٢٠٠٦ کا حج (قسط ١) 110 ریال کی طاقت

٢٠٠٦ کا حج (قسط ١)

110 ریال کی طاقت

دسمبر 2005 کا زمانہ تھا اور میری پوسٹنگ سی ایم ایچ ملیر میں تھی ۔ اللہ کا کرم ایسا ہوا کہ مھے ڈپٹی ڈاٸریکٹر حج میڈیکل مشن چن لیا گیا ۔ میں حج میڈیکل مشن میں پہلے بھی ممبر کی حیثیت سے کام کر چکا تھا اس لیے مجھے اب مزید ذمہ داریوں کے ساتھ بھیجا جا رہا تھا ۔ آرمی میڈیکل کالیج فرسٹ بیچ کے آفیسر برگیڈیر ندیم احمد مشن کے ڈاٸریکٹر تھے ۔ ان دنوں بہت ہی اچھی شہرت کے افسر وکیل احمد خان فیڈرل سیکریٹری اور جناب اعجازالحق وفاقی وزیر مذہبی امور تھے ۔ میری شہرت کبھی بھی تابعدار آفیسر والی نہیں رہی تھی اس لیے برگیڈیر ندیم احمد کچھ فکرمند سے تھے اور یہی بات جناب اعجاالحق تک بھی پہنچ گٸی ۔

حج میڈیکل مشن کی تمام تیاریاں راولپنڈی میں ہوتی تھیں ۔ دواٸیوں کی خریداری سے لیکر مشن میں جانے والے سیویلین اور فوجی ڈاکٹرز اور میڈیکل اسٹاف کے پاسپورٹ اور ویزوں کا بندوبست ۔ حاجیوں کی فلاٸٹس کے ساتھ ساتھ ہر میڈیکل ٹیم کا جدہ مکہ اور مدینہ وقت پر پہنچنے کی پلاننگ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے ۔ پچھلے تجربوں اور حاجیوں کے مطالبے کو مدنظر رکھ کر اس سال حکیم اور طبیب بھی شامل کیے گٸے تھے ۔ خدا خدا کرکے تیاریاں مکمل ہوٸیں اور برگیڈیر ندیم احمد حاجیوں کی فرسٹ فلاٸیٹ کے ساتھ میڈیکل مشن کی ایڈوانس پارٹی لیکر مکہ چلے گٸے ۔ انکے جانے کے بعد میں ضرورت کے تحت ٹیم تشکیل دیتا اور حاجیوں کی فلاٸیٹس کی تعداد کے مطابق نٸی میڈیکل ٹیم روانہ کر دیتا ۔

آخری فلاٸیٹ کے ساتھ میں بھی جدہ اترا اور پاکستان ہاوس مکہ پہنچ گیا ۔ پاکستان ہاوس اس وقت خانہ کعبہ سے صرف 5 منٹ کے فاصلے پر النور ہاسپیٹل کے سامنے والی بلڈنگ میں تھا ۔ گراونڈ فلور پر منسٹری اور ڈایریکٹر حج کا دفتر تھا اور ہاسپیٹل کی او پی ڈی اور فرسٹ فلور پر ہاسپیٹل کے وارڈ اور میڈیکل مشن کے عملے کے آفس اور رہاٸش ۔ دوسرے دن ہی عجیب سلسلہ دیکھا ۔ جب آذان ہوتی تو سب ڈاکٹر اور اسٹاف تمام مریضوں کو چھوڑ کر باجماعت نماز کے لیےحرم چلے جاتے اور مریض انکے انتظار میں بیٹھے رہتے ۔

جب برگیڈیر ندیم نے ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری مجھے سونپ دی تو میں نے تمام ڈاکٹرز اور اسٹاف کے ساتھ میٹنگ کی اور انکو بتایا کہ ہماری بنیادی ذمہ داری حاجیوں کی دیکھ بھال اور علاج ہے اور اللہ کا شکر کریں کہ ڈیوٹی کرتے ہوٸے ہمیں حج کی سعادت بھی میسر ہوگی ۔ چونکہ اس ذمہ داری کیلیے ہمیں ڈیلی الاونس ملتا ہے اس لیے ڈیوٹی چھوڑ کر حرم کے اندر جاکر ہر نماز باجماعت نہیں پڑھی جا سکتی ۔ ویسے بھی پاکستان ہاوس حرم کی حدود میں ہے اس لیے امام کعبہ کی آواز آٸے تو آپ سڑک پر بھی باجماعت نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ میری باتیں لوگوں کو ناگوار گزر رہی تھیں کیونکہ عبادت کا ثواب سب ذمداریوں پر حاوی ہو چکا تھا۔

