”اچھا تو یہ ہے مبین رشید“

یہ کل ہی کی بات لگتی ہے لیکن اس قصے کو لگ بھگ 18 سال بیت گئے ہیں، 2003ء میں لاہور کا ایک چمکتی آنکھوں کے ساتھ ہر وقت چہرے پر مسکان سجائے رکھنے والا نوجوان نوائے وقت کے ادارتی عملے میں آ شامل ہوا- ان دنوں ہمارے ڈپٹی ایڈیٹر ایڈیٹوریل (ایک طرح سے ایڈیٹر، جو حسب مراتب مجید نظامی صاحب کے بعد ادارتی امور کے سربراہ) سید ارشاد احمد عارف تھے۔ مبین رشید، سید ارشاد احمد عارف صاحب کی اس ٹیم میں شامل تھا جو روزانہ نوائے وقت کے سارے ایڈیشنوں کے لئے ادارتی صفحہ تیار کرتی تھی- اس نوارد نوجوان کے تن بدن اور دل و دماغ میں نہ معلوم کوئی آتش سی بھری ہوئی تھی- اس کی آنکھوں میں جو چمک تھی وہ اس کے تاب ناک مستقبل کی نوید دیتی تھی، لیکن میں اسے دیکھ کر اور بات کر کے سوچتا کہ یہ بھلے مانس کہاں آ پھنسا ہے، اس ادارے کی لت اس کو پڑ گئی تو پھر کہیں کا نہیں رہے گا لیکن مبین رشید جو خواب آنکھوں میں بسا کر آیا تھا انہوں نے اسے چین سے نہیں ٹکنے دیا اور وہ واقعی نوائے وقت کا نشہ لگنے سے پہلے ہی 2006ء میں یہ جا اور وہ جا- اس دوران اس نے تین کتابیں اور ہزاروں مضمون لکھ ڈالے، جن کی وجہ سے اسے جلد ہی لاہور کے صحافتی حلقوں میں نمایاں مقام حاصل ہو گیا۔ وہ لاہور میں تھا اور میں کراچی میں لیکن اس کے نوائے وقت میں قیام کے دوران تین برسوں میں چند ملاقاتوں اور روز مرہ مواصلاتی رابطے میں ہمارے درمیان جو اپنائیت کا رشتہ استوار ہوا تھا وہ ایک دائمی دوستی میں بدل گیا جو ایک ساتھ کام کرنے یا ایک ہی ادارے میں ہونے کی بندشوں سے بے نیاز ہوتا ہے۔ پھر پتہ چلا کہ اس نے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کر لیا ہے اور رائل ٹی وی میں پروگرام کرنے لگا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں جا کر بھی اس کی بے چین روح کو کہیں قرار نہیں آیا اور وہ دنیا نیوز، رائل نیوز اور نہ جانے کہاں کہاں، کس کس چینل میں میزبانی کرتا رہا اور ڈائریکٹر نیوز کے عہدے پر بھی براجمان رہا۔ 2014ء میں ایک دن مبین رشید نے فون کر کے مجھے خوش خبری سنائی:
“یار! گوروں کے دیس جا رہا ہوں، وہاں ہفت روزہ ” نئی بات “ کا اجرا کرنا ہے اور پھر دیکھیں گے کہ وہاں اور کیا کیا کر سکتے ہیں-”


وہ دن اور آج کا دن، ہم سات برسوں سے یار دل دار مبین رشید کی کامیابیوں کے لئے دعائیں کرتے رہے اور وہ اپنی محنت شاقہ اور ہماری بے لوث دعاﺅں کی وجہ سے پے در پے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے الحمدللہ آج اس مقام پر کھڑا ہے کہ انگلستان کے پاکستانی ہی نہیں ہم بھی اس کی ذات پر فخر اور اس کی دوستی پر ناز کرتے ہیں-لندن میں 2015ء کے سال نے اس پر شان دار کامیابیوں کے در وا کر دیئے ۔ اس ایک ہی سال مبین رشید نے دو عالمی اجتماعات کرا کے اپنی دھاک بٹھا دی۔ 28 مارچ 2015ء کو ”پہلی انٹرنیشنل لیگل کانفرنس“ اور 30 اکتوبر سے3نومبر 2015ء تک ایک یادگار ” پہلی انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس “ منعقد کی جس کے طفیل اس نے پاکستان اور برطانیہ کے صحافتی حلقوں میں بہت ساری قدر و منزلت سمیٹ لی۔ پھر تو کامیابیوں نے مبین رشید کا گھر دیکھ لیا۔ 2014ء سے 2021ء تک چند سالوں میں اس نے لندن میں رہ کر صحافت، تعلیم ، سماج اور قانون کے شعبوں میں اتنے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں کہ ان کا انگلیوں پر شمار ممکن نہیں۔
