ہیں، سیاسی پارٹیاں یہاں پانی چوری کرکے بیچنے کے کام میں شامل ہیں، گیارہ سال پہلے کارڈیک اسپتال بنا کر گیا آج تک اسے شروع نہیں کیا گیا، میں مسائل سمجھتا بھی ہوں انہیں حل کرنا بھی جانتا ہوں، لوگ راتوں میں سورہے ہوں گے میں جاگ کر چوری روکوں گا، میری بات جو نہیں مانے گا وہ ایکسپوز ہوگا، کراچی کو سب نے مل کرلوٹا ہے صرف ٹوئٹر اور فیس بک پر بات ہوتی ہے۔
———————————
وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس پر فیصلہ کسی کی ہار یا جیت نہیں ہے، بشیر میمن ڈیڑھ سال بعد من گھڑت کہانی بیان کررہے ہیں ، ان کے الزامات کی کوئی حیثیت نہیں جس پر جوڈیشل انکوائری کی جائے،الزامات پر نوٹس بھیج دیا،جہانگیر ترین کا معاملہ سیاسی نہیں قانونی ہے،احتساب بلاامتیاز ہورہا ہے، ایف آئی اے کی کوئی ٹیم میری زیرنگرانی کام نہیں کرتی نہ کررہی ہے، اراکین اسمبلی کے تحفظات تھے کہ رضوان صاحب شاید براہ راست کام کررہے ہیں۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ مجھے یاد نہیں کبھی بشیر میمن سے میری کوئی ملاقات ہوئی ہو یا میں نے انہیں فون کیا ہو،ان کی باتوں کی تردید کرنیوالوں کو سب جانتے ہیں، سپریم کورٹ بشیر میمن کے انکشافات کا ازخود نوٹس لے کر خود تحقیقات کرے۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب وداخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے مزید کہا کہ ایف آئی اے کی کوئی ٹیم میری زیرنگرانی کام نہیں کرتی نہ کررہی ہے، وزیراعظم سے کل دو تین ملاقاتیں ہوئیں انہوں نے کوئی بات نہیں کی، جہانگیر ترین سمیت دیگر کے خلاف کارروائی شوگر کمیشن کی رپورٹ پر کی جارہی ہے،اداروں نے ایکشن لیا تو انہیں ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، ہر جگہ یہی طے پایا کہ شوگرانکوائری کمیشن قانون کے مطابق تھا، کابینہ نے شوگر کمیشن کی سفارشات عملدرآمد کیلئے اداروں کو بھیجی ہیں وہ بھی قانون کے مطابق ہیں۔ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کا معاملہ سیاسی نہیں قانونی ہے، پی ٹی آئی حکومت میں احتساب کا عمل بلاامتیاز کیاجارہا ہے،کسی افسر کا ٹرانسفر نہیں کیا گیا، اراکین اسمبلی کے تحفظات تھے کہ رضوان صاحب شاید براہ راست کام کررہے ہیں، ایف آئی اے نے بتایا سپرویژن ایڈیشنل ڈی جی ابوبکر کررہے ہیں، ابوبکرسینئر اور ایماندار پولیس افسر ہے امید ہے ان پر کوئی تحفظات نہیں ہوں گے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ بشیر میمن کے الزامات پر انہیں قانونی نوٹس بھیج دیا ہے، بشیر میمن نے الزام واپس نہ لیا تو عدالت لے جاؤں گا جہاں انہیں ثابت کرنا پڑے گا، بشیر میمن ثابت نہ کرسکے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس پر فیصلہ کسی کی ہار یا جیت نہیں ہے،نظرثانی اپیل میں عدالتی فیصلے کو قانونی نظر سے دیکھنا چاہئے، جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف ہم نے کیس نہیں کھولا تھا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا گیا تھا، کیس کھولنے کا فیصلہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کرتا ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ برطانوی ہوم ڈپارٹمنٹ کے ساتھ اسحاق ڈار سے متعلقہ ایم او یو سائن ہوگیا ہے،لیگل ڈپارٹمنٹ پراسس کرلے گا تو معاملہ برطانوی عدالت کے سامنے پیش ہوگا، میری اطلاع کے مطابق اسحاق ڈار برطانیہ میں پناہ لے چکے ہیں، نواز شریف، اسحاق ڈار کی طرح ملزم نہیں سزا یافتہ مجرم ہیں، نواز شریف برطانیہ میں وزٹ ویزہ پر ہیں جس کی مدت ختم ہوگئی ہے،برطانوی حکومت سے نواز شریف کو ڈیپورٹ کرنے کیلئے کہا ہے، اس کے ساتھ نوازشریف کی حوالگی کا پراسس بھی چل رہا ہے، برطانیہ نے نواز شریف کی حوالگی سے انکار نہیں کیا معاملہ ابھی چل رہا ہے۔ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے ساتھ تعلقات میں مسائل نہیں ہیں، کورونا وبا کی وجہ سے دنیا میں بہت سے ایشوز جنم لے رہے ہیں، برطانیہ نے پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں پر پاکستان سے برطانیہ آنے پر پابندی لگائی تو ہم نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، پہلی دفعہ پاکستانی حکومت اپنے شہریوں کیلئے دوسری حکومت سے لڑرہی ہے۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ضمنی انتخابات سیاست کی اہم ضرورت ہیں، مضبوط سیاسی حکومت کے بغیر کورونا کا مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا، کراچی میں کل انتخابات میں لوگ مکمل احتیاط کے ساتھ ووٹ ڈالیں گے، این اے 249 میں بھی این اے 75ڈسکہ جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں، انتظامیہ اور الیکشن کمیشن شفاف اور غیرمتنازع الیکشن کے انعقاد کیلئے اقدامات کریں، ایسے پولنگ اسٹیشنز کی نشاندہی کردی ہے جہاں دھاندلی کی کوشش ہوسکتی ہے، امن و امان برقرار رکھنے کیلئے حلقے میں پولیس اور رینجرز کی نفری بڑھائی جائے، پولنگ ایجنٹس کو موبائل فون رکھنے کی اجازت دی جائے تاکہ معاملہ خراب ہونے کی صورت اطلاع دے سکیں۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جاوید لطیف کے معاملہ میں حکومت کو منہ کی کھانا پڑے گی، اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری حکومت کی بوکھلاہٹ کی نشاندہی کرتی ہے
—————————–
وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل اور پارلیمانی سیکرٹری برائے منصوبہ بندی کنول شوذب نے کہاہے کہ بشیر میمن مضحکہ خیز بیان دیکر نئی نوکری کی تلاش میں ہیں۔

مریم نوازپے درپے ناکامیوں کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں،کسی بیوروکریٹ کی باتوں کی اہمیت ہے تو سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کی باتوں کو سنیے کہ کس طرح بھارتیوں کو ویزے دلوائے گئے،عدلیہ کو بھارت میں ہائی کمشنر رہنے والے عبدالباسط کے بیان کا نوٹس لینا چاہیے۔

بدھ کو یہاں وزیرمملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل وزیر نے کنول شوذب کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز ایک نفسیاتی مریضہ ہیں اور پریشان ہیں ،جب انکی پیشی ہوتی ہے وہ ایک نیا بیان داغ دیتی ہے ۔
——————————
مجھے بلا کر کہا گیا جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف انکوائری کریں، بشیر میمن
——–
جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے انکشاف کیا ہے کہ مجھے بلا کر کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف انکوائری کریں، میں نے کہا کہ میرے ٹی آر اوز میں یہ نہیں آتا، پولیس قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے ہم غیرقانونی کام کیسے کرسکتے ہیں وہ بھی ایک جج کے خلاف۔ وزیراعظم نے کہا محمد بن سلمان جو کہتا ہے وہ ہوتا ہے، میں نے کہا سعودی عرب میں بادشاہت ہے پاکستان میں جمہوریت ہے، پاکستان میں صرف گرفتار کرنا نہیں ہوتا جرم بھی ثابت کرنا ہوتا ہے، یہ خواجہ آصف پر غداری کیس بناناچاہتے تھے۔سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے کہا کہ مجھے وزیراعظم ہاؤس بلا یا گیا جہاں ان سے ملاقات ہوئی، وزیراعظم نے کہا کہ آپ قابل افسر ہیں کام شروع کریں ہمت کریں آ پ کرسکتے ہیں، اس وقت تک مجھے نہیں پتا تھا کہ کیس کیا ہے، شہزاد اکبر کے کمرے میں گئے تو کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف کیس بنانا ہے اور انکوائری کرنی ہے، وہاں سے میں، اعظم خان اور شہزاد اکبر تینوں فروغ نسیم کے آفس گئے جہاں ڈاکٹر اشفاق بھی موجود تھے، او ای سی ڈی کا ڈیٹا ڈاکٹر اشفاق کے پاس تھا، ہم فروغ نسیم کے آفس گئے وہ بھی کنوینس تھے کہ ایف آئی اے یہ کیس بنائے، میں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کیخلاف انکوائری ایف آئی اے کا نہیں سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے، میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ ہمارے ٹی آر اوز میں یہ نہیں آتا، انہو ں نے کہا کہ ایف بی آر اور آپ مل کر انکوائری کرو جسے میں نے مسترد کردیا، ہائیکورٹ کا جج ایک آرڈر سے مجھے عہدے سے ہٹاسکتا تھا، مجھے پتا تھا جیوڈیشل مجسٹریٹ سے سپریم کورٹ کے جج تک میں انکوائری نہیں کرسکتا، پولیس قانون نافذ کرنے والا ادارہ ہے وہ غیرقانونی کام اور وہ بھی ایک جج کے خلاف کیسے کرسکتا ہے ۔ بشیر میمن نے بتایا کہ فروغ نسیم جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف منی لانڈرنگ کا کیس بناناچاہتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کا کیس کرنا آپ کا مینڈیٹ ہے، میرا موقف تھا کہ حکومت کے کہنے پر جج کیخلاف منی لانڈرنگ کا کیس نہیں کرسکتی،سپریم جوڈیشل کونسل ہی ہمیں کیس کرنے کیلئے کہہ سکتی ہے، اپنی قانونی ٹیم کے ساتھ مشاورت کی تو انہوں نے بھی کہا کہ میرا موقف درست ہے، پاکستان میں آئین او ر سپریم کورٹ ہے، بحیثیت پولیس افسر تجربہ ہے کہ عدلیہ کے رولز ریگولیشن میں ہم نہیں جاسکتے، میرا اختیار ہی نہیں تھا میں سمجھتا تھا اپنے ٹی او آرز سے آگے بڑھ جاؤں، ڈاکٹر اشفاق کا خیال تھا میں یہ کرسکتا ہوں میں نے کہا پھر آپ کریں، میں نے انہیں سمجھایا بھی کہ آپ اپنے ساتھ کیا کررہے ہو، اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو اوپن انکوائری کروالیں ، شہزاد اکبر نے ایک مہینے بعد جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی فیملی کی ٹریولنگ ہسٹری کا پوچھا، میں نے کہا آپ نے ابھی تک جان نہیں چھوڑی ایسا مت کریں، وزیراعظم کی مجھ سے ناراضگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔بشیر میمن نے بتایا کہ میں نے ریٹائرمنٹ سے پندرہ دن پہلے نوکری سے استعفیٰ دیا تھا، مجھے غلط او ایس ڈی بنایا گیا تھا حالانکہ پندرہ دن پہلے ٹرانسفر بھی نہیں کیا جاتا، مجھے پتا تھا میرا نقصان ہوگا اس کے باوجود استعفیٰ دیا۔