کیا واقعی روزی لگی ہوٸی تھی

کیا واقعی روزی لگی ہوٸی تھی

(آخری قسط)

پی این ایس نصر کے پچھلے حصے کو ہینگر ڈیک یا فلاٸی ڈیک کہتے ہیں جو ہیلی پیڈ کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ گہرے پانیوں میں ہچکولے کھاتے جہاز پر ہیلی کاپٹر اترتے دیکھنے کا میرا بھی یہ پہلا موقعہ تھا ۔ فورسز میں ڈاکٹر ہونے کا ایک فاٸدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ وی آٸی پیز کو میڈیکل کور دیتے ہوٸے انکو قریب سے دیکھتے ہیں اور بعض اوقات آپکا ان سے تعارف بھی ہو جاتا ہے ۔ جب ہیلی کاپٹر اتر چکا تو ہم سب آفیسرز کاریڈور سے باہر آکر وزیراعظم کو سیلیوٹ کرنے کے لیے فلاٸی ڈیک پر لاٸن بنا کر کھڑے ہوگٸے ۔ لیفٹننٹ احمد رضا بخاری خوب خوش تھا کیونکہ اس نے وزیراعظم کے ساتھ کنڈکٹنگ آفیسر کی ڈیوٹی کرنی تھی اور کسی ینگ لیفٹیننٹ کیلٸے یہ اعزاز کی بات تھی۔

جہاز اس طرح ہچکولے کھا رہا تھا کہ بغیر سہارے ہینگر ڈیک پر کھڑے ہونا مشکل ہو رہا تھا ۔ ہیلی کاپٹر کا دروازہ کھلا تو سب سے پہلے ناہید خان باہر نکلیں اور انہوں نے ہاتھ پکڑ کر محترمہ بینظیر کو نیچے آنے کے لیے سہارا دیا ۔ ایڈمرل منصورالحق اترے تو انکے ساتھ ایک کلین شیو شخص جس نے بغیر ٹاٸی لگاٸے کالر بٹن بھی بند کیا ہوا تھا ہنستے ہوٸے اترا ۔ میں نے غور کیا تو پہچان گیا کہ یہ کون ہے ۔ میں نے نوابشاہ کی سڑکوں اور دوستوں کے فنکشنز میں دسیوں دفعہ آصف علی زرداری کو دیکھا تھا مگر اس طرح کلین شیو اور بغیر ٹاٸی لگاٸے کالر بٹن بند کٸے پہلی دفعہ دیکھا ۔ لیفٹننٹ احمد رضا کو میں نے اشارے سے بتا دیا کہ یہ صاحب کون ہیں ۔ اس کے بعد ہم نے دیکھا ہی نہیں کہ ہیلی کاپٹر سے اور کون اتر رہا ہے ۔ آفیسرز کے سیلیوٹ کا جواب دیتے ہوٸے وزیراعظم گینگ وے کی طرف بڑھیں تو بےخیالی میں انکے سینڈل کی ہیل ڈیک پر لکڑی کے فرش میں کہیں جا پھنسی ۔ وہ گرتےگرتے بچیں مگر پہلے ناہید خان نے اور پھر بھاگ کر آصف علی زرداری نے انکو تھاما ۔ اس وقت کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ وزیراعظم کو تھامتا یہ مسکین سا نظر آنے والا شخص کسی دن صدر پاکستان بن بیٹھے گا ۔۔ جہاز کے سینٹرل کاریڈور سے گزر کر سب لوگ دوسری طرف جا نکلے ۔ کوارٹر ماسٹر اور گینگ وے اسٹاف نے وزیراعظم کو خوش آمدید کہنے کا رواٸتی سیلیوٹ کیا اور کیپٹن عارف قریشی انہیں کمانڈنگ آفیسر کے آفس میں لے گٸے ۔

جناب غلام مصطفٰے کھر اپنی خوبرو نٸی بیوی کے ساتھ گینگ وے کے سامنے سے اس طرح گزرے جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لوگ  بمبٸی اور دہلی کی گلیوں سے انڈیا کے فاتح کے طور پر گزر رہے ہوں ۔ پاکستان کا ڈیفنس منسٹر گینگ وے کے سامنے سے گزرا تو کسی کو یہ خبر ہی نہ تھی کہ ہم وردی والے اسے قانونی طور پر سیلیوٹ کرنے کے پابند ہیں اور شاٸد آفتاب شعبان میرانی صاحب کو بھی اب تک اپنے اختیارات اور پروٹوکال کی کوٸی خبر نہ تھی ۔

پہلا ہیلی کاپٹر ڈیک سے اڑ گیا تو ہوا میں مزید 2 ہیلی کاپٹر نمودار ہوٸے ۔ سپلاٸی آفیسر لیفٹننٹ کمانڈر اصغر بھاگتے ہوٸے جہاز کے ٹاپ فلور پر پوپ ڈیک کے قریب میرے پاس آٸے اور بتایا کہ کھانے والے ہیلی کاپٹر آ پہنچے ہیں آپ نیچے آٸیں اور فوڈ ٹیسٹنگ میڈیکل سرٹیفیکیٹ پر دستخط کردیں تاکہ ہم لنچ کی تیاری کر سکیں ۔ جونیر آفیسرز کی ڈیمانڈ اور اپنے بے ایمان اصول کے مطابق میں نے کچھ کھا کر ہی سرٹیفیکیٹ پر دستخط کرنے تھے ۔

