تبدیلی آئی رے

”پاکستان کی معیشت کی سمت کا پتا نہیں چل رہا، جہاز کے کپتان کو مضبوط ہونا ہوگا ورنہ ملک کی معیشت آگے نہیں بڑھے گی، حکومت نے ڈھائی سال میں اپنا گھر ٹھیک نہیں کیا، شروع میں ہی آئی ایم ایف سے مذاکرات میں سنگین غلطی کی گئی، صرف ٹیرف بڑھانے سے کرپشن میں اضافہ ہوا ہے، ایکسچینج ریٹ اور شرح سود بڑھانے سے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہوا ہے، نیب کے قانون کو متوازن کرنا ہو گا اور پرائیویٹ کاروباری لوگوں کو یقین دہانی کرانا ہو گی کہ نیب انہیں بلا وجہ نہیں اٹھائے گا‘‘
یہ ہے وہ چارج شیٹ جو حکومت کی معاشی ٹیم میں ممکنہ طور پر وفاقی وزیر یا مشیر خزانہ بنائے جانے والے شوکت ترین صاحب نے تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں پیش کی ہے۔ وفاقی حکومت نے معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اکنامک ایڈوائزری کونسل بنانے کا فیصلہ کیا ہے‘ جس کے چیئرمین خود وزیراعظم ہوں گے جبکہ شوکت ترین اس کے چیف کنوینر ہوں گے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے عوام کو یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ معاشی پہیہ چل پڑا ہے بس کچھ دن کی بات ہے یہ کٹھن وقت گزر جائے گا‘ لیکن یہ کیا ہواکہ نئے آنے والے نے تو پرانے ڈھول کا پول ہی کھول دیا۔ اب تو حکومت میڈیا پر الزام دھرنے کے لائق بھی نہیں رہی کہ سب اچھا جا رہا ہے، بس میڈیا حکومت کے مثبت پہلو کو صحیح طور پر اُجاگر نہیں کر رہا‘ اور میڈیا میں جو آوازیں اٹھی تھیں کہ ‘حفیظ شیخ صاحب کا یہاں کے عوام سے کچھ لینا دینا نہیں‘ تو اس پر حکومت مسکرا رہی تھی کہ انہیں کیا پتا؟ اب جبکہ شوکت ترین صاحب نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے میں غلطی کی گئی، مذاکرات سے قبل قومی مفاد کو دیکھنا ہو گا تو اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ قومی مفاد کو گزشتہ مذاکرات میں فوقیت نہیں دی گئی‘ ہاں آئی ایم ایف کے مفاد کے رکھوالے بہت تھے۔ دوسری جانب گردشی قرضہ جو 2306 ارب روپے سے زائد ہو چکا ہے‘ اس کے بارے میں ترین صاحب نے کہا ہے ”بجلی کے لائن لاسز 5 فیصد کم اور ریکوریز 5 فیصد بڑھا لی جاتیں تو گردشی قرضہ کم ہونا شروع ہو جاتا‘‘ لیجئے! یہاں پھر حکومت کی کارکردگی پر بات آگئی‘ تو حکومت کو کون سا نواز شریف اور آصف زرداری نے یہ کام کرنے سے روک رکھا تھا۔ رہی بات وزارت پانی و بجلی والوں کی تو اگر کسی ٹرانسفارمر کا ”پٹاخہ‘‘ بول جائے تو اس کا الزام بھی وہ گزشتہ حکومتوں پر ڈال دیتے ہیں۔ شوکت ترین صاحب کا کہنا ہے کہ کپتان کو مضبوط ہونا پڑے گا ورنہ کشتی آگے نہیں بڑھے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا شوکت ترین اس نااہلی کے سونامی میں مضبوط رہ سکیں گے کیونکہ کشتی تو تبھی آگے بڑھے گی۔
ایک نجی ٹی وی کو دئیے گئے حالیہ انٹرویو میں شوکت ترین کا کہنا تھاکہ ان سے پوچھا گیا ”حکومت میں کوئی عہدہ لینا پسند کریں گے؟‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ان کے نیب میں کیس کا فیصلہ تو ان کے حق میں آیا ہے لیکن نیب نے بلا جواز اسے پھر چیلنج کر دیا ہے‘ جب تک نیب کیسز سے بالکل فارغ نہیں ہوں گا کوئی عہدہ نہیں لوں گا‘‘ ان کا مزید کہنا تھاکہ آئی ایم ایف سے غلط مذاکرات کرکے ملکی معیشت تباہ کی گئی، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے ڈیمانڈ ختم ہوئی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے عوام پہلے ہی بہت پس چکے ہیں، عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے معیشت کے حوالے سے فیصلے قومی اور عوامی مفاد میں کرنا ہوں گے، جب اپنا گھر ہی ٹھیک نہیں ہو گا تو ہم آئی ایم ایف کو کیا سمجھا سکیں گے؟ ریونیو نہ آنے پر ٹیرف پر ٹیرف بڑھانے سے کرپشن میں اضافہ ہو گا۔ حکومت کو اپنی مینجمنٹ کو درست کرنے کی بہت ضرورت ہے۔
