ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ۔ نہ جانے علی زیدی کو کیا ہوا۔

کراچی (24 جنوری )صوبائی وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ چیف منسٹر ہاوس میں پی ٹی آئی والے ہمارے مہمان کے طور پر آئے تھے تو ہماری کچھ روایا ت ہیں لیکن جو واقعہ پیش آیا وہ انتہائی افسوس ناک تھا، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں دلی طور پر افسوس ہے کہ علی زیدی کے کا رویہ پر ہمیں اسی وقت ہی اس کا جواب دینا چاہئے تھا لیکن اپنی تہذیب کی وجہ سے ہم نے ایسی کوئی بات نہیں کی، یہ بات انہوںنے کراچی پریس کلب پر مظاہرے میں شرکت کے بعد ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ۔ اس واقع پر وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور ایک خط وزیر اعظم کو لکھا اور پھر سب نے دیکھا کہ اس خط کو پبلک بھی انہی کی طرف سے کیا گیا۔وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شا ہ نے کہاکہ ا س پر پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش بھی کی گئی کہ کراچی کے معاملے کو انہوں نے اٹھایا۔ایسی کوئی بات نہیں ہوئی ۔ نہ جانے علی زیدی کو کیا ہوا۔ اگر وہ کراچی اور شہر کے مسائل کے حل کرنے میں مخلص ہیں تو کیا وفاقی وزیر اسد عمر کراچی کے معاملات پر مخلص نہیں ہیں اور وہ ان کے ساتھ اٹھ کر نہیں گئے۔ سید ناصر حسین شاہ نے کہاکہ ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر امین الحق بھی اجلاس میں موجود تھے کیا وہ کراچی کے معاملات پر مخلص نہیں ہیں۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ کی خصوصی دعوت پر پی ٹی آئی کے انجینئر نجیب بھی موجود تھے ۔ انہوں نے واک آوٹ یا بائیکاٹ نہیں کیا ،صوبائی وزیر اطلاعات نے کہاکہ ذاتی طور پر علی زیدی کے ساتھ میرے اچھے تعلقات ہیں، ان کو کیا ہوا میں خود بہت حیران ہوں ،ان کو کیا پریشانی تھی ۔وزیراعظم کی جانب سے کچھ وزراءکو فارغ کرنے کی باتیں چل رہی تھیں ، شاید اس میں ان کا نام شامل تھا ۔ علی زیدی کیا چاہ رہے تھے ۔اجلاس احسن طریقے سے چل رہا تھا ، جس میں تمام اداروں کے سربراہان شامل تھے۔ سید ناصر حسین شاہ نے کہاکہ اس موقع پر علی زیدی کا انداز گفتگو ہی غلط تھا۔اس کے بعد وہ ایک دم اٹھے اور فائلیں پھٹخ دیں اور بولتے ہوئے باہر چلے گئے ۔ انہوںنے کہا کہ ہم اپنی روایات کی وجہ سے مجبور تھے لیکن ان کا رویہ نامناسب تھا۔ا س معاملے کے ثبوت وزیراعظم کے سامنے رکھے جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ ہم ان کو پبلک بھی کر دیں تاکہ قوم کو بھی ان رویوں اور طریقہ کار کا علم ہو سکے ۔ ہینڈ آﺅٹ نمبر93۔۔۔ایف بی ایچ