پانچ سو روپے فی کلو فروخت ہونے والے کشمیر کے سرخ چاول

کشمیر میں واقع وادی لیپہ میں کاشت ہونے والے سرخ چاول سیاحوں کے لیے خاص کشش رکھتے ہیں۔
ساجد میر صحافی، کشمیر
————————————–

م کشمیر کے ضلع ہٹیاں بالا میں واقع وادی لیپہ اکثر سردیوں میں برف باری کی وجہ باقی ملک سے کٹ کر رہ جاتی ہے۔ سرد مہنیوں میں اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے یہاں کے رہائشیوں کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر ہے۔

مظفر آباد سے تقریباً 83 کلومیٹر دور خوبصورت وادی لیپہ سطح سمندر سے چھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور یہاں کی مشہور سوغاتوں میں اخروٹ اور لوبیا تو ہیں ہی مگر یہاں کاشت کیے جانے والے سرخ چاول بھی سیاحوں کے لیے خاص کشش رکھتے ہیں۔

رہائشی ارشاد مغل بتاتے ہیں کہ سرخ چاول کو جب وہ مارکیٹ لے کر جاتے ہیں تو وہ ہاتھوں پاتھ فروخت ہو جاتا ہے اور خاص طور پر سیاح تو اسے ہانچ سو روپے فی کلو کی قیمت پر بھی خرید کر لے جاتے ہیں، جبکہ انہیں تحفے کے طور پر ملک سے باہر بھی بھیجا جاتا ہے۔

ارشاد مغل کے مطابق اس چاول کے بونے سے تیار ہونے تک مختلف مراحل ہیں جو عام فصل سے مختلف ہیں۔ یہ چاول دو طریقوں سے کاشت کیا جاتا ہے ایک اس کی پنیری تیار کر کے کھیتوں میں لگایا جاتا ہے دوسرا اس کی بیجائی کی جاتی ہے۔

بونے سے تیار ہونے تک سب دیسی طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ چاول کی فصل جب کٹ کر تیار ہو جاتی ہے تو اس کو کاٹ کر خشک کرنے کے بعد بیلوں کو جوت کر ان کے پاؤں کے دانے الگ کیے جاتے ہیں۔ دانے الگ کرنے کے بعد پھر دیسی طریقہ کار سے پہکو پر سے چاولوں سے چھلکا الگ کیا جاتا ہے۔


کشمیری زعفران کو پیداوار میں کمی کا سامنا
ارشاد مغل کا کہنا ہے کہ ان چاولوں کی تیاری میں کہیں بھی کوئی مشینی طریقہ استعمال نہیں ہوتا۔

وہ بتاتے ہیں کہ یہ چاول صحت مند ہوتے ہیں اور اس علاقے میں ان سے کئی پکوان تیار کیے جاتے ہیں جیسے کھیر جسے مقامی زبان میں کڑاہی کہتے ہیں، اور جنگلی جڑی بوٹیاں ڈال کر بنائی جانے والی کھچڑی جو کمر اور جوڑوں کے درد کے لیے مؤثر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا: ’خواتین کے ہاں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ان کو اس چاول میں مکھن اور دیسی گھی ملا کر کھلایا جاتا ہے چونکہ یہ بہت صحت مند ہے اور ان کے لیے بہت مفید ہوتا ہے۔‘


ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ سردوں میں یہ علاقہ باقی علاقوں کے کٹ جاتا ہے، اس لیے یہاں لوگ زرعات پر انحصار کرتے ہیں اور اپنے اگائے جانے والے چاول اور دیگر اجناس کو کٹائی کے بعد مخفوظ کر کے سٹور کر لیا جاتا ہے تاکہ آنے والے سرد ماہ میں کام آئے۔

چاول اور باقی اجناس کی کاشت اور کٹائی میں مرد اور خواتین دونوں حصہ لیتے ہیں۔ تاہم مقامی لوگوں کی شکایت ہے ان کی فصلوں کو بیماریاں لگنا شروع ہو گئیں ہیں مگر محکمہ زرعات نے ان کی کوئی رہنمائی نہیں کی ہے۔

ارشد مغل کے بقول: ’سرخ اور سفید چاول میں بہت فرق ہے۔ سرخ چاول کی بہت زبردست خوشبو ہوتی ہے۔ یہ کھانے میں لذیذ اور صحت مند ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ صبح دوپہر شام تین وقت یہ چاول کھاتے ہیں۔ لوبیہ یہاں کی بہترین فصل ہے اور لوبیہ کی دال کے ساتھ سرخ چاول کا ذائقہ دوبالا ہو جاتا ہے