بشیر میمن نے کہا کہ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، کیپٹن صفدر اور سلمان شہباز کیخلاف کیس بنانے کیلئے زیادہ زور تھا، مریم نواز کے خلاف ایجوکیشن ریفارمز پر انکوائری کیلئے کہا گیا، میں نے کہا چٹھی لکھ دیں مگر وہ چٹھی نہیں آئی، جج ویڈیو اسکینڈل میں مریم نواز کی پریس کانفرنس پر بھی دہشتگردی کا کیس بنانے کیلئے کہا گیا، میری آخری سروس تھی پہلے کبھی نہیں گھبرایا اب کیوں گھبراتا، مجھے میں کیریئر کے عروج پر پہنچ چکا تھا مجھے توسیع کی ضرورت نہیں تھی، ن لیگ کے لئے میرے دل میں سافٹ کارنر کیوں ہوگا، ن لیگ نے مجھے کوئی فیور نہیں دیا مجھے سینیارٹی پر گریڈ ملا، مسلم لیگ ن والے مجھے جانتے بھی نہیں ہیں، میں نے پنجاب میں آج تک نوکری نہیں کی، نواز شریف سے بحیثیت وزیراعظم ایئرپورٹ پر پروٹوکول میں ملاقاتیں ہوئیں۔ بشیر میمن کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کیخلاف کارروائی ایف آئی اے کا مینڈیٹ نہیں تھا، ایف آئی اے کا مینڈیٹ وفاقی حکومت اور بینکنگ کرائمز کا ہوتا ہے، انہیں بتایا کہ یہ صوبائی اینٹی کرپشن کا مینڈیٹ ہے ان سے کیس کروالیں، نیب صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے کیس کرسکتا ہے اس لیے نیب سے کیس کروالیے، چیف ایگزیکٹو وزیراعظم عمران خان نے مجھے کہا کہ میں نے نیب سے کہا اگلے دن شہباز شریف گرفتار ہوگیا اسے وفاداری کہتے ہیں، وزیراعظم نے مجھے کہا تھا کہ محمد بن سلمان کسی کو جو کہتا ہے اس کا کوئی سرکاری محکمہ اسے منع نہیں کرتا، تم ہر بات میں کہتے ہو آئین قانون یہ کہتا ہے،میں نے کہا سعودی عرب میں بادشاہت ہے، پاکستان میں جمہوریت ہے صرف گرفتار نہیں کرنا ہوتا عدالت میں جرم بھی ثابت کرنا ہے، ہمیں دستاویز چاہئے ہوتی ہیں، ثبوت چاہئے ہوتا ہے ہم 14روز سے زیادہ کا ریمانڈ نہیں لے سکتے، وہ چاہ رہے تھے کہ وہ جو کہہ دیں وہی قانون ہوجائے، کسی کے کہنے سے کوئی بھی چیز قانون نہیں بن جاتی، عدالت کوئی حکم دے تو اس پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔ بشیر میمن نے کہا کہ زیادہ تر زور نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، احسن اقبال، جاوید لطیف، شاہد خاقان عباسی ،رانا ثناء اللہ ، خواجہ آصف ، خرم دستگیر خان، مریم اورنگزیب، خورشید شاہ، نفیسہ شاہ، مصطفیٰ نواز کھوکھر، اسفند یار ولی، امیر مقام اور سابق چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار کیخلاف کیس بنانے کیلئے تھا، ان کا ہر چیز پر موقف تھا کہ اپوزیشن کو چھوڑنا نہیں ہے، یہ خواجہ آصف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنانا چاہتے تھے، اقامہ رکھنا جرم نہیں یہ ورک پرمٹ ہے، اقامہ رکھنا غداری کے زمرے میں کیسے آگیا، میں کہتا تھا غداری کا کیس بنانے کیلئے عدالت میں ثبوت دینا