نئے ڈیموں کی تعمیر میں چیئرمین واپڈا کے کردار پر اٹھنے والے سوالات پر خاموشی کیوں ؟

نئے ڈیموں کی تعمیر میں واپڈا کی سنگین بے قاعدگیاں ۔ پاکستانی عوام کو بجلی 50 روپے فی یونٹ میں پڑے گی ۔وزیراعظم اور عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے ۔چونکا دینے والے انکشافات
—————–
دوسری قسط
————–


نئے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے واپڈا کے کردار پر سوالات اور اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں ۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ دیامیر بھاشا ڈیم ہر کام کا سنگ بنیاد انیس سو اٹھانوے میں اس وقت کے وزیراعظم رکھا تھا اور اس ڈیم کی تکمیل پر یہاں سے چار ہزار آٹھ سو میگا واٹ بجلی حاصل ہو سکے گی اس ڈیم کی وجہ سے پہلے سے موجود تربیلا ڈیم کی زندگی میں مزید 35 سال کا اضافہ ہو جائے گا اور اس ڈیم کے بننے سے دریائے سندھ میں آنے والے سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی انجینئر کے

مطابق کالا باغ ڈیم کو چھوڑ کر دیا میر بھاشا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا کیونکہ کالا باغ ڈیم پر سیاسی اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا انجینئرنگ نقطہ نظر سے کالا باغ ڈیم کا کوئی متبادل نہیں ہے لیکن دیامیر بھاشا ڈیم کی خصوصیت یہ ہے جس کی وجہ سے تمام فریقین جس پر راضی ہوئے کہ یہاں سے کوئی کینال نہیں نکالی جا سکتی ہو یہ ڈیم خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں واقع ہے توقع ہے کہ 2008 ایس میں یہ اپنا کام شروع کر دے گا اس پر لاگت کا تخمینہ 2013 میں 14 بلین ڈالر لگایا گیا تھا اس کی بلندی کا اندازہ 272 میٹر یعنی 892 فٹ ہے یہاں پر 375 میگاواٹ کی بارہ ٹربائنز کام کریں گی یہاں سے چار ہزار آٹھ سو میگا واٹ بجلی حاصل کی جا سکے گی میں 2020 میں پاکستانی حکومت نے چائنا پاور اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن ایف ڈبلیو کے ساتھ 442 بلین روپے کا کنٹریکٹ سائن کیا ہے یہ کونٹیکٹ بنیادی طور پر اس کی کنسٹرکشن کے متعلق ہے ۔یہاں پر پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے آٹھ ملین ایکڑ فٹ کا ابھی ذخیرہ موجود ہوگا ۔اگر اس ڈیم کے چیدہ چیدہ نکات پر نظر ڈالی جائے ۔تو انیس سو اسی میں یہاں پر ڈیم بنانے کی تجویز آئی تھی ۔انیس سو اٹھانوے میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے اس ڈیم منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا ۔سال 2004 میں اس کی پہلی فزیبلٹی رپورٹ تیار ہوئی ۔سال دو ہزار آٹھ میں اس کی روائز فزیبلٹی رپورٹ تیار ہوئی اور 2020 میں اس کا کنٹریکٹ کنسٹرکشن کے لیے ایوارڈ دیا گیا ۔محتاط اندازے کے مطابق تعمیراتی کام کو مکمل ہونے میں کم از کم نو سال کا عرصہ درکار ہے سال 2008 میں دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلاگت کا تخمینہ 12 ارب 60 کروڑ ڈالر تھا اور یہاں سے چار ہزار پانچ سو میگا واٹ بجلی حاصل کرنے کا منصوبہ تھا جب کہ مطلوبہ اراضی حاصل کرنے کے لیے 27 ارب روپے درکار تھے ۔