جن دنوں مبین رشید اور میں ایک ہی ادارے نوائے وقت گروپ میں کام کر رہے تھے، یہ مجید نظامی مرحوم کے عروج کا زمانہ تھا، ضد کی حد تک اپنے “نظریاتی” بیانئے کی استقامت کے طفیل انہیں مقتدر حلقوں میں صحافتی اوتار کا درجہ دیا جاتا تھا- جی ایچ کیو والے انہیں قومی فکری اثاثہ سمجھتے تھے، اسی طرح سیاسی حلقوں میں بھی بہت زیادہ متنازعہ شخصیت ہونے کے باوجود ان کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ شریف خاندان تو ان کے گھر کا پانی بھرتا تھا۔ میاں شریف کی وفات کے بعد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف انہیں والد کی طرح عزت دیتے تھے۔ میاں نواز شریف جب بھی ان سے ملتے تو احترام کے مارے اپنی نگاہیں ان کے چرنوں میں بچھائے رکھتے اور میاں شہباز شریف ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کی سعادت سمیٹنے میں ذرا توقف نہ کرتے تھے۔ جو شخص مرد آمریت جنرل ضیاالحق کو بے خوفی سے ترکی بہ ترکی جواب دیتا ہو اور جو جنرل پرویز مشرف کو کسی طور بھی خاطر میں نہ لاتا ہو اس کے رعب و دبدبے کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے ہاتھ اس عہد کی نبض پر ہوں۔
ان دنوں مجید نظامی صاحب کا نظریاتی چورن خوب چلتا تھا اور اشرافیہ میں اس کی بہت مانگ تھی۔ میں کراچی میں اور مبین رشید لاہور میں نظریاتی چورن تیار کرنے والے اس کارخانے میں اپنے اپنے حصے کی مزدوری کر رہے تھے۔ مبین رشید تو خیر لاہوریا تھا اور وہ ایمان کی حد تک اس نظریئے پر شاید دل سے کاربند تھا البتہ نظامی صاحب کی قربت اور اصل حقیقت منکشف ہونے کے بعد میں اس نظریئے کو ڈھکوسلے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا، البتہ یہ میرے صحافت سے عشق کا تقاضا تھا کہ میں نے دن رات ادارہ نوائے وقت کی ترقی کے لئے محنت کی اور میں نتیجے میں نوائے وقت کراچی کی ادارت کا حق دار ٹھہرا۔ شاید سید ارشاد احمد عارف صاحب کی طرح مجید نظامی مرحوم مجھے بھی بھروسے کے لائق سمجھتے تھے، یہ اور بات ہے کہ نظامی صاحب کی رحلت کے بعد ان کی لے پالک بیٹی رمیزہ (نظامی) نے 28 برسوں کی دن رات محنت اور ایمان داری کا یہ صلہ دیا کہ مجھے نوائے وقت سے خالی ہاتھ اٹھ کر 92 میڈیا گروپ جا نا پڑا، اس نا انصافی کے خلاف میرا کیس اخباری ملازمین کے لئے قائم عملدرآمد کمیشن مین چل رہا ہے لیکن سست روی کے پیش نظر میرا عنقریب سندھ ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دینے کا مصمم ارادہ ہے۔ رمیزہ (نظامی) نے نظامی صاحب کے بااعتماد رفیقوں کو چن چن کر ٹھکانے لگا دیا۔ ہم تو خیرملازم تھے، خود نظامی صاحب نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اور اس کے بعد رمیزہ (نظامی) نے نوائے وقت کے بانی حمید نظامی مرحوم کے صاحب زادے عارف نظامی کے ساتھ جو سلوک روا رکھا وہ صحافتی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ نظامی صاحب کی لے پالک بیٹی نے اپنے گرد نان پروفیشنل اور موقع پرستوں کا حصار قائم کر لیا جنہوں نے نوائے وقت جیسے تاریخی ادارے کو تباہ کرنے اور اسے کھنڈرات میں بدلنے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
مبین رشید اور میں اس خاص ماحول میں پروان چڑھ کر ان منزلوں تک پہنچے ہیں لیکن مبین رشید میری توقعات سے کہیں اور زیادہ آگے نکل گیا ہے۔ مغرب نے وہ مبین رشید دریافت کر لیا ہے جو نوائے وقت کے دور میں مبین رشید کی آنکھوں میں ستارا بن کر چمکتا تھا- مغرب میں قیام کے سات برسوں میں مبین رشید ایک قدآور صحافی، سخن آشنا مصنف، نقطہ شناس محرک اور ممتاز سماجی اور تعلیمی شخصیت کے روپ میں ابھر کر سامنے آیا ہے ، اپنے جیسا کوئی جب اتنی ساری کامیابیوں سے دامن بھر لیتا ہے تو یقین کریں اپنی تہی دامنی کا ملال کہیں کا نہیں رہتا- مبین رشید مجھ جیسے راندہ درگاہ دیرینہ دوستوں کو اب بھی بھولا نہیں، وہ جب بھی پاکستان آتا ہے ہم سے ملاقات کے بغیر اس کا سفر ادھورا رہتا ہے- پچھلے ماہ فروری کے آخری نوں میں مبین رشید کی لندن سے لاہور اور پھر لاہور سے کراچی آمد کے دوران ایک دن ہماری خصوصی اور تفصیلی نشست رہی، اس موقع پر اس کے ساتھ برسوں کے قصے اور قضیئے تازہ کئے، میں نے سوچا مبین رشید جیسے یار دل دار سے آپ کی بھی ملاقات کرا دی جائے تاکہ آپ بھی کہہ سکیں کہ
”اچھا تو یہ ہے مبین رشید“