میں ہاسپیٹل اور مختلف کلنکس کا دورہ کرتا تو لوگ ڈیوٹی سے غاٸب ہوتے اور پوچھنے پر وہی حرم میں باجماعت نماز کا بتایا جاتا ۔ اس دوران ہر جگہ مریضوں کا رش لگ جاتا اور بعض اوقات ایمرجنسی کے لیے بھی ڈاکٹر نہ ہوتا ۔ میں نے ہاسپیٹل اور تمام کلینکس میں لکھ کر بھی لگایا کہ عبادت کرنے کیلیے ڈیوٹی کی جگہ نہیں چھوڑی جاسکتی مگر اس کا بھی اثر نہ ہوا اور لوگ مجھ پر عبادت سے روکنے کا الزام لگانے لگے ۔ مجھ سے کہتے کہ حرم کے اندر جاکر نماز پڑھنے کا زیادہ ثواب ہے ۔ مگر میں کہتا کہ ڈیوٹی چھوڑنے کا گناہ بھی تو ہے اور کسی کی جان چلی گٸی تو اس کی ذمہ داری کس کے سر ہوگی ۔ مجھے اعجاالحق صاحب نے بھی شکایت کی کہ لوگ ڈیوٹی چھوڑ کر نماز پر چلے جاتے ہیں اور دور ہونے کی وجہ سے کوٸی کوٸی کلینک تو دو دو گھنٹوں ڈاکٹر کے بغیر ہوتی ہے ۔ اب مجھے آٸے ہوٸے ایک ہفتہ ہو چکا تھا ۔

ہمیں روزانہ الاٶنس کی مد میں 110 ریال ملتے تھے اور اداٸیگی اکاونٹ آفیسر ہونے کے ناطے میں نے کرنی تھی ۔ میں نے ایک نوٹس لگایا کہ اگر کوٸی ڈیوٹی سے غیرحاضر پایا گیا تو میں اسکا ڈیلی الاونس کاٹ لونگا ۔ شور مچ گیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا اور لوگ نماز کے وقت ڈیوٹی چھوڑ کر حرم جاتے رہے اور میری کسی نصیت اور تقریر کا کوٸی اثر نہ ہوا ۔ مجھے برگیڈیر ندیم اور اعجاالحق صاحب نے بھی کہا کہ الاونس کاٹنے کا نہ کہو ۔ مسلہ بن جاٸیگا ۔ میں نے حفظ ماتقدم سیکریٹری مذہبی امور وکیل احمد خان سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ جو ڈیوٹی سے غیر حاضر ہو اسکا الاونس کاٹ سکتے ہو ۔

میں نے نماز کے وقت چیکنک شروع کی اور ڈیوٹی سے غیر حاظر لوگوں کی فہرست بنانی شروع کردی ۔ سب کا خیال تھا کہ یہ صرف دھمکی ہے اور اس پر عمل نہیں ہو سکتا ۔ پہلے دس دن کی اداٸیگی شروع ہوٸی تو لوگوں پر بم گرا ۔ الاونس کی اداٸیگی میں کٹوتی ہو چکی تھی ۔ ڈاکٹرز اور عملہ نے مجھ سے احتجاجاً کہا تو میں نے پیشگی اطلاع والے نوٹس کا حوالہ دیا اور غیرحاضری والی فہرست نوٹس بورڈ پر لگا دی ۔

ڈاکٹرز اور اسٹاف خاموشی سے اپنے الاٶنسز لینے لگے اور پیغام آنے لگے کہ سر معاف کردیں ہم اب ڈیوٹی کی جگہ بالکل نہیں چھوڑیں گے ۔ میں نے سب سے پھر کہا کہ حاجیوں کی دیکھ بھال کے لیے آٸے ہیں اور انشااللہ حج بھی ہو جاٸیگا مگر کچھ بھی ہو جاٸے ڈیوٹی کی جگہ نہیں چھوڑنی ۔ میری نصیحتوں سے زیادہ اثر 110 ریال نے کر دکھایا اور سب نے ریال کی محبت میں اپنی اپنی ڈیوٹی کی جگہ پر جماعت کرانی شروع کردی ۔ میں بھی فجر کے علاوہ ان سب کے ساتھ مختلف جگہوں پر باجماعت نماز پڑھتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا کہ اب ہاسپیٹل اور تمام کلینک سے آنے والی شکایات ختم ہو گٸی تھیں اور ڈاکٹرز اور عملے کے تمام لوگ خوب دلجمعی سے حاجیوں کی دیکھ بھال کرتے رہے ۔ ریال کی طاقت کے کرشمے آج تک یاد ہیں اس دن کے بعد کسی نے بھی دوبارہ اپنے 110 ریال ضاٸع کرنا مناسب نہ سمجھا اور میری جان بھی روز روز کے دورے سے چھوٹ گٸی ۔

اور 22 دسمبر 2005 سے 6 فروری 2006 تک میرا کا آسان ہو گیا ۔
(جاری ہے)
برگیڈیربشیرآراٸیں