گزرنے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کی لاگت کے تخمینے میں اضافہ ہوتا گیا سال 2012 میں اس منصوبے کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بھارت کے اعتراضات کی وجہ سے ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے اس منصوبے کی وائرنگ کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا اور زور دیا تھا کہ پڑوسی ملک بھارت سے این او سی حاصل کیا جائے بھارت کا واویلا تھا کہ یہ متنازعہ علاقے میں بننے والا ڈیم ہے اس کو روکا جائے ۔اگست 2013 میں پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ورلڈ بینک اور آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کو دیا میر بھاشا پروجیکٹ کی فنانسنگ کے لیے راضی کر لیا گیا ہے اور اب بھارت کے این او سی کی ضرورت نہیں ۔اسحاق ڈار کا یہ بھی کہنا تھا کہ دیامیر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم پر ایک ساتھ کام شروع کیا جائے گا 2013 میں ہی واپڈا کے حکام نے دعوی کیا تھا کہ ساڑھے پانچ ارب روپے کی بدولت انہوں نے گلگت بلتستان میں ستر ہزار ایکڑ اراضی حاصل کرلی ہے تاکہ ڈیم کی تعمیر کی جا سکے دسمبر 2016 میں وزیراعظم نوازشریف نے اصولی طور پر اس کے فلیٹ سیونگ پلان کی منظوری دے دی اور سیکرٹری واٹر اینڈ پاور کو ہدایت کی گئی کہ فزیکل ورک دسمبر 2017 سے پہلے مکمل کیا جائے نومبر 2017 میں پاکستان نے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کے تحت ڈیم کی فنانسنگ کی بڈ ڈراپ کردی کیونکہ چین کی جانب سے سخت شرائط لگائی گئی تھی منصوبے کی اونر شپ اور دوسرا ڈیم گروی رکھنے کی بات کی گئی تھی 14 ارب ڈالر کی سیکیور انویسٹمنٹ کے لیے چین نے دوسرے ڈیم کو گروی رکھنے کی بات کی تھی ۔
جولائی 2018 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے حکومت کو محمد ڈیم بنانے کی ہدایت کی تاکہ پانی کی کمی پر قابو پانے کے اقدامات کو یقینی بنایا جا سکے سپریم کورٹ نے خود دیکھ لیں ان پاکستانی روپے کی ڈونیشن دی اور ملک میں دو نئے ڈیم بنانے کے لیے مہم شروع کی جس کے بعد ایک فنڈ قائم کیا گیا اور اس فنڈ میں رقم جمع کرنے کے لئے فنڈ ریزنگ شروع ہوئی اور موبائل فون کمپنیوں کے ذریعے بھی پیسے جمع ہوئے ۔
ستمبر 2018 میں واپڈا کے حکام نے یہ انکشاف کیا کہ کم از کم بارہ بلین ڈالر درکار ہیں دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے جبکہ پانچ بلین ڈالر اس کے علاوہ انفراسٹرکچر کے لیے چاہیے اور سات بلین ڈالر پاور جنریشن کے لیے درکار ہوں گے ۔
نومبر 2018 میں پرائم منسٹر اور چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے بنائے گئے ڈیم فنڈ اکاؤنٹ میں رقم جمع ہونا شروع ہوگئی تھی اور جنوری 2019 میں بتایا گیا کہ اس فنڈ میں 9 ارب 29 کروڑ پاکستانی روپے جمع ہو چکے ہیں لیکن یقینی طور پر یہ رقم مطلوبہ رقم سے بہت کم تھی ۔اپریل 2019 میں یہ معلوم ہوا کہ واپڈا نے ایک سو پندرہ ارب روپے سے زائد رقم ڈیم کے لئے مطلوبہ زمین کے حصول پر خرچ کردی ہے ۔میں 2020 میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی حکومت نے چائنا پاور اور فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن ایف ڈبلیو او کے ساتھ 442 ارب روپے کے ڈیم کنسٹرکشن جوائنٹ وینچر پر دستخط کر دیے ہیں ۔

