بلوچ کا جینا جنجال

عزیز سنگھور

روزنامہ آزادی، کوئٹہ

موجودہ حکومت مکران میں ترقی و خوشحالی کا نغمہ گنگنا رہی ہے۔ ترقیاتی پیکج کے نام پر یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ جنوبی بلوچستان ریجن کے عوام کی تقدیر بدل جائے گی. جنوبی بلوچستان کیلئے ترقیاتی پیکیج وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا ویژن ہے.ترقیاتی پیکیج میں سڑکیں، ڈیمز اور زراعت کے منصوبے بھی شامل ہیں. اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان 13 نومبر کو تربت کے دورہ پر آئیں گے. اور ان منصوبوں کے سنگ بنیاد رکھیں گے۔ جبکہ دوسری جانب مکران کے ضلع کیچ میں تعلیم دشمن پالیسیوں کا نفاذ جاری ہے۔
بلوچستان ریزیڈنشل کالجز (بی آرسیز) کے ملازمین کی معطلی اور ضلع کیچ کے114اساتذہ کی غیر قانونی بنیادوں پر برطرفی موجودہ حکومت کی تعلیم دشمن پالسیوں کا تسلسل ہے ۔
بی آر سیز بلوچستان کا وہ ادارہ ہے‘ جو اپنی معیاری تعلیم کی وجہ سے بلوچستان میں تعلیم کو فروغ دے رہا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ انتظامیہ نے اساتذہ کرام اور دیگر ملازمین کے الاؤنس کو 2015 سے مکمل طور پر بند کردیا ہے۔ اس اقدام کے باعث اساتذہ کرام 2020 سے اپنی تمام اضافی ڈیوٹیز سے دستبردار ہوگئے۔
احتجاج کرنے پر حکومت نے بی آر سیز کے انتہائی قابل سینئر اساتذہ کو معطل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ جو انتہائی شرمناک اقدام ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت ایک کٹھ پتلی اورنااہل حکومت ہے۔ جس کا ہر اقدام تعلیم دشمن ہے۔
جبکہ دوسری جانب ضلع کیچ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 114اساتذہ کو جبری طورپر برطرف کیا گیاجو کہ آئین وقانون کے تمام تقاضوں کو روند ڈالتا ہے۔ ایک سو چودہ اساتذہ کی برطرفی کی وجہ سے ضلع کیچ کے تقریباً 60 اسکولز بند ہوگئے۔ متعلقہ بند اسکولز سنگل ٹیچر پرمشتمل تھے۔ جہاں ایک ٹیچر پورے اسکول کا نظام چلاتا تھا۔ یہ اسکولز ضلع کیچ کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں قائم ہیں۔ جن میں کولواہ، پیداراک، مند، دشت، تمپ اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ضلع کیچ میں سات سو کے قریب اسکولز قائم ہیں۔ ان سات سو اسکولوں میں 200 کے قریب سنگل ٹیچر اسکولز ہیں۔ ان میں سے 60 سنگل ٹیچر اسکولوں کے بند ہونے کی وجہ اساتذہ کی برطرفی ہے۔ 16 ماہ قبل ضلع کیچ سے 114 سرکاری ٹیچرز کو برطرف کردیا گیا۔ جن میں 65 کے قریب خواتین ٹیچرز شامل ہیں۔ اس بلاوجہ برطرفی نے بلوچستان کے پسماندہ ضلع کیچ کے تعلیمی نظام کو ہلاکر رکھ دیا۔ تعلیمی ادارے بند ہونا شروع ہوگئے۔ سینکڑوں بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہوگئے۔ ایسے فیصلے کرنے سے قبل منفی نتائج کو نہیں دیکھا گیا جبکہ پورے ضلع کے تمام اسکولز میں اساتذہ کی کمی ہے۔ کیونکہ 2015 سے اب تک ٹیچرز کی بھرتی نہیں ہوئی ہے۔ جبکہ اس وقت 370 کے قریب اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ اوپر سے 114 سرکاری ٹیچرز کو برطرف کرنا تعلیم دشمن فیصلہ تھا اور یہ فیصلہ عجلت میں کیا گیا۔
گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کیچ کے صدر اکبر علی اکبر کے مطابق محکمہ تعلیم بلوچستان کے حکام نے اساتذہ کے بارے میں تفتیش وانکوائری کیے بغیر ایک سو چودہ اساتذہ کی ایک دن اور دو دن کی غیرحاضری کو جوازبناکرغیرحاضری کی فہرست مرتب کی ،برطرفی سے قبل انکوائری اورپوچھ گچھ کئے بغیرڈائریکٹ ملازمت سے برطرفی کا عمل غیرقانونی اقدام ہے۔ جبکہ عجلت اوربغیرانکوائری کی حد یہ ہے کہ دو ٹیچرزانتقال اوردوریٹائرڈ ہوچکے ہیں ،ان کانام بھی طویل غیرحاضری لسٹ میں شامل کرکے انہیں برطرف کردیا گیا۔ اس بات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ فہرست کتنی عجلت اور لاپروائی سے بنائی گئی۔ جس میں مرنے والوں اور ریٹائرڈ ہونے والوں کو بھی برطرف کردیا گیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے بھی برطرف اساتذہ نے تربت کے دورے کے موقع پر ملاقات کی اور جبری بر طرفی کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ وزیراعلی نے انہیں بحال کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ لیکن صد افسوس کہ ان کی یقین دہانی بھی اثرنہ دکھاسکی۔ کیونکہ بلوچستان میں بیوروکریسی بہت مضبوط ہے۔ وہ کسی کو جوابدے نہیں ہے۔ ان کی اپنی من مانیاں عروج پر ہیں۔ جو ان کی مرضی ہوتی ہے وہ کرکے دکھاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ یا وزرا بیوروکریسی کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔
تربت میں احتجاج کرنے کے بعد ناجائز برطرف ہونے والے ٹیچرز انصاف کی تلاش میں بلوچستان کے درالحکومت کوئٹہ پہنچ گئے۔ اس امید کے ساتھ شائد ان کی فریاد سنی جائے۔ کوئٹہ پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ جہاں وہ اپنی نوکری کی بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ احتجاج میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک ہیں۔ جن میں بیشتر خواتین اور بچوں کی حالت بگڑ گی ہے ۔ ان کی صحت خراب ہونے کی دو وجوہات سامنے آرہی ہیں ایک وجہ بھوک ہڑتال ہے اور دوسری وجہ سردی ہے۔ تربت ایک گرم ترین اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ جبکہ کوئٹہ ایک سرد ترین علاقہ ہے اور ویسے بھی موسم سرما چل رہا ہے۔ سردی سے وہ بیمار پڑ رہے ہیں۔ برطرف اساتذہ کا کہنا ہے کہ اب وہ اپنی جان یہی دینگے۔ واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان کے گھر کے چولہے بجھ چکے ہیں۔ رمضان شریف سے لیکر عید بھی سادگی میں منائی ۔ ہر طرف تنگ دستی اور غربت جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ حکومت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ وہ بے یار و مدد گار ہیں۔
جبکہ دوسری جانب موجودہ حکومت جنوبی بلوچستان کے نام پر ترقیاتی پیکج کا اعلان کرنے جارہی ہے۔ اس سلسلے میں تربت میں گہماگہمی کا سلسلہ جاری ہے۔ بڑے بڑے دعوے کئے جارہے ہیں۔ تقدیر بدلنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ حکومت کا یہ دوغلہ پن سمجھ سے باہر ہے۔ ایک طرف وہ تعلیم دشمن پالیسیاں نافذ کررہی ہیں۔ جس کی وجہ سے مکران میں تعلیمی فقدان میں اضافہ ہورہا ہے۔ بچے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں ان کی تعلیم متاثر ہورہی ہے۔
سیاسی حلقوں نے جنوبی بلوچستان کو ایک سیاسی اصطلاح قراردے کر اس کو ترقی کے نام پر بلوچستان کو دولخت کرنے کا اقدام قراردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ترقی علاقے کے لوگوں کے لئے نہیں ہوگی۔ بلکہ یہ ترقی نانظر آنے والی مخلوق کے لئے ہورہی ہے۔ جہاں جہاں سڑکیں، پانی فراہمی کی اسکیمیں، بجلی اور دیگر منصوبے بن رہے ہیں وہاں مستقبل میں ایک پوشیدہ بستیاں قائم ہونگی۔ جو عوام کو آج نظر نہیں آرہی ہیں۔ جب یہ سارا انفراسٹریکچر بن جائے گا۔ تب یہ بستیاں آباد ہونا شروع ہوجائیں گی ۔ یہ ایسی ترقی ہوگی جو آج گوادر پورٹ کی طرح ہے۔ جس کی لگام کوئٹہ کے بجائے اسلام آباد کے پاس ہے۔ گوادر شہر میں داخل ہونے کے لئے ہر مقامی افراد کو شناخت کے نام پر روکا جاتا ہے۔ جبکہ دیگر کو سلامی دی جاتی ہے۔ ایسی ترقی بلوچ قوم کو ہر گز قبول نہیں ہوگی۔ جنوبی بلوچستان کی اصطلاح کے پس منظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وگرنہ مستقبل میں بلوچ قوم کی تشخص کو خطرہ لاحق ہوگا۔