ہوگا کہ انہوں نے کون سا ملکی راز دبئی میں کسی کو دیا، وہ کہتے تھے فی الحال پکڑو پھر دیکھیں گے، مریم نواز کیلئے بھی وزیراعظم نے کہا کہ فی الحال اس بات پر پکڑلو کہ انہوں نے پریس کانفرنس کر کے جج ارشد ملک کو ٹیررائز کردیا، میں نے کہا کہ پریس کانفرنس پر پیمرا کا قانون لاگو ہوسکتا ہے، سوشل میڈیا پر فرسٹ لیڈی کی تصویر شیئر ہونے پر مریم نواز کیخلاف دہشتگردی کا مقدمہ کرنے کیلئے کہا گیا، میں نے کہا کہ یہ دہشتگردی کا مقدمہ نہیں بنتا اس پر بدمزگی ہوئی۔ بشیر میمن کا کہنا تھا کہ میں نے ریٹائرمنٹ سے پہلے عمرے پر جانے کیلئے چھٹی لی تھی، وزیراعظم نے دو دن پہلے مجھے بلالیا کہ اہم بات ہوگی، بات اس پر ہوئی کہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف ، خواجہ آصف پر کچھ نہیں کیا، عارف نقوی پر بات ہوئی تو میں نے کہا کہ عارف نقوی کے پاس ملک کے پیسے ہیں، ہم نے عارف نقوی پر 87ارب روپے ثابت کیئے تھے، یہ سوئی سدرن گیس کے پیسے تھے جو عارف نقوی نہیں دے رہا تھا، وزیراعظم پہلے بھی تین چار دفعہ مجھے کہہ چکے تھے کہ تم نے ایک کمپنی کو تباہ کردیا اس دن تو بہت زیادہ ناراض تھے، میں نے کہا پیسے عارف نقوی نے کھائے ہیں آپ کیوں ناراض ہورہے ہیں تو کہنے لگے تمہیں پتا ہے وہ میرا دوست ہے ، کسی عدالتی فورم پر یا انکوائری میں تمام حالات و واقعات پر اپنا ورژن دینے کیلئے تیار ہوں، سپریم کورٹ جب چاہے کسی کو بلاسکتا ہے میں قانون پسند شہری ہوں۔تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی نذیر احمد چوہان نے کہا کہ وزیراعظم سے ملاقات میں جہانگیر ترین کیخلاف کارروائی سے متعلق تمام تحفظات سامنے رکھے، ہم نے بتایا کہ جہانگیر ترین کیخلاف تینوں ایف آئی آرز میں شوگر مافیا کا کہیں ذکر نہیں ہے، وزیراعظم بہت سی چیزوں پر لاعلم تھے انہوں نے کئی باتوں پر حیرانگی کا اظہار کیا، لگتا ہے ان سے کافی چیزوں کو چھپایا جارہا تھا، وزیراعظم نے کہا کہ شہزاد اکبر کو جہانگیر ترین سے متعلق تحقیقات سے ہٹالیا جائے گا، وزیراعظم نے خصوصی کمیٹی بناتے ہوئے اسپیشل ٹاسک بیرسٹر علی ظفر کو دینے کی بات کی، شاہ محمود قریشی نے وائس چیئرمین ہوتے ہوئے جو باتیں کیں وہ کرنی نہیں بنتی تھیں،عمران خان کے ساتھ بیٹھے لوگ جلتی پر تیل پھینک رہے ہیں۔ نمائندہ خصوصی جیو نیوز زاہد گشکوری نے کہا کہ ڈاکٹر رضوان چار حکومتی ارکان کی شوگر ملوں کیخلاف بڑا ایکشن لینے جارہے تھے اسی لئے انہیں تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی سے ہٹا گیا، ڈاکٹر رضوان نے سولہ اور سترہ اپریل کو وفاقی حکومت کے نمائندے کو تحقیقات سے متعلق بریفنگ دی تھی، ڈاکٹر رضوان نے انہیں بتایا تھا کہ دو حکومتی ارکان اسمبلی کی شوگر ملوں کا ٹرن اوور 4ارب سے زیادہ تھا، وہ سمجھتے تھے ان ارکان اسمبلی کیخلاف چار سے پانچ ایف آئی آرز درج ہونی چاہئیں، ڈاکٹر رضوان کو کہا گیا کہ آپ یہ ایف آئی آرز روک لیں بلکہ جہانگیر ترین کیخلاف بھی جو تین ایف آئی آرز کی گئی ہیں ان پر بھی نظرثانی کریں، ڈاکٹر رضوان نے انہیں بتایا کہ ایف آئی آرز واپس لینے سے کیس زیرو ہو جائے گا، اس کے بعد اچانک ڈاکٹر رضوان کو بتایا گیا کہ آپ کا آگے چلنا مشکل ہے اس لئے خود کو کیس سے علیحدہ کرلیں۔ زاہد گشکوری نے بتایا کہ ڈاکٹر رضوان ٹو اسٹار شوگر مل ، آر وائی کے گروپ، انڈس شوگر مل اور تاندیانوالہ شوگر مل کیخلاف ایکشن کرنے جارہے تھے، انہیں پیغام دیا گیا کہ آپ شریف خاندان اور اومنی گروپ کی شوگر ملوں کیخلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک سٹنگ جج عدالت میں بار بار کہتے رہے کہ حکومت انہیں انتقام کا نشانہ بنارہی ہے، وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر، وزیرقانون فروغ نسیم اور ایف بی آر کے افسر اشفاق احمد کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے، دو سال تک سپریم کورٹ کے جج نے عدالتی کارروائی کا سامنا کیا، اب جج کے خلاف تو مقدمہ ختم ہوگیا ہے مگر وزیراعظم کے مشیر اور وزراء پر مزید الزامات لگ رہے ہیں، سیاسی انتقام اور غیرقانونی احکامات کے الزامات لگ رہے ہیں، خود وزیراعظم عمران خان کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں، سابق ڈی جی ایف آئی ا ے بشیر میمن نے اپنے حالیہ انٹرویو میں حکومت پر سیاسی انتقام اور مخالفین کے خلاف کیسز بنانے اور اداروں پر اثرانداز ہونے کے الزامات لگادیئے ہیں، کل ہی جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف سپریم کورٹ نے تمام کارروائیوں کو کالعدم قرار دیا ، اب بشیر میمن نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر ہونے سے پہلے کی تفصیلات پر اپنا موقف سامنے رکھتے ہوئے سنگین الزامات عائد کیے ہیں، سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے مطابق ریفرنس دائر ہونے سے پہلے انہیں وزیراعظم کے دفتر سے فون کر کے بلایا گیا، جب وہ وہاں پہنچے تو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور مشیر احتساب شہزاد اکبر انہیں وزیراعظم کے پاس لے گئے، وزیراعظم نے ان کی تعریف کی اور کہا کہ تم بہت اچھے افسر ہو اچھے کیس بناتے ہو اس کیس میں بھی ہمت کرنا، اس کے بعد انہیں شہزاد اکبر کے دفتر لے جایا گیا، وہاں انہیں پتہ چلا کہ حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف کیس بنانا چاہتی ہے، بشیر میمن کے مطابق اس ملاقات کے بعد اعظم خان اور شہزاد اکبر انہیں وزیرقانون کے دفتر لے گئے جہاں ایف بی آر کے افسر اشفاق احمد بھی موجود تھے، بشیر میمن کے مطابق انہوں نے فروغ نسیم کو بتایا کہ ایف آئی اے یہ کام نہیں کرسکتی، ایک جج کے خلاف کارروائی سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے، فروغ نسیم نے کہا کہ میں کیس خود لڑوں گا اور آپ کو پتا ہے میں آج تک کوئی کیس ہارا نہیں ہوں، جس پر میں نے جواب دیا کہ خدا کا واسطہ یہ شخص سپریم کورٹ کا جج ہے، ہم یہاں بیٹھ کر اس کے خلاف کیس کیسے بنارہے ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ یہ بہت بڑا دعویٰ ہے جس میں الزام لگایا جارہا ہے کہ وزیراعظم کے دفتر سے ایف آئی اے کو جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف کیس بنانے کے احکامات دیئے گئے۔
https://jang.com.pk/news/918709?_ga=2.2409524.588727698.1619707550-1166260503.1619707547