ایک کے بعد دوسرا ہیلی کاپٹر اترا اور کھانے کی تمام ڈشسز ڈاٸننگ ہال میں منتقل ہوگٸیں ۔ 5 اسٹار ہوٹلز سے 100 لوگوں کا کھانا منگوا کر 14 لوگوں کو کھلانے کا بندوبست ہو رہا تھا ۔ میں نے ایک ڈش سے ایک ٹیبل اسپون سے لقمہ لیا تو سپلاٸی آفیسر منتیں کرنے لگا کہ سر یہ 12000 کی ایک ڈش ہے کیوں خراب کرتے ہیں ۔ بہرحال سرکاری ڈیوٹی تھی میں نے چپ چاپ سرٹیفیکیٹ پر دسخط کر دیے کہ قوم کے خون کی کماٸی سے خریدا گیا یہ مہنگا ترین کھانا وزیراعظم کی صحت کے لیے بالکل موزوں ترین ہے ۔ پھر ہمیں نہیں پتہ کہ کھانے کی میز پر ان ڈشسز کو کس کس نے کس کس طرح نوچا ہوگا ۔

لنچ کے بعد وزیراعظم کو پوپ ڈیک پر لےجایا گیا جہاں کسی لانچنگ پیڈ سے میزاٸیل فاٸر ہونے کی اطلاع آنی تھی ۔ تھوڑی دیر کے بعد سگنل آفیسر بھاگتا ہوا آیا اور وزیراعظم کیلیے خوشخبری سناٸی کہ جو مزاٸل فاٸر کیا گیا ہے وہ عین اپنے نشانے پر جا لگا ہے ۔ انہوں نے خوش ہوکر ایڈمرل منصورالحق کو داد دی ۔ جناب مصطفٰے کھر اور ڈیفینس منسٹر کیلیے اس خبر کی کوٸی وقعت نہ تھی کیونکہ وہ سمندر کی لہروں سے لطف اندوز ہورہے تھے البتہ آصف علی زرداری نے لقمہ دیا کہ آپ لوگوں نے تو مزاٸل نشانے پر لگنے ہی کی خبر سنانی ہوتی ہے ہم کون سا دیکھ رہے ہیں ۔ وزیراعظم سنجیدہ رہیں مگر ناہید خان نے ہنس کر آصف علی زرداری کی تاٸید کردی ۔ اسی وقت جہاز پر عصر کی آذان سناٸی دی تو وزیراعظم نے خوش ہوکر کہا کہ آپکے جہاز پر کتنا خوبصورت آذان بج رہا ہے کیا جہاز پر مسجد بھی ہوتا ہے ۔ اس بات پر جو جواب دینا تھا وہ قریب ہو کر ایڈمرل منصورالحق نے دیا جو ہم تو نہیں سن سکتے تھے ۔

نیوی میں وزیراعظم کا یہ دورہ بہت ہی انوکھا تھا اور شاید جونیر آفیسرز ایسا پہلی دفعہ ہی دیکھ رہے تھے اس لیے وہ ان اللوں تللوں پر پریشان بھی تھے اور حیران بھی کہ ہمیں پڑھایا کیا جاتا ہے ۔ ٹریننگ کیا دی جاتی ہے اور یہ ہو کیا رہا ہے ۔ چونکہ وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر دوبارہ فلاٸنگ ڈیک پر اتر چکا تھا اور واپسی کی تیاریاں ہو رہی تھیں اس لیے ہم بھی فلاٸنگ ڈیک پر سیلیوٹ کرنے کو آ کھڑے ہوٸے ۔ آصف علی زرداری ڈیک پر پہلے پہنچے تو ہم سے ہاتھ ملانے آ گٸے ۔ میں نے ہاتھ ملاتے ہوٸے کہا ک سر میں جام صاحب روڈ نوابشاہ کا رہاٸشی ہوں ۔ وہ زور سے ہنسے اور کہا میرے شہر کے لوگ فوج میں کیا کر رہے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے اس وقت فوراََ کوٸی جواب نہ بن پڑا مگر پھر آہستہ آہستہ پتہ چلتا گیا کہ نوابشاہ والوں کا اصل کام کیا ہونا چاہیے تھا ۔

نام یاد نہیں مگر وزیراعظم کے ملٹری سیکریٹری ہمارے پاس آکر کھڑے ہوٸے تو میری سپاہیانہ رگ پھڑکی اور میں نے کہا اللہ کرے انڈیا سے جنگ لگے تاکہ سیاستدانوں کی رہبری اور فوجیوں کی بہادریاں ہم جیسے جونیر آفیسرز کو بھی دیکھنا نصیب ہوں کیونکہ اب سی سناٸی کہانیوں سے یقین اٹھتا جا رہا ہے ۔ سپلاٸی آفیسر ایک دم بولا سر یہ بد دعاٸیں کسی اور کو دیا کریں ۔ یہ سن کر ملٹری سیکریٹری نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ڈاکٹر تو کیوں لوگوں کی روزی کے پیچھے پڑا ہوا ہے ۔

میں ایسے کھڑا تھا کہ کاٹو تو خون ندارد ۔ پھر نہ جانے کب وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر اڑ گیا ۔ انکے پیچھے پیچھے دونوں وفاقی وزرا اور نیول چیف بھی ہمیں کھلے پانیوں میں ہچکولے کھاتے چھوڑ کر ہواٶں میں گم ہو گٸے ۔ ہم ہارے ہوٸے لاوارث جونیر آفیسرز کاریڈور سے نکل کر چپ چاپ فلاٸنگ ڈیک پر آ بیٹھے ۔ اب ہم سب کی ایک ہی بحث تھی کہ ان سب جانے والوں کی
کیا واقعی روزی لگی ہوٸی ہے

برگیڈیربشیرآراٸیں