پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے…..!!!

نیوز روم/امجد عثمانی

ہندوستان میں جہیز کے” بھوکے” بد بخت شوہر سے دلبرداشتہ ہو کر موت گلے لگانے والی مسلمان بیٹی نے سب کو رلادیا … دریا کنارے “دلخراش ویڈیو” میں دکھیاری عائشہ کی آخری گفتگو سن کر ہر دل سوگوار اور ہر  آنکھ اشکبار ہے…سرحد کے آر پار یہ سانجھی کہانی ہے…کتنی ہی بیٹیاں جہیز نہ ہونے پر والدین کے گھر بیٹھی “سرخ جوڑے “کو ترس رہی ہیں اور کتنی ہی جہیز نہ لانے کی پاداش میں سسرال سے “سفید جوڑا “پہن کر منوں مٹی تلے ابدی نیند سوتی جا رہی ہیں .. .عہد رسالت ﷺ سے پہلے سنگدل باپ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیتے تھے…

ساڑھے چودہ سو سال بعد جاہلیت نے نیا روپ دھار لیا ہے…اب ماں باپ اپنی بیٹیوں کو پال پوس کر شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی رخصت کرتے ہیں اور پھر ان کی  لاشیں وصول کرکے ساری عمر روتے رہتے ہیں… یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کتنی عقیدت سے والدین بیٹیوں کے نام خدیجہ ،عائشہ ،فاطمہ ،رقیہ،زینب اور ام کلثوم رکھتے ہیں کہ ان کے پیش نظر آقا کریم ﷺ  کی بیویوں اور بیٹیوں کے اسمائے گرامی ہوتے ہیں…ایسے “نامرد” خودکیوں نہیں مر جاتے جو اتنے پیارے ناموں والی بیٹیوں سے صرف اس جرم میں زندگی چھین لیتے ہیں کہ ان کی من پسند چیزیں اپنے ساتھ کیوں نہیں لائیں…کیا یہ زندہ درگور کرنے سے بڑا جرم نہیں…؟؟؟؟
زمانہ جاہلیت میں ماری جانے والی عرب کی وہ ننھی منی بچیاں قیامت کے دن پوچھیں گی کہ ہمیں کس جرم میں مارا تو عجم کی یہ جواں سال بیٹیاں بھی گریبان پکڑ پکڑ کر سوال کریں گی کہ ہمیں ظالمو ہمیں کیوں جلایا؟؟منظر بھوپالی نے کہا تھا:
پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے
پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا

خیال تھا کہ عائشہ بی بی کی الم ناک ویڈیو کی بازگشت سے حقوق نسواں کے علمبردار “خواتین و حضرات “کے دل دہل جائینگے اور اس سال ویمن ڈے پر جہیز ایسی اذیت ناک لعنت کیخلاف نعرے گونجیں گے مگر افسوس “عورت مارچ” کے نام پر وہی” اچھل کود” دیکھنے کو ملی،وہی” اوٹ پٹانگ سلوگن” سننے کو ملے. . . بھلا مہنگی گاڑیوں ،قیمتی موبائلوں اوربرانڈڈ ملبوسات والی “امیر زادیوں” کو کیا اندازہ کہ جہیز کا عذاب کتنا درد ناک ہے…!!!!ایسی غریب زادیوں کا دکھ بابا نجمی ایسا مزدور شاعر ہی سمجھ سکتا ہے:

“انج لگدا اے میری گڈو میرے ای بھانڈے مانجے گی
ایہنوں ٹورن لئی میں کتھوں ٹی وی کار  دیاں
نویں رواجاں جیہڑا کیتا ہمسائے دی دھی دا حال
ویکھ کے میرا جی کردا اےاپنی لاڈو مار دیاں ”

