یونیورسٹی کے لاپتہ طالبعلم عرفان جتوئی کی لاش پنوں عاقل سے برآمد

سندھ یونیورسٹی کے لاپتہ ہونے والے ایم اے پولیٹیکل سائنس کےطالب علم عرفان جتوئی کی لاش سکھر کے علاقے پنوں عاقل سے برآمد کرلی گئی ہے۔ورثا اور ساتھی طلبہ کے مطابق پولیس نے 8فروری کو یورنیورسٹی کے ہوسٹل سے عرفان جتوئی کو حراست میں لیا تھا۔ پولیس نے طالب علم پر 20 سے زائد مقدمات درج ہونے کا دعویٰ کیا۔جاں بحق طالب علم کے والد نے بتایا کہ پولیس نے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ تک میرے بیٹے کو حراست میں رکھا۔ جب ہم اس کی ضمانت کے لیے گئے تو انہوں نے ہم سے 25 ہزار روپے مانگے۔اس کے بعد اہل خانہ نے سندھ ہائی کورٹ سکھر، حیدر آباد اور کراچی میں درخواست دائر کی، جس پر عدالت نے پولیس کو ہدایت کی تھی کہ وہ عرفان جتوئی کو 16مارچ تک عدالت میں پیش کریں۔
https://jang.com.pk/news/896088?_ga=2.109333061.1528184574.1615438707-1407172902.1615438706

——————-
سکرنڈ یونیورسٹی، وائس چانسلر کیلئے تین امیدواروں کے ناموں کا انتخاب
—–

کراچی(سید محمد عسکری) سندھ کی سرکاری جامعات میں وائس چانسلر کے تلاش کے لیے قائم کمیٹی نے شہید بے نظیربھٹو یونیورسٹی آف وٹرنری اینڈاینمل سائنسز سکرنڈ کے وائس چانسلر کے عہدے کیلئے تین امیدواروں کے ناموں کا انتخاب کرلیا ہے بدھ کو تلاش کمیٹی کی زیرصدارت ہونے والےاجلاس کی صدارتتلاش کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر قدیرراجپوتنے کی اجلاس میں پانچ امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا جن میں ڈاکٹر فاروق حسن، ڈاکٹر احمد سلطان جتوئی، اورڈاکٹر رحمت اللہ رند، ڈاکٹر پرسوتم کھتری اور ڈاکٹر اللہ بخش کچی وال شامل تھے.تلاش کمیٹی نےڈاکٹر فاروق حسن کو اول،ڈاکٹر احمد سلطان جتوئی کو دوئم اورڈاکٹررحمت اللہ رند کو سوئم قرار دیا۔ واضحرہے کہگزشتہ سال 12 مئی کوتلاش کمیٹی نے اسی جامعہ کے لیے چاروں امیدواروں ڈاکٹر نورمحمد سومرو، ڈاکٹراحمدسلطان جتوئی، ڈاکٹرالہی بخش کلہوڑو اور ڈاکٹراللہ بخش میمن سے انٹرویو کئے تھے تاہم موزوں امیدوار نہ ملنےکے باعث چاروں کو مسترد کرے وائسچانسلر کے عہدے کے لیےدوبارہ اسامہ مشتہر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
https://jang.com.pk/news/896125?_ga=2.110437957.1528184574.1615438707-1407172902.1615438706
————————-

ابوالکلام لائبریری کو شمسی توانائی کی فراہمی کیلئے NED یونیورسٹی کا معاہدہ


جامعہ این ای ڈی کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی اور اینگرو پاور لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹواحسن ظفر سید کے مابین بے بی ڈے کیئر کی تعمیراور انجینئر ابو الکلام لائبریری میں شمسی توانائی سے متعلق مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ اس موقع پر استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے پرووائس چانسلر ڈاکٹر طفیل کا کہنا تھا کہ خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے اس ڈے کیئر کی تعمیر خودخواتین کے لیے یقیناً خوش آئند ہوگی۔چیئرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل سہیل بشیر اور ڈین فیکلٹی الیکٹریکل اینڈ کمپیوٹرانجینئرنگ ڈاکٹرسعد قاضی کا کہناتھا کہ ہماری کوشش ہے کہ کاربن فٹ کی تخفیف کو عمل میں لائیں، اس کے لیے سولر انرجی کی جانب سفر کا آغاز کرچکے ہیں۔ شیخ الجامعہ این ای ڈی پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کا کہنا ہے کہ آج کا دن ہماری جامعہ کے لیے ایک بڑا دن ہے۔

