کرونا کی تیسری لہر ۔۔۔ پونچھ میں خطرے ناک حد تک اصافہ ۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی ۔۔
===============
آزاد کشمیر میں بھی کرونا وائرس کی تیسری لہر میں روز بہ روز تیزی آرہی ہے ۔ اس کے باوجود ہم بطور زندہ قوم اور معزز شہری ہونے کا ثبوت نہیں دے رہے۔ انتہائی قیمتی افراد کو الودعہ کہنے کے باوجود نہ ہمارے دلوں میں خوف رہا نہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو تیار ہیں۔ کچھ لوگوں کو ابھی بھی گمان ہے کہ کرونا وائرس نہیں بلکہ افواہ ہے اس سوچ کے لوگ احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرتے بلکہ ویکسینیشین کے بھی خلاف نت نئی تاویلیں دیتے ہیں۔ اکثریت ایس او پی کا خیال ہی نہیں رکھتی، دعوتیں برابر جاری ہیں۔ تاجر کاروبار اور عوام معمول کے مطابق عید خریداری چاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے ساتھ جھپیاں اور ملاقاتوں کا سلسلہ حسب معمول جاری ہے ۔ بلا ضرورت بازار جانے سے ہم نہیں رکتے ۔تو پھر پہلی اور دوسری لہر کے دوران جو حال امریکا اور یورپ کا ہوا وہ اب ہمارا ہو رہا ہے۔ لگتا ہے کہ یورپ نے کرونا کو شکست دے دی ۔برصغیر شکست اور ریخت سے گزر رہا ہے ۔پاکستان کی ابھی بھارت جیسی صورت حال تو نہیں ہوئی۔ لیکن عوامی رویہ سے لگتا ہے کہ اسی صورت حال کو خوش آمدید کہنے کے لئے لوگ بے تاب ہیں ۔ بھارت کے حالات تو اب مودی سرکار کے قابو سے بھی باہر ہو گئے۔ جس کے محفوظ ذخائر 170 ارب ڈالر سے زائد ہیں ۔ سوائے گائے کے پیشاب اور گوبر کے، بھاجپا کے پاس مریضوں کو طبی امداد مہیا کرنے یا لائشوں کو ٹھکانے لگانا کا کوئی دوسرا بندوبست نہیں رہا۔۔ گاو ماتا کا فضلہ کتنا روحانی یا طبی اثر دیکھاتا ہے اس کا ابھی انتظار ہے۔ لیکن کرونا وائرس نے بھارتی معاشرے کو پلٹ کر رکھ دیا۔ تباہی مچا رکھی ہے کرونا وائرس نے پورا بھارت گرفت میں ہے۔ مرد و خواتین سڑکوں اور فٹ ہاتھوں پر گرتے مرتے نظر آتے ہیں ۔اے ایف پی کے مطابق لکھنو میں شمشان گھاٹ کم پڑھ گئے۔ مردوں کی آخری رسومات کے لیے 12 گھنٹے سے زیادہ انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ پارکوں میں عارضی شمشان گھاٹ تعمیر کر کے اجتماعی مردوں کو جلانا شروع کردیا گیا ہے۔ ایک کارکن کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ 200 چتا کو آگ لگاتا ہے جن میں ایک سے زیادہ مردے ہوتے ہیں ۔ آکسیجن کی قلت ہے۔5000 ہزار کا سلنڈر 50000 میں فروخت ہو رہا ہے۔ ایمبولینس سروس اور اسٹریچرز کی کمی کے باعث مردوں اور مریضوں کو اسپتال کے باہر فٹ ہاتھوں پر گھسٹتے دیکھا گیا ۔ پاکستان کے پاس ابھی بھی سنبھلنے کا موقع ہے لیکن صورت حال قابو سے باہر ہو رہی ہے ۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے رتبہ کا لحاظ رکھتے ہوئے معزز انداز میں تنبیہ کی کہ”۔ پاکستانیوں نے حالات کی سنگینی کو نہ سمجھا تو صورت حال بھارت جیسی ہو سکتی ہے ” جس طرف اسد عمر کا اشارہ تھا وہ آپ نے ملاحظہ کی، ہم ایسی صورت حال اپنے لیے کیوں ہیدا کرنے چاتے ہیں ۔ سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے پاس نہ وسائل ہیں نہ اکسیجن ۔ اللہ نہ کرے بھارت جیسے حالات ہوئے تو قرض کے 22 ارب ڈالر محفوظ ذخائر والا ملک 23 کروڑ عوام کو نہ ادویات دے سکتا ہے نہ آکسیجن اور نہ ہی خوراک، ہاں ہمیں بلا سیاست اداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے، اپنے لیے، اپنے خاندان کے لئے اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے ۔ اس میں مشکل کیا ہے؟ ہم کچھ عرصے کے لیے دوستوں رشتہ داروں اور احباب سے نہ ملیں اور بلا ضرورت گھر سے نہ نکلیں۔ دیہات کے رسم و رواج کو کچھ عرصہ کے لیے پس پشت ڈال کر علاقے میں کرونا وائرس کو شکست دینے کا عہد کریں ۔ ہم بار بار ہاتھ دھویں سنی ٹائز کریں اور ماسک پہنیں۔ اس میں ہمارا کیا جاتا ہے۔ بس اتنی سی بات ہے کرونا وائرس بھاکتا ہوا ہم سے دور چلا جائے گا ۔ آزاد کشمیر کے دیہاتی تو کرونا وائرس تلاش کر رہے ہیں کہ ملاقات ہو تو گھر دعوت پر بلائیں۔ کوئی سماجی فاصلے کا خیال نہیں رکھتا۔ گاوں میں رسم و رواج برابر چل رہے ہیں ۔ افطار پارٹیاں ہو رہی ہیں ۔ گاوں کا پرانا کلچہر بلاوجہ اور بغیر کسی کام ایک دوسرے کے گھر جا کر گپیں مارنے سے باز نہیں آ رہے ۔ ویکسین سینٹر جانے کے بجائے عورتیں اور مرد بازاروں میں خریداری کے لیے مرے جا رہے ہیں ۔نوجوانوں اور بوڑھوں سے گاوں کے بازار بھرے پڑے ہیں ۔راولاکوٹ میں کرونا وائرس نے قیامت برپا کر لی بلکہ پورا پونچھ ڈویژن متاثر ہے ۔ چوبیس گھنٹوں میں ساس بہو سمیت ایک ہی گھر کے تین افراد جاں بحق ہو گئے۔ عورتوں اور اساتذہ کے انتقال سے گھر اور دانش گائیں۔ ڈاکٹروں کے انتقال سے اسپتال خالی ہو رہے ہیں ۔ گھر، دانش گائیں اور اسپتال ویران ہونے لگیں تو پھر کیا عالم ہو گا ہمارے معاشرے کا، ہمارے مستقبل کا ۔ انتہائی تشویش ناک خبر ہے کہ راولاکوٹ شہر کے گرد نواح میں سینکڑوں لوگوں میں کرونا مثبت آیا ہے ۔ طلباء ، محکمہ جاتی ملازمین، افسران سمیت کثیر تعداد ، افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، جو آگ کی طرح پھیل رہا ہے ۔مبینہ طور پر صرف ایک یونین کونسل پاچھیوٹ کے علاقوں بھاگیانہ ،چیروٹی اور داتوٹ میں 14سے زائد کیسز روپورٹ ہوئے۔ گاوں دیہات میں یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ذرائع کہتے ہیں کہ تقریباً 3000افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ خوش قسمتی کہیں یا حسن اتفاق کہ اس وقت راولاکوٹ کی انتظامیہ کے افسران فرض شناس بھی ہیں اور متحرک بھی۔ خاص طور پر ڈویژنل سربراہ کمیشنر پونچھ مسعود الرحمان انسان دوست، فہم و فراست کے حامل انتہائی سمجھ دار اور تجربہ کار افسر ہیں۔ معملات کو سمجھ کر حل کرنے میں ان کو ملکہ حاصل ہے۔ امید قوی ہے کہ عوام نے تعاون کیا تو اس بحرانی کیفیت سے معاشرے کو نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بشرطہ کہ لوگ تعاون کریں اور بات کو سمجھیں ۔ پونچھ کی حدود میں ایس او پی کی خلاف ورزی پر اپریل کے پہلے دو ہفتوں کے دوران 17 لاکھ سے زائد کا جرمانہ کیا گیا۔ یہ اچھی مثال نہیں بلکہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ تعلیمی معیار اور تعداد میں پاکستان کے تمام اضلاع میں اول نمبر کے ضلع کے عوام کی قانونی کی عملداری پر یہ حالت ہے تو پھر دیگر اضلاع کا کیا عالم ہو گا ۔کمشنر پونچھ ڈویژن مسعود الرحمان، کا کہنا ہےکہ ” کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اموات کی شرح میں جو اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے وہ انتہائی خطرناک اور بھیانک ہے اگر ایسی صورت حال برقرار رہی تو بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے، اب تو ہسپتالوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے تاہم حکومت اور انتظامیہ ان تمام ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے اقداما ت کر رہی ہے۔ جب تک عوام تعاون نہیں کریں گے اس وبا کے خلاف جنگ میں ہم اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکیں گے۔ انہوں نے اس قلم کار کو بتایا کہ 28 اپریل تک پونچھ ڈویژن میں 48775 ٹیسٹ کئے گئے۔ 4096 مثبت آئے۔ 3145 افراد صحت یاب ہوئے جب کہ799 مریض قرنطینہ یا ایسولیشن میں اور 152 کا انتقال ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ ڈویژن میں ویکسینیشین کے 15 سینٹر قائم کئے گئے ہیں، جو راولاکوٹ سی ایم ایچ کے علاوہ، ہجیرہ، عباس پور، پانیولہ، تھوراڑ، بیسک ہیلتھ یونٹ ہیڈ کوارٹر، باغ، دھرکوٹ، سہ سیری، ملوٹ، کہوٹہ، پلندری تراڑکھل، منگ اور بلوچ میں ہیں، جہاں وافر مقدار میں ویکسین اور ہر قسم کی سہولت موجود ہے۔ 28 اپریل تک لگ بھگ 9555 افراد پہلی ڈوز جبکہ 1840 افراد مکمل طور پر دونوں ڈوز ویکسین لگوا چکے۔ سی ایم ایچ راولاکوٹ میں روزانہ لگ بھگ 100 افراد ویکسین لگوا رہے ہیں۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ 50 سال عمر سے زائد افراد ویکسین لگوانے میں کوتاہی نہ کریں اور جلد از جلد اپنے قریبی سینٹر سے رابطہ کریں ” حکومت کی طرف سے قائم کردہ ویکسین سینٹر کی تعداد تو تسلی بخش ہے لیکن ویکسین لگوانے والوں کی تعداد تسلی بخش نہیں۔ویکسین کا عمل وسط مارچ سے شروع ہے۔ چار اضلاع میں ابھی تک صرف 1840 افراد کا کورس مکمل ہونا اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ویکسینیشین میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ با الفاظ دیگر لوگ نہیں چاتے کے کرونا ختم ہو ۔ یہ عمل اس لیے سست ہے کہ لوگوں کو ان افواہوں پر یقین ہے جو ویکسینیشین کے بارے میں ہھلائی جا رہی ہیں ۔ کرونا وائرس سے مکمل جان چھوڑانے کے لیے کم سے کم 60 فیصد آبادی کو ویکسین لگایا جانا ضروری ہے ورنا زندگی لاک ڈاون میں پھنسی رہے گی۔ امریکا، اسرائیل، 40 فیصد آبادی کو ویکسین لگا چکے پورے یورپ میں ویکسین پر بھر پور توجہ ہے اس لیے وہاں وبا قابو میں ہے۔ عوام سے پھر درخواست ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور پہلی فرست میں ویکسین لگوائیں ۔۔۔۔۔۔