ٹر گئے یار محبتاں والے…..!!!


نیوز روم /امجد عثمانی
———————

شکرگڑھ کے بزرگ سیاستدان جناب انور عزیز آدھی صدی پر محیط طویل اور شاندار سیاسی اننگز کھیل کر پویلین لوٹ گئے……لاہور کے سنئیر اخبار نویس بزرگوارم جناب خالد چودھری سے تعزیت کے لئے فون کیا کہ وہ انور عزیز کے ہمدم دیرینہ ہیں….اپنے دوست کا تذکرہ کرتے ان کی آواز رندھ گئی……بات ختم ہوئی تو انہوں نے مجھے میاں محمد بخش رح کے کلام پر مبنی ویڈیو واٹس ایپ کرکے اپنے غم کا اظہار کیا جس کا ایک ایک شعر سوگوار کر جاتا ہے…….

ٹر گئے یار محبتاں والے
لے گئے نال ای ہاسے
دل نئیں لگدا یار محمد
جائیے کیہڑے پاسے

خالد چودھری صاحب بھی عجب مرد درویش ہیں…. 47سالہ صحافتی کیرئر جمہوریت کے لئے لڑتے گذار دیا…..1972میں روزنامہ مساوات سے بطوررپورٹر وابستہ ہوئے..بھٹو ان کو بیٹا کہتے….بے نظیر شہید اور زرداری کی گڈ بک میں رہے لیکن ایک پائی کا فائدہ بھی حرام سمجھا……ایوب…یحیی اور ضیا آمریت میں شاہی قلعہ سمیت راولپنڈی اور لاہور کی جیلوں کے مہمان رہے… ضیاء دور میں تو سپیشل ملڑی کورٹ نے500 بموں کا ناجائز کیس بناکر انہیں 10 سال کی سزا بھی سنائی جبکہ اعتزاز احسن کو بطور وکیل اس کیس سے دور رہنے کی دھمکی ملی……..

ساری زندگی اپنا گھر نہ بنانے والے خالد چودھری بتا رہے تھے کہ انور عزیز بھی پوری زندگی کرائے کے مکان میں رہے…انہوں نے اپنا ذاتی گھر نہ بنانا پسند نہ کیا……یہی حال ان کا شکرگڑھ میں رہا ….کوئی کوٹھی نہ حویلی….شہر سے کچھ دور بدوال جنگل کے بیچوں بیچ کسی دوست نے اپنی زمین گفٹ کر دی….پرندوں کی چہچاہٹ میں ادھر ہی “سادھو “بن کے بیٹھے رہے اور اسی مٹی میں اپنی اکلوتی صاحبزادی پروفیسر کرن عزیز کے پہلو میں ابدی نیند سو گئے….

جناب انور عزیز نے مشرقی سرحد کے آخری شہر کو پہچان دی….وہ مین سٹریم سیاست کے اہم کھلاڑی بن کر ابھرے…..بھٹو اور جو نیجو کابینہ میں وزیر بنے…ان کا سب سے بڑا سیاسی معرکہ ضیا الحق کے امیدوار اور خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر کے مقابلے میں فخر امام کو سپیکر بنوانا تھا….انور عزیز مشرف دور میں ضلع ناظم کا الیکشن ایک ریٹائرڈ کرنل سے ہار گئے جبکہ کے صاحبزادے دانیال قومی تعمیر نو بیورو کے چئیرمین تھے……شاید آمریت والے “بھائی لوگ “خواجہ صفدر والی شکست نہیں بھولے تھے….دراصل وہ اپنے ہی مزاج کے آدمی تھے….ہر دور میں کم ہی برداشت ہوئے……نواز شریف نے ایک دفعہ شکرگڑھ جا کر کہا کہ انور عزیز لوٹے نہیں حمام ہیں…..پھر ایک وقت آیا کہ ان کے صاحبزادے اور بہو نے بیس پچیس سال بعد مولانا کے ساتھ ملکر اس علاقے میں ن لیگ کا سرنگوں جھنڈا پوری طاقت سے لہرادیا….یہی سیاست ہے…..انور عزیز نیک نام سیاستدان تھے…..ان میں خامیاں کم خوبیاں زیادہ تھیں…..وہ غلیل نہیں دلیل سے سیاسی جنگ لڑے….پوری زندگی سکیورٹی کے نام پر کوئی اسلحہ بردار نہیں رکھا…اصل میں وہ درود والوں کے مرید تھے……کرپشن کی نہ تھانے کچہری کی سیاست …..کسی کو معطل کرایا نہ تبادلہ …کسی کو نفع نہیں دیا تو نقصان بھی نہیں کیا…..یہی حال ان کے صاحبزادے دانیال عزیز اور بہو مہناز اکبر کا ہے……..خوش قسمت تھے کے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو وفاقی وزیر اور بہو کو ایم این اے بنتے دیکھ لیا……..انہوں نے دانیال کو 1997میں لانچ کیا اور ن لیگ کے طوفان کے مقابلے میں آزاد ہی چٹان ثابت ہوئے جبکہ 2018کے الیکشن میں دانیال کی نااہلی کے بعد مہناز اکبر شکرگڑھ کی تاریخ کی سب سے بڑی لیڈ دلوائی…..

