ہے کوئی جو انہیں سمجھائے۔۔۔۔؟

کچھ عرصے سے ملک میں آٹے کے بحران کی خبریں منظر عام پر آئی ہیں، آٹے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں تو وفاقی حکومت نے گندم باہر سے امپورٹ کرنی شروع کردی۔وفاقی حکومت نے تمام صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ آٹے کی قیمتوں پر کنٹرول کرے تاکہ عوام کو آٹا سستے داموں میسر ہوسکے۔سندھ حکومت نے اس ضمن میں سب سے پہلے آٹے کی قیمت 41.75 روپے رکھی جبکہ اوپن مارکیٹ میں آٹا 70 روپے فی کلو فروخت ہورہا تھا۔سندھ حکومت کی جانب سے آٹے کی قیمت مقرر کرنے کے بعد فلور ملز والے سرکاری نرخ پر آٹا فروخت کرنے کے پابند بن گئے ۔
حال ہی میں آئندہ سیزن کے لیے وفاقی حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 1650 روپے فی من رکھ دی، جبکہ سندھ حکومت نے اس کے برعکس 2000 فی من( چالیس کلو گرام )مقرر کیا۔گندم کی امدادی قیمت 2000 مقرر کرنے کا جواز دیتے ہوئے سندھ حکومت نے بتایا کہ جب ہم باہر سے منگائی جانی والی گندم 5000 روپے فی 100 کلو گرام قیمت ادا کررہے ہیں تو یہی 5000 روپے فی 100 کلو گرام (یعنی 2000 فی چالیس کلو گرام )اپنے کاشتکاروں کو کیوں نہیں دے رہے ہیں ۔؟؟؟ باہر سے منگوائی جانے والی گندم کا معیار ہمارے ملکی گندم سے کئی گنا زیادہ غیر معیاری ہے.۔ہم اپنی معیاری گندم کی قیمت اپنے کاشتکاروں کو کم دیکر باہر سے مہنگی گندم کیوں منگارہے ہیں؟؟ باہر سے منگوائی گئی گندم کے برابر کی قیمت اگر یہاں کے مقامی کاشتکاروں کو دینگے تو ملک میں بہت زیادہ گندم کاشت ہوگی اور بلیک مارکیٹ پر بہت فرق پڑے گا کیونکہ جب ڈیمانڈ سے زیادہ سپلائی دستیاب ہوگی تو قیمتیں کم رہیں گی۔سندھ حکومت کے اس موقف کے برخلاف ہمارے وزیراعظم صاحب ڈٹ گئے ہیں کہ ہم ہر حال میں 1650 فی من دینگے اس سے زیادہ قیمت نہیں بڑہائینگے۔سندھ حکومت کی جانب سے کاشتکاروں کے لیے 5000 فی 100 کلوگرام کا نرخ رکھا گیا ہے جس میں سندھ حکومت 1300 فی من سبسڈی دیکر عوام کو کم قیمت پر آٹا فراہم کرے گی ۔سندھ حکومت کا سب سےبڑا نقاد میں ہوں، سندھ میں کرپشن اور گورننس کے اشوز پر سب سے زیادہ تنقید میں ہی کرتا ہوں لیکن سندھ سرکار کے اس فیصلے کو عوام دوست، کاشتکار دوست سمجھتا ہوں ،جبکہ وفاقی حکومت کی پالیسی پر حیران ہوں کہ کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ہمارے بھولے بھالے وزیراعظم صاحب کو اتنا سمجھادے کہ بیرونی ممالک سے گندم منگاکر ملکی سرمایہ باہر بھیجنا کونسی عقلمندی ہے؟؟ ایک طرف کہا جارہا ہے کہ امپورٹ کم کرکے ملکی کرنسی باہر جانے نہیں دینگے تو دوسری طرف جان بوجھ کر اس طرح کے فیصلے کیے جارہے ہیں جس سے ملکی سرمایہ تو باہر جائے گا اور ساتھ میں زرعی شعبے کو بھی نقصان ہوگا۔ملک میں زرعی شعبے کو جس طرح سے نظر انداز کیا جارہا ہے ملک کیسے ترقی کرے گا؟؟ اگر گندم کی قیمت سندھ حکومت کی طرح 2000 ہزار فی من رکھی جائے تو زیادہ سے زیادہ کاشتکار گندم کی فصل کاشت کریں گے جس سے ایک طرف ملکی ضروریات پوری ہونگی تو دوسری جانب گندم ایکسپورٹ بھی کرسکتے ہیں، جس سے ملک میں باہر سے سرمایہ آئے گا اور ہمارے کسان بھی خوشحال ہونگے۔ملک میں زرعی شعبے کی طرف اگر مکمل طور توجہ دی جائے تو یہ شعبہ بھی ایکسپورٹ کے ذریعے ترقی کا سبب بن سکتا ہے۔جب صنعتکاروں کے مسائل کے لیے کاروباری حضرات سے فیڈ بیک لیا جاتا ہے اور کنسٹرکشن کمپنی کے فروغ کے لیے بلڈرز اور ڈویلپرز سے میٹنگز کرکے ان کی بات کو اولیت دیتے ہوئے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں تو زرعی شعبے کے معاملے پر کاشتکاروں، زمینداروں کے نمائندوں سے کیوں میٹنگز کرکے ان کی بات کو اولیت دیکر اس طرح کی پالیسی بنائی جائے جس سے ملک میں زرعی شعبہ پروان چڑھ سکے ۔ویسے تو وفاقی کابینہ میں کافی قابل لوگ موجود ہیں پتا نہیں وہ اس اہم معاملے میں کیوں خاموش ہیں؟!! اور ہمارے عقل کل کپتان کو کوئی سمجھائے کہ خدا کے واسطے کسی کا کہنا مان لیا کریں ہر جگہ اور ہر وقت عقل کل بن جانا مناسب نہیں ہوتا ۔۔Mansoor Mugheri.karachi۔۔۔