—————
مفت تعلیم کا دعویٰ کرنے والی سندھ حکومت کا 8 ہزار اسکولز بند رکھنے کا اعتراف
——-

صوبہ کے طلبہ و طالبات کو میٹرک تک مفت تعلیم فراہم کرنے کی دعویدار سندھ حکومت نے 7974 اسکولز مستقل طور پر بند رکھنے کا اعتراف کر لیا ہے اور مستقبل میں ان کی بحالی کے لیئے کوئی ارادہ بھی ظاہر نہیں کیا تاہم 6866 اسکولز کی بحالی کے لیئے اقدامات کے حوالے سےسیکریٹری تعلیم نے عدالت عالیہ کو آگاہ کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے تعلیم سے محروم بے سہارا اور لاوارث بچوں کے لیئے دائر مختلف آئینی درخواستوں کی سماعت کی اس موقع پر سیکریٹری تعلیم نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت عالیہ کے سامنے اعتراف کیا کہ صوبے بھر میں ہزاروں کی تعداد میں اسکولز بند ہیں جن کی مختلف وجوہات ہیں اور ان بند ہونے والے اسکولوں کی بحالی کے لیئے حکمت عملی بنا لی گئی ہے۔ سیکریٹری تعلیم نے بتایا کہ سندھ کے مختلف اسکولوں میں اساتذہ سمیت مختلف اسٹاف دستیاب نہیں تھے جن کی وجہ سے طلبہ کی تعلیم متاثر تھی اور ناگزیر وجوہات کی بناء پر اساتذہ بھرتی کرنے کے بجائے حکام نے مذکورہ اسکولز ہی بند کر دیئے تاہم حکام بالا کی جانب سے اساتذہ اور دیگر عملہ بھرتی کرنے کے لیئے محکمہ تعلیم کو اجازت مل گئی ہے آئندہ چار ماہ تک بھرتیوں اور اسکولوں کی بحالی کے تمام مراحل مکمل کر لیئے جائیں گے لیکن

جہاں6866 اسکول بحال ہونگے وہیں سیکریٹری تعلیم نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ صوبے میں7974 اسکولز ایسے ہیں جومستقل طور پر بند ہی رہیں گے کیونکہ مذکورہ تعلیمی اداروں فرنیچر ، پانی ، بجلی سمیت عمارتوں کی شستہ حالت جیسے مختلف مسائل ہیں۔سیکریٹری تعلیم نے مذکورہ بند اسکولوں کی بحالی سے متعلق کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا کہ مستقبل قریب میں یہ اسکولز کھولے جائیں گے یا نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے رپورٹ کو کیس فائل میں محفوظ کرتے ہوئے سیکریٹری تعلیم کو ہدایت کی ہے کہ رپورٹ کی نقول درخواست گزاروں کو فراہم کی جائے اور درخواست گزاروں کو حکم دیا ہے کہ رپورٹ کا جائزہ لے کر14 اپریل تک بتائیں کہ عدالتی حکم کے مطابق عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔واضح رہے کہ درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا ہے کہ 2013 میں سندھ حکومت نے سندھ رائٹس آف چلڈرن ٹو فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ کے زریعے قانون بنایا کہ پندرہ سال کی عمر والے تمام بچوں کو میٹرک تک مفت تعلیم دی جائے گی تاہم اس کے باوجود سندھ بھر میں لاکھوں بچے بچیاں بالخصوص لاوارث اور بے سہارا نادار بچے تعلیم سے محروم ہیں اور حکومت محض دعووں تک محدود ہے ، صوبے بھر کے بیشتر اسکول بند ہیں جبکہ باقی اسکولوں میں بھی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی طلبہ و طالبات کے سیکیورٹی کے حوالے سے کوئی اقدامات کیئے گئے ہیں لہذا عدالت عالیہ سے استدعا ہے کہ بے سہارا یتیم بچوں کو تعلیم فراہمی سمیت دیگر سہولتیں مہیا کرنے کے احکامات دیئے جائیں۔

https://jang.com.pk/news/896093?_ga=2.6187379.1528184574.1615438707-1407172902.1615438706