شکرگڑھ کی سیاسی تاریخ میں انور عزیز سے “بے وفائی” کی ایک تلخ داستان ہے مگر وہ اسے محبوب کے “شیریں لب “سمجھتے ہوئے کبھی بے مزہ نہ ہوئے…..انہوں نے جس کو اٹھایا اس نے انہیں گرایا…جسے حلیف بنایا وہی ان کا حریف بن کر سامنے آگیا…..شکرگڑھ کے تقریبا سبھی سب سیاستدان ان کی” دریافت” ہیں….وہ بڑے دل والے آدمی تھے….ہر الیکشن میں کسی کی انگلی پکڑتے اور اس کی کسی ایک خوبی کو اس اچھے انداز میں پیش کرتے کہ لوگ آنکھیں بند کر کے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے….ان کی آخری” پیشکش” ڈاکٹر نعمت علی جاوید تھے….انہوں نے انہیں ایٹمی سائنسدان کے طور متعارف کراتے ہوئے لوگوں کو باور کرایا کہ یہ صاحب آپ کے مسیحا ثابت ہونگے…..لیکن پھر وہی ہوا جو انور عزیز کے ساتھ باقی لوگوں نے کیا…….ڈاکٹر نعمت خود “ایٹمی سیاستدان” بن گئے اور وہ تحصیل نظامت کے دوران اپنے ڈاکٹر بیٹے طاہر علی جاوید کو بھی امریکہ سے لے اور وہ پرویز الہی کابینہ میں وزیر صحت اور پھر فارورڈ بلاک میں شہباز حکومت کے وزیر سپیشل ایجوکیش بنے ….ان کے نا اہل ہونے پر ڈاکٹر نعمت ضمنی الیکشن میں ن لیگ کے ناکام امیدوار ثابت ہوئے……2013اور2918میں موصوف پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے میدان میں اترے اور دونوں مرتبہ لیگی امیدوار مولانا غیاث الدین سے ہارے….چوتھی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے مولانا غیاث الدین انور عزیز کے سب سے قریبی سیاسی اتحادی رہے…..مسٹر اور ملا کا یہ برانڈ سب سے زیادہ مقبول ہوا….دونوں علی پور سیداں کی روحانی درگاہ سے وابستہ ہونے کے باعث” پیر بھائی” تھے….دونوں نے کبھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے تو کبھی روٹھے مگر “سیاسی رومانس” چلتا رہا….جب ایک ہوئے فاتح قرار پائے …الگ ہوئے تو داغ ندامت ملا…..85میں انور عزیز اور مولانا جبکہ
97…2013…2018 کے الیکشن میں مولانا اور دانیال ایک ہو کر جیتے……

انور عزیز خوش قسمت ہیں کہ دل صاف کر کے اللہ کے حضور پیش ہوئے… …اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف جناب اشفاق تاج مرحوم اور جناب طارق انیس سے گلے مل کر اگلے جہان گئے…..طارق انیس نے بھی انور عزیز اور اس سے پہلے ان کی بیٹی کے جنازے میں شرکت کرکے اعلی ظرفی کا ثبوت دیا……..
دل سے یاد آیا 2007میں ایڈیٹر انچیف جناب نجم سیٹھی کی زیر ادارت روزنامہ آج کل کی اشاعت شروع ہوئی تو ایڈیٹر جناب خالد چودھری نے اپنے دوست انور عزیز کو بھی کالم لکھنے کے لئے راضی کر لیا….چودھری صاحب نے ” دل دریا “کے نام سے پانچ چھ کالم لکھے اور بس…..ایک دن ہمارے نیوز روم کے کولیگ اعظم خاور صاحب میرے پاس آئے اور مذاق کرتے ہوئے کہا یار انور عزیز نے لکھنا چھوڑ دیا ….لگتا ہے ان کا نالج ختم ہو گیا ہے…..یہ بات خالد چودھری اور عزیز از جان دوست تنویر عباس نقوی کو بتائی تو وہ دونوں کافی دیر قہقہے لگا تے رہے….پھر بولے کہ انور عزیز علم کا دریا نہیں سمندر ہے لیکن ان کے پاس وقت ہی نہیں لکھیں گے کیسے……
ابھی آج خالد چودھری صاحب بتا رہے تھے کہ م ایک دو مہینے پہلے سنئیر صحافی ذوالفقار راحت نے فون کیا کل میرے گھر آپ کے ایک ایسے خاص دوست کے اعزاز میں دعوت ہے جس سے آپ کو خاص پیار ہے….میں پہنچا تو انور عزیز کو دیکھ کر کہا مجھے بالکل حیرانی نہیں ہوئی کہ مجھے پتہ تھا آپ ہی ہونگے….اس محفل میں وہ کہنے لگے اب کیا ڈرنا اور ضیا دور میں میرے اپنے ایڈونچر مزے لے لے کر سب کو بتادیے…….

