سمندری ماحول کا تحفظ اور ماہی گیروں کی جدید خطوط پر تربیت کے ساتھ ماہی گیری کا شعبہ قومی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔۔ماہرین

سمندری ماحول کا تحفظ اور ماہی گیروں کی جدید خطوط پر تربیت کے ساتھ ماہی گیری کا شعبہ قومی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔۔ماہرین کا کہنا ہے سمندر میں جون، جولائی کے مہینوں میں ماہی گیری کی پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔۔ان کا کہنا تھا فشنگ ٹرالرز کو سی فوڈکا معیار برقرار رکھنے کے لئے پندرہ روز میں واپس ساحل پر آنا چاہیے۔۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افئیرز کے تحت ورلڈ فشریز ڈے کے موقع پر “پائیدار ماہی گیری اور ماہی گیربرادری اور قومی ترقی پر اس کے اثرات” کے موضوع پر ویبنار منعقد کیا گیا۔۔ماہرین میں اوشین یونیورسٹی چین کے ڈاکٹر چن لی ، معظم علی خان ، ڈاکٹر وسیم خان، مسلم محمدی ، ڈی جی نیما وائس ایڈمرل ریٹائرڈعبدل علیم ، ڈی جی میری ٹائم سیکیورٹی رئیرایڈمرل شعیب خٹک اورکموڈور علی عباس نے شرکت کی ۔۔ماہرین کا کہنا تھا کہ سمندروں میں مچھلی سمیت دیگر قیمتی آبی حیات کو تحفظ ضروری ہے۔۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے پانیوں میں مچھلی کی کئی اقسام میں کمی دیکھی جارہی ہے جس کے لئے پابندی کو مہینوں میں ماہی گیری کی سرگرمیوں پر پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فشنگ ٹرالرز کو سی فوڈکا معیار برقرار رکھنے کے لئے پندرہ روز میں واپس ساحل پر آنا چاہیے۔۔ماہرین نے کہا کہ ہرسال سات سو فشنگ بوٹس کا اضافہ بھی مسئلہ بنتا جارہا ہے۔۔ ماہرین نے مچھلی اور دیگر سمندری غذائی اشیاء کو محفوظ کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کے حصول پر زور دیا۔۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مچھلی کو باقاعدہ خوراک کے طور پر نہیں دیکھا جاتا لیکن دنیا کے کئی خطوں میں یہ بڑی غذائی اشیاء میں شامل ہے۔۔ماہرین نے کہاکہ ماہی گیروں کی تربیت ، جدید طریقہ ماہی گیری، سمندری خوراک کو محفوظ کرنے کے طریقوں کو اختیار کرنا ، ہینڈلنگ اور فشنگ بوٹس میں جدید آلات کی تنصیب ضروری ہے۔۔۔ماہرین نے زور دیا کہ فشنگ پالیسی میں سمندری ماحول، سمندری حیات اور ماہی گیروں کے معاشی تحفظ کو فوکس کرنا ضروری ہے جس کے لئے جدید طریقے اور ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا جائے۔۔۔