سمجھ سے بالا ہے کہ عورت مارچ کی آڑ میں سڑکوں پر ڈانس کونسی آزادی ہے…؟؟؟پتہ نہیں پدر سری کے نام پر باپ ،بھائی اور شوہر کو سر عام للکارنے والی یہ خود سر” ایجوکیٹڈ کلاس کہاں سے “روشنی”لے رہی ہے؟؟ہاں یہ ان کی “گھریلو زندگی” کے” تلخ تجربات” کا اظہار ہو سکتا ہے…ہو سکتا ہے انہیں شفقت پدری نہ ملی ہو اس لیے پدر شاہی کی باتیں کرتی ہوں…بہر کیف مجموعی طور پر یہ ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں…دیہات سے شہر ،کھیت کھلیان ہوں یا دفاتر،ہمارے ہاں تو مرد اور عورت زندگی کے سفر میں شانہ بشانہ نظر آتے ہیں…بیٹیاں اپنے ماں باپ اور بھائیوں پر جان چھڑ کتی ہیں.. . کاش یہ عورتیں بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ سے ہی سیکھ لیتیں کہ انہوں نے کس طرح مشرقی ثقافت اپناتے ہوئے حیا اور وفا کا بھرم رکھا. ؟؟؟مادر ملت نے وطن عزیز پر زندگی لٹانے والے بھائی قائد اعظم محمد علیؒ جناح کی خدمت کیلئے زندگی وقف کر دی…
عورت مارچ والی عورتیں تھوڑی دیر” اپنی مرضی “نہ کریں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہما اور بنات رسولﷺ کی سیرت ہر زمانے کی عورت کے لیے مشعل راہ ہے…خاتون اولؓ اور خاتون جنتؓ کی حیات مبارکہ کی پیروی کر کے دیکھ لیں ، نصیب بدل جائینگے… سیرت نگاروں کے مطابق اُم المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ کی انتہائی معزز اور دانشمند خاتون تھیں… اپنے والد کی وفات کے بعد کاروبار سبنھالا اور عرب کی سب سے بڑی تاجر بن گئیں…سیدہ طاہرہؓ نے آقا کریم ﷺ کو پیغام بھیجا کہ میرے عم زاد !میں آپﷺ سے شادی کی آرزو مند ہوں… آپﷺ میرے قریبی عزیز ہیں…صاحب شرف و وقار ہیں…نسب میں بہت ممتاز ہیں…حسن خلق اور صدق و صفا آپﷺ کا طرہ امتیاز ہے … سیدہ خدیجہؓ بیوہ تھیں…نکاح کے وقت آپؓ  40 برس اور رسول کریم ﷺکی عمر 25سال تھی…آپؓ نے شادی پر عمدہ پوشاک زیب تن کی اور سہیلیوں نے دف بجائی جبکہ رسول کریمﷺ نے حق مہر دیا اور ولیمہ کیا…سیدہ خدیجہؓ نے عورتوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پھر سارا مال دین پر نچھاور کردیا…رسول کریم ﷺ کو بھی  آپؓ  سے اتنی محبت تھی کہ ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی جبکہ آپؓ کی وفات والے سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا…