اس ڈیم کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اکتیس دیہات متاثر ہونگے چار ہزار ایک سو سے زیادہ گھروں کو نقصان پہنچے گا 35 ہزار سے زائد آبادی متاثر ہوگی جبکہ پندرہ سو ایکڑ زرعی اراضی اس کے پیٹ میں آئے گی اس کے علاوہ 25 ہزار ایکڑ زمین پانی کے ذخیرے کے نیچے چلی جائے گی لہذا تجویز دی گئی کہ نو ماڈل دیہات تیار کیے جائیں وہاں پر متاثرہ لوگوں کی ریسیٹلمنٹ کی جائے 28 ہزار لوگوں کو آباد کیا جائے نیا انفراسٹرکچر تیار کیا جائے جس میں سڑکیں صاف پانی کی اسکیمیں اسکول ہیلتھ سینٹرز اور بجلی کی سپلائی وغیرہ ۔اس کے علاوہ ٹورنامنٹ سٹی کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں سیاحوں کے لیے ہوٹل ریسٹورنٹ واٹر اسپورٹس وغیرہ شروع کی جائے ۔


اب اس پروجیکٹ پر جو اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں ان میں سب سے پہلا اعتراض یہ ہے کہ اس کی لاگت کا تخمینہ اصل تخمینہ سے بہت زیادہ ہو چکا ہے جس کے نتیجے میں برسوں بعد جب یہ پروجیکٹ کام شروع کرے گا تو یہاں سے حاصل ہونے والی بجلی بہت مہنگی حاصل ہوگی مسلسل خراجات کا تخمینہ بڑھنے کی وجہ سے یہاں سے حاصل ہونے والی بجلی کا فی یونٹ 45 روپے سے لے کر پچاس پچپن روپے تک پڑے گا ۔

ایک بڑا اعتراض یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ ڈیم کی کنسٹرکشن کا کنٹریکٹ سنگل بیڈ پر دے دیا گیا ہے یہ پاکستان کے پیپرا رولز کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نیلم جہلم منصوبہ 45 ارب روپے سے شروع ہو کر 500ارب کر چلا گیا اسی طرح یہ منصوبہ بھی بیس گنا بڑھ جائے گا اس پر اخراجات کا تخمینہ اگر بیس مرتبہ پڑھ گیا تو خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سے حاصل ہونے والی بجلی کتنے میں پڑے گی


سنگل بیڈ پر جب چینی کمپنیوں کو کنٹریکٹ دیے گئے ہیں تو اس پر سوالات تو اٹھیں گے واٹر ماہرین یاد دلاتے ہیں کہ فیصل واوڈا اور چیئرمین واپڈا مزمل اس معاملے میں بہت متحرک اور سرگرم رہے ہیں فیصل واڈا تو چیف جسٹس سے ملنے بھی گئے تھے لوگوں کو ساری باتیں یاد ہیں دوسری جانب آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے بھی چیئرمین واپڈا کی تقرری پر اعتراضات سامنے آ چکے ہیں اور تقرری کو غیر قانونی کہا جارہا ہے جبکہ ممبر فنانس ممبر واٹر اور ممبر الیکٹریکل کے ذریعے معاملات چلانے ہوتے ہیں واپڈا کے ان اہم عہدوں پر دو عہدے ایسے ہیں جہاں انجینئر کی موجودگی ضروری ہے لیکن موجودہ چیئرمین نے واپڈا کے اہم عہدوں پر انجینئرز کو نہیں رکھا ہوا اس طرح پاکستان میں یونین کونسل کے قوانین اور فیصلوں کی بھی خلاف ورزی کی ہے نئے ڈیموں کی تعمیر میں وفاقی وزیر خزانہ داؤد کی کمپنی کو سب سے زیادہ براہ راست فائدہ پہنچائے جانے پر اعتراضات لگائے جارہے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں بہت سے ایسے قانونی اور ٹیکنیکل سوالات ہیں جن پر وزیراعظم اور عدلیہ کو مکمل طور پر آگاہی نہیں دی گئی اور عوام کے ساتھ بھی سچ نہیں بولا جا رہا اس پروجیکٹ کے مختلف مراحل میں ڈالر کی قیمت کو کم دکھایا گیا اور پاکستان میں بیس روپے یونٹ کے حساب سے جو بجلی ملنی چاہیے وہ آبی ذخائر بنانے کے باوجود چالیس سے پچاس سوال کے 55 روپے یونٹ تک ملے گی کیوں کہ ڈالر آج بھی ڈیڑھ سو روپے سے اوپر جا چکا ہے اور یہ منصوبہ مکمل ہونے میں ابھی کچھ ہی برس لگیں گے داسو ڈیم میں چار سال سے زمین نہیں دی گئی لیکن معاہدوں پر عمل درآمد تو کرنا پڑے گا ماہرین کو خدشہ ہے کہ کہیں یہ منصوبہ براڈ شیٹ کا بھی باپ ثابت نہ ہو وزیراعظم اور قومی احتساب بیورو کو اس حوالے سے فوری طور پر نوٹس لے کر حقائق قوم کے سامنے لانے چاہیے کہاں کس کس نے پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی ہے اس کا تعین ہونا چاہیے اور پوری سچائی عوام کے سامنے آنے چاہیے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے بھی اس سلسلے میں اعلی حکام کو خطوط لکھے ہیں لیکن ان کی جانب سے خاموشی معاملے کو مزید پراسرار بنا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔(جاری ہے
—————-
رپورٹ سالک مجید
———-
e-mail…….jeeveypakistan@yahoo.com
———-
whatsapp——92-300-9253034