ایک اور واقعہ سنایا کہ جب جونیجو حکومت میں انور عزیز وزیر بنے تو مجھے کہا چودھری اسلام آباد پہنچو جشن منانا ہے…..وہاں کوئی دس گیارہ روز پروگرام چلتے رہے…..انور عزیز بہت خوش آواز اور پنجابی کلام بڑے خوب صورت انداز میں پڑھتے….میں بھی ان کے کچھ گنگنا لیتا…..یوں ہم “سنتوبنتو قوال”کے نام سے مشہور ہو گئے……خالد چودھری کہنے لگے یار عجیب اتفاق ہوا کہ ابھی آپ کے فون سے پہلے میں نے خواب دیکھا کہ ائیر پورٹ کے انٹرنیشنل ڈیپارچر لائونج میں کھڑا ہوں….عباس اطہر بریف کیس پکڑے کہیں جا رہے ہیں…..میں نے کہا کہ شاہ جی ٹائی ٹھیک کر لیں….کہنے لگے آپ ہی کردو یار…..پھر کسی ٹی وی سٹوڈیو کے باہر کھڑا ہوں…اندر سے آواز آتی ہے کہ آجائیں پروگرام شروع ہونے والا ہے …کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں انور عزیز کے ساتھ خالد حسن واشنگٹن والے نظر آتے ہیں….انور عزیز مجھے اپنے ساتھ والی کرسی پر بیٹھنے کا کہتے ہیں کہ آنکھ کھل گئی……میں نے کہا کہ یہ آپ کی اپنے دوستوں سے محبت کی طرف اشارہ ہے…..
مولانا غیاث الدین نے اپنے سیاسی رفیق کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے مرشد سید علی حسین شاہ رح انور عزیز کو اپنے ساتھ حج پر لے کر گئے…..یہ شاہ صاحب کے ساتھ ان کے قرب کی گواہی ہے…..ایک دفعہ مخالفین خرم دستگیر کے ابا جی غلام دستگیر کو لے آئے تو انور عزیز سید علی حسین کو بلا لائے اور کہا کہ تمہارے پاس گوجرانوالہ کے پہلوان ہیں تو میرے پاس روحانیت کے بادشاہ ہیں….پھر پیر صاحب انور عزیز کو پیار سے اپنا” سیاسی پہلوان” کہتے تھے…. مولانا نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انور عزیز نے سرگودھا میں اپنی زمین اپنے بیٹے کو بیچ دی اور وہ رقم کئی غریب اور یتیم بچیوں کی شادی پر خرچ کر دی………
خاکسار کی انور عزیز صاحب سے پہلی ملاقات کئی سال پہلے ہوئی جب اپنے دوست “قبلہ “کے چچا کے ساتھ ان کی والدہ کی وفات پر تعزیت کے لئے جانا ہوا…..گرمیوں کا موسم تھا….فاتحہ کے بعد آم لے آئے اور کہا امب کھائو جی….دوسری ملاقات چار سال پہلے شکرگڑھ کے درویش پنجابی شاعر جناب بشیر کمال کی کتاب “دھرتی انبر تارے “کی تقریب رونمائی پر ہوئی….لاہور سے عالمی شہرت یافتہ پنجابی شاعر بابا نجمی اور سنئیر کالم نویس جناب خالد منہاس بھی ساتھ تھے….انور عزیز پنجابی کے بڑے قدردان تھے….امریکہ میں پڑھے اور بیاہے گئے مگر منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولنے کے بجائے فخر سے پنجابی بولتے…..اس تقریب میں بھی وہ سٹیج کے بجائے سامنے کرسیوں پر بیٹھے….بابا نجمی کو ہاتھ جوڑ کر سلام کیا…..بشیر کمال کو خراج تحسین پیش کیا….اسلام آباد میں مقیم پنجابی کے سیوک جناب مسافر لودھی سے ماضی کی “چھیڑ چھاڑ “پر معافی مانگی……پوری تقریب میں ہمہ تن گوش رہے….میں نے اظہار خیال کے دوران انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب خالد چودھری اور مولانا غیاث الدین سے دوستی کے باعث ہم بھی آپ کے قدردان ہیں…. آپ کے دوست عباس اطہر صاحب نے لکھا تھا کہ انور عزیز بڑا آدمی تھا مگر “برادری ازم ” کے بکھیڑوں میں الجھے شکرگڑھ کی پگڈنڈیوں میں کھوکر رہ گیا…انہوں نے آپ بارے کہا تھا:

میں دریاواں دا ہانی ساں
ترنے پے گئے کھال نی مائے

شاہ جی بھی نہ رہے اور انور عزیز بھی چلے گئے……سب نے اپنی اپنی باری پر جانا ہے….. شکرگڑھ والوں نے بابا جی کو پورے اعزاز کے ساتھ سفر آخرت پر روانہ کیا….لاہور سے اسلام آباد ،جس نے بھی سنا،ان کو محبت سے یاد کیا……کسی کو اچھائیوں کے ساتھ یاد کرنا بھی ایصال ثواب ہے…..حق مغفرت کرے…عجب آزاد مرد تھا…..!!!