حضور اکرمﷺ غار حرا سے تاج نبوت پہن کر گھر تشریف لائے اور فرمایا مجھے کمبل اوڑھا دو…سیدہؓ نے اس موقع پر کیا ہی حکیمانہ انداز میں تسلی دی کہ آپ ﷺ  کا خدا آپ ﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑے گا … آپ ﷺ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں…سچ بولتے ہیں…امانتیں ادا کرتے ہیں. ..بے سہارا لوگوں کا بوجھ برداشت کرتے ہیں…نادار لوگوں کو کماکر دیتے ہیں… بعثت سے پہلے آقا کریم ﷺ کی رضاعی والدہ سیدہ حلیمہ سعدیہؓ ملنے آئیں اور تنگدستی کا ذکر کیا… سیدہ خدیجہؓ  نے انہیں چالیس بکریاں اور ایک اونٹ دیکر نہایت احترام سے رخصت کیا……آقا کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے  خدیجہؓ  سے اچھی بیوی نہیں ملی…وہ ایمان لائیں جب سب لوگ کافر تھے…اُنہوں نےمیری تصدیق کی جب سب نے جھٹلایا. .. اُنہوں نے اپنا مال و زر مجھ پر قربان کیا جب دوسروں نے مجھے محروم کیا…اللہ نے اُن کے بطن سے مجھے اولاد دی…
جناب جبرائیل علیہ السلام  سیدہ خدیجہؓ کے لیے اللہ کا سلام لیکر آئے اور آپؓ کو جنت میں مروارید سے تیار محل کی بشارت دی…عظیم ماں کی عظیم بیٹی بھی عورتوں کے لیے رول ماڈل ہیں…جناب رسول کریم ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے جگر کا ٹکڑا قرار دیا…سیدہ بتولؓ سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھیں…آقا کریم ﷺ ان کا اٹھ کر استقبال کرتے ،ماتھا چومتے اور اپنی نشست پر بٹھا دیتے…شاہ عرب و عجم ﷺ نے اپنی لخت جگر کو جہیز میں گھریلو استعمال کی چند ضروری چیزیں دیں جبکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حق مہر دیا اور ولیمہ کیا… سادہ سی مجلس نکاح ، سادہ سا ولیمے کا اجتماع اور مختصر سا جہیز مسلم معاشرے کے لیے رول ماڈل ہے…بی بی فاطمہؓ نے شیر خدا کی خدمت میں کسر نہ چھوڑی جبکہ حسنین کریمین ؓ  کی بہترین پرورش کی…..سخی اور رحمدل اتنی کہ تین دن روزہ رکھا… افطاری کے وقت سائل نے دستک دیدی تو کھانا اسے کھلا دیا…

جناب علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہؓ خود چکی پیستی اور خود ہی جھاڑو دیتی تھیں…ایک مرتبہ رسول کریم ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں نے کہا کہ آپؓ بھی حضور اکرم ﷺ سے ایک خادم مانگ لائیں …سیدہؓ دربار رسالتﷺ میں حاضر ہوئیں مگر شرم سے سوال نہ کرسکیں…دوسرے روز آقا کریمﷺ خود ہمارے ہاں تشریف لائے اور  آنے کی وجہ پوچھی…سیدہ فاطمہؓ  تو خاموش رہیں…میں نے کہا آقا کریم ﷺ ایک خادم کی خواہش تھی. ..جناب رسول کریم ﷺ نے فرمایا فاطمہؓ! اللہ سے ڈرتی رہو ، اس کے فرائض ادا کرتی رہو اور گھر کے کام کاج کرتی رہو …جب سونے لگو تو 33 مرتبہ سبحان اللہ،33دفعہ الحمد للہ اور 34بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو یہ خادم سے بہتر ہے… جناب ابن تیمیہؒ،ابن حجر،علامہ سیوطیؒ اور ملا علی قاریؒ  اتفاق کرتے ہیں کہ یہ مجرب عمل ہے…ان تسبیحات کا سوتے وقت ورد تھکاوٹ دور کر دیتا ہے…بی بی زہرا رضی اللہ عنہا کی وصیت کے مطابق ان کا جنازہ رات کے اندھیرے میں اٹھایا گیا کہ کسی غیر مرد کی نظر نہ پڑے…..دنیا ایسی بے مثال مثالیں کہاں سے پیش کرے گی…….!!
اسلام نے در بدر دھکے کھاتی  عورت کو  عزت بخشی…اسے ہر روپ میں قابل صد احترام بنا دیا…ماں کے پاؤں تلے جنت رکھ دی،بیٹی کو رحمت سے تعبیر کیا…شوہر کو بیوی سے حسن سلوک کی تلقین کی…میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس جبکہ بیویوں کو باعث سکون قرار دیکر زندگی کے بے رنگ خاکوں میں رنگ بھر دیے…خاندانی نظام کا حسن انہی رنگوں سے ہے…عورت مارچ والے” خواتین و حضرات”سے گذارش ہے کہ مارچ کرنا ہے تو جہیز ایسی مکروہ رسومات کیخلاف کریں….”نام نہاد حقوق” کی آڑ میں حدود کو پامال کرنا اللہ کے عذاب کو دعوت دینا ہے…سڑکوں پر رقص سے نہیں،اسلام کے عکس سے ہی خزاں رسیدہ زندگی میں بہار آسکتی ہے….!!!