تاریک گھر اور روشن دل

لینہ حاشر

کہانیاں حقیقت کی شکل میں سامنے آئیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے۔ یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ انسان کہلانے والی مخلوق میں انسانیت شاذ و نادر ہی دکھائی دیتی ہے۔ آج کی کہانی البتہ انسانیت والے انسان کی ہے اور غضب یہ ہے کہ سچی ہے۔

یہ قصہ دور دراز کے ایک گاؤں کے ایک لڑکے کا ہے جس کا نام آپ علی فرض کر لیں۔ علی سولہ سترہ برس کا نہایت ہی کھلنڈرا، لا ابالی اور ضدی شخصیت کا مالک تھا۔ بہت ہی نڈر۔ جس بات کی ٹھان لیتا اس کو کر کے دم لیتا۔ جس کام سے اس کو منع کیا جاتا اس کا کرنا اس پر لازم ہو جاتا۔

پیار، محبت، مار، پیٹ، غصہ، جبر سب اس کی بے باکی کے آگے ہار جاتے۔ لیکن ذہانت کی کمی نہ تھی۔ کلاس میں اول درجہ لاتا۔ کھیل کے میدان میں بھی کافی حوصلہ افزا کارکردگی رہتی۔ کھیل کا جنون اتنا کہ آس پاس کے شہروں میں اکثر میچ کھیلنے جاتا۔ کرکٹ کی دیوانگی کچھ آمدنی کا ذریعہ بنی۔ آج سے کوئی سترہ برس پہلے اس کی جیب میں رقم نے جگہ بنانا شروع کر دی۔ کچھ نوٹ میچ جیت کر حاصل کرتا۔ کبھی والدین سے ٹیوشن کی فیس میں اضافے کے حیلے سے جیب گرم کرتا۔ کبھی فیس کی رقم گم ہو جانے کا بہانہ کام آتا۔ کبھی باپ کے بٹوے سے ایک دو نوٹ نکال لیتا۔ رات گئے تک دوستوں کے ساتھ مٹر گشتی کرتا۔ اس کے گھر والوں کو اس کی دوستیاں ایک آنکھ نہ بھاتیں پر اس کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔

گھر کے اخراجات زمینوں کی آمدن سے پورے ہوتے تھے۔ نہ ہی گھر میں تہی دستی تھی نہ ہی دولت کی فراوانی۔ لیکن ہر طرح کے اللے تللوں سے مکمل پرہیز ضرور تھا اور وہ بھی اس حد تک کہ ٹھنڈی بوتل بھی عیاشی گردانی جاتی۔ لیکن علی کے لچھن ہی اور تھے۔ گھر کے قریب کریانے کی دکان سے روانہ چٹور پائی معمول تھا۔ وہ دکان کے باہر کھڑے ہو کر اپنے من پسند مشروب سے حلق تر کرتے ہوئے اکثر اپنی آنکھیں موند لیتا۔ گھونٹ گھونٹ لے کر اس کا مزا اپنے اندر اتارتا چلا جاتا۔ دوستوں کے ساتھ من پسند چیزیں کھاتا۔ یاروں کا یار تھا اس لیے اکثر اس کے دوست اس کے ساتھ ہی ہوتے۔ والد صاحب کے بٹوے سے نکالے جانے والے پیسوں سے بسکٹ کا پیکٹ لے کر گلی کے آوارہ کتوں کو کھلا کر بہت خوش ہوتا۔ کوئی بیمار یا زخمی جانور دکھتا تو اس کی مرہم پٹی بھی کر ڈالتا۔ اکثر ان کو اٹھا کر گھر بھی لے جاتا۔

گھر والے چیختے چلاتے رہ جاتے مگر وہ کہاں کسی کی سنتا۔ جیسے ہی رقم جیب میں آتی وہ خرچ کرنے دوڑتا۔ شروع شروع میں دکان میں آنے کا مقصد صرف جیب میں رکھی رقم کو اڑانا ہوتا۔ پھر ایک آواز گریہ نے اس کو دکان کی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ یہ آواز اکثر دکان کے سامنے والے گھر سے اس کی سماعت سے ٹکراتی۔ اس ہی تجسس کی وجہ سے دکان دار ساجد سے دوستی کر ڈالی۔ دوست اور باتیں بنانا اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ دکاندار، رکشے والا، پوسٹ مین، استاد، مولوی صاحب اور ہم جماعت سب کے سجن بیلی تھے۔ کیا چھوٹا کیا بڑا سب اس کے سنگی ساتھی کہلاتے تھے۔ عمر کی قید کبھی بھی اس رشتے میں نہیں رکھی۔

دکان پر روز کے آنے جانے سے ساجد سے کافی بے تکلفی ہو گئی۔ علی دکان کے سامنے والے گھر سے آنے والی دل خراش آوازوں کا سبب جاننا چاہتا تھا۔ تجسس کا مرض اس کی جڑوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ کریدنے کی عادت سے اس کو معلوم ہوا کہ یہ آواز ایک عمر رسیدہ شخص کی ہے۔ جو اس گھر میں اکیلا رہتا ہے۔ چچا رحمت کے نام سے اس کو سارا محلہ پکارتا ہے۔ اس کی شریک حیات جوانی میں ہی اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔ ایک اولاد نرینہ تھی جس کی تعلیم کے لیے اس نے دن رات ایک کیے ۔ اولاد نے پیروں پر کھڑے ہوتے ہی صرف لا تعلقی کا تعلق قائم رکھا۔ ایک بیماری کی وجہ سے رحمت چچا کی ٹانگ کاٹ کر اس کے جسم سے الگ کر دی گئی۔ ضعیفی اور معذوری کی وجہ سے اب وہ کوئی کام نہیں کر پاتا تھا۔ اس کی زندگی محلے والوں کی ہمدردی اور خیرات پر بسر ہوتی۔ جس دن علی کو یہ مکمل کہانی معلوم ہوئی تو وہ خاموش سا ہو گیا۔ اس دن دکان سے کچھ کھایا بھی نہیں اور رخصت ہوتے ہوئے روایتی گرم جوشی کا مظاہرہ بھی کرنا بھول گیا۔