حال ہی میں میڈیا پر شوکت ترین کو معاون یا مشیر خزانہ بنائے جانے کی خبریں گردش کرنے لگیں، جس کا ذکر انہوں نے اپنے اس انٹرویو میں بھی کیا لیکن اسی اثنا میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے اپنے ایک ٹویٹ میں اس خبر کی تردید کردی۔ ان کا کہنا تھاکہ شوکت ترین کو مشیر خزانہ بنانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
دوسری جانب شوکت ترین کے ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیرخزانہ کے دور میں اتنی مہنگائی نہیں رہی جتنی شوکت ترین کے دور میں رہی تھی۔ ان کے دور میں نہ صرف جی ڈی پی گروتھ سب سے کم رہی بلکہ پاکستان سٹیل ملز بھی خسارے میں جانا شروع ہوئی۔ پی آئی اے اور ریلوے کے خسارے میں بھی اس دور میں بہت اضافہ ہوا۔ بات یہیں نہیں رکتی بلکہ حفیظ شیخ کی طرح ان پر بھی آئی ایم ایف کے ”نمائندہ‘‘ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ شوکت ترین کے سابق دور کو بھی مہنگائی میں عروج کا دور کہا جا رہا ہے‘ ان کے دور میں مہنگائی کی شرح گزشتہ 38 سال کی بلند ترین سطح پرگئی۔ اسی طرح اگر شوکت ترین عوام پر مہنگائی کے بوجھ کی بات کرتے ہیں تو ان کے دور میں پٹرولیم مصنوعات پر62 فیصد تک ٹیکس لیا جاتا رہا، جب ایک لٹر پٹرول کی قیمت 57 روپے 66 پیسے تھی اس وقت عوام کو 35 روپے 45 پیسے فی لٹر ٹیکس کی مد میں ادا کرنا پڑتے تھے۔ ٹیکس ریونیو بھی ان کے دور حکومت میں سب سے کم اکٹھا کیا گیا تھا۔
حکومت کے شوکت ترین کو مشیر خزانہ بنانے کے ارادے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پر آئی ایم ایف اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا سخت دباؤ ہے۔ گزشتہ 70 برس کی پاکستانی معیشت پر نظر ڈالیں تو ان مالیاتی اداروں کے سائے اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ شاید اب صرف سایہ ہی باقی رہ گیا ہے اور اصل کہیں ”گم‘‘ ہو چکا ہے۔ ان اداروں نے ہر دور میں پاکستان کی معیشت کو براہ راست کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے‘ چاہے کوئی بھی دورِ حکومت ہو۔ پرویز مشرف کے دور میں شوکت عزیز کو پہلے وزیر خزانہ اور پھر وزیر اعظم بنا کر معاملات کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسی ہی کوشش پیپلزپارٹی کے 2008-13 کے دور میں شوکت ترین اور حفیظ شیخ کے ذریعے بھی کی گئی لیکن ملک میں موجود سیاسی طاقتوں کی مزاحمت نے مکمل کنٹرول نہ ہونے دیا۔ تاریخ سے گماں ہوتا ہے کہ ملک کا وزیر خزانہ صرف وہی بن سکتا ہے جو بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا ملازم رہا ہو۔ مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں اسحاق ڈار کو بھی اسی بنیاد پر فوقیت حاصل رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بہرحال سیاسی مزاج کی جماعتیں ہیں۔ ان کا ایک بڑا ووٹ بینک ہے اس لئے وہ ایک حد سے آگے جانا پسند نہیں کرتے۔ پہلی بار تحریک انصاف کی حکومت میں ایسا ہو رہا ہے کہ معاملات کو مکمل طور پر آئی ایم ایف کے سابق ملازم کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ اس کے لئے پارٹی میں موجود قابل سیاسی لیڈرز کے بجائے ترجیحی معیار مختلف نظر آتا ہے۔ پہلے اسد عمر کی جگہ حفیظ شیخ کو ترجیح دی گئی‘ جنہوں نے سٹیٹ بینک کا گورنر ایک ایسے شخص کو لگایا جو اس سے پہلے مصر میں آئی ایم ایف کی ملازمت کر رہا تھا۔ اب حفیظ شیخ کے بعد حماد اظہر جو کہ ایک نوجوان کوالیفائیڈ سیاستدان ہیں کو موقع دیا گیا۔ اس سے یہ لگ رہا تھا کہ چلیں خزانہ کا قلمدان واپس سیاسی لیڈر کے پاس تو آ گیا لیکن حکومت کی جانب سے شوکت ترین کو لانے کی بات نے ساری خوش فہمی ہوا کر دی۔ اگرچہ اس عمل سے حماد اظہر کو دکھ ہوا ہو گا اور ایک سیاسی گھرانے سے تعلق کی وجہ سے شاید وہ اس پر ردعمل نہ دیں‘ لیکن اس سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ آئی ایم ایف سے بھیک نہ مانگنے کے دعوے کرنے والے کس طرح مالیاتی اداروں کی غلامی اختیار کئے ہوئے ہیں

Courtesy Dunya roznama