اس چند ہی دن بعد علی اور ساجد صبح صبح دکان کے باہر ملے۔ علی نے کچھ دیر بعد لاہور کے لیے گاڑی پکڑنی تھی جہاں کالج میں اس کا داخلہ ہو گیا تھا۔ ساجد نے لاہور کا نام سنتے ہی اسے بتایا کہ چچا رحمت کا بیٹا بھی لاہور میں ہی رہتا ہے۔ علی نے بہت بیتابی سے چچا کے بیٹے کا پتہ مانگا۔ ساجد کو ایسا لگا جیسے وہ پتہ معلوم کرنا اس کے لیے کالج کے داخلے سے بھی اہم تھا۔ خیر دوست کو گلے لگا کر رخصت کیا۔

اس کے بعد کی کہانی میں اچانک کوئی موڑ نہیں ہے۔ علی رخصت ہوا تو بہت عرصے تک نہیں لوٹا۔ یہ عرصہ کئی برس کا تھا۔ ان برسوں میں علی لاہور کا ہو رہا۔ پہلے تو گھر والے خرچہ بھیجتے رہے پھر علی نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھانی شروع کر دی اور شرطیہ مقابلوں میں کرکٹ کھیل کر اپنے اخراجات پورے کرنا شروع کر دیے۔ گھر والوں سے اس نے خرچہ لینا بند کر دیا۔ اس کے والدین ایک دو ماہ بعد اس سے ملنے چلے جاتے۔ آنے جانے کا سفر بہت تھا اس لیے اس کا گاؤں چکر نہیں لگتا تھا۔

بہت برس گزر گئے تو علی نے اپنے گاؤں میں قدم رکھا۔ اتنے برسوں کے باوجود گاؤں ویسا ہی پایا جیسا چھوڑ کر گیا۔ گھر سامان رکھ کر ساجد کے پاس جا پہنچا۔ ادھر ادھر کی کچھ باتوں کے بعد ساجد نے چچا رحمت کا ذکر چھیڑ دیا۔ وہ اس بات پر خوش تھا کہ چچا کی چیخ و پکار اب سنائی نہیں دیتی کیونکہ اس کے بیٹے کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو چلا ہے۔ ہر ماہ مناسب خرچے کا منی آرڈر رحمت چاچا کو مل جاتا ہے۔ چچا منی آرڈر کی رسید پر لکھے ایڈریس کو گھنٹوں چومتا اور ہاتھ اٹھا کر اپنی بیٹے کے لیے دعائیں کرتا ہے۔ باپ اور بیٹے کی ملاقات ان کاغذ کے ٹکڑوں پر ہوتی۔ اور رحمت چچا اس ہی ملاقات پر شاد ہو جاتے ہیں۔ لیکن بیٹا کبھی ملاقات کے لیے نہیں آیا۔ ساجد بولتا چلا گیا کہ اس رقم سے ہی بزرگوار نے چودہ انچ کا ٹی وی قسطوں پر لے لیا ہے۔ جو گھٹنوں چلتا رہتا ہے۔

جس کی وجہ سے بچوں کا آنا جانا چچا رحمت کے گھر لگا رہتا ہے۔

گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ کچھ اور دوستوں کی آمد ہوئی۔ سب دوستوں نے برسوں سے بند اپنی اپنی باتوں کی پٹاری کھولی۔ اور بات کا رخ کسی اور طرف مڑ گیا۔

چند روز بعد ہی علی واپس لاہور چلا گیا کیونکہ اب اس کی مستقل نوکری بھی وہیں تھی۔ کہانی میں اب پانچ برس کا وقفہ ہے۔ علی ایک اچھی جاب پر ہے۔ لیکن گاؤں نہیں آتا۔ اب پانچ برس بعد لوٹا ہے۔ گاؤں میں قدم رکھتے ہی پرانے دوست اور گاؤں کے مستقل پوسٹ مین افضل سے ملاقات ہوئی۔ وہ اس کو گھسیٹتے چائے کے کھوکھے تک لے آئے۔ باتیں کرتے کرتے افضل نے اپنا تھیلا کھولا اور تین منی آرڈر علی کے ہاتھ میں تھما دیے۔

”اب اس کی ضرورت نہیں رہی“ افضل نے ایک ہاتھ علی کے کندھے پر رکھ کر کہا۔

”دو ماہ ہو گئے چچا رحمت کے انتقال کو“ اس انجان سے رشتے کے ٹوٹ جانے پر علی رنجیدہ دل لیے کچھ لمحے بیٹھا رہا۔ پھر میز پر رکھے منی آرڈر اٹھائے اور کسی اور چچا رحمت کی تلاش میں نکل پڑا۔

———–https://www.humsub.com.pk/359824/leena-hashir-48/————