جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ بچے ”عمومی“ جبکہ کسی نہ کسی معذوری یا کمزوری کا شکار بچے ”خصوصی“ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں

نبیلہ چوہدری، لاہور

فکر معاش اور گھر داری کے جھمیلوں سے کچھ وقت چرا کر ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ ہی جائیں تو سیاسی اکھاڑے کی اکھاڑ پچھاڑ کے علاوہ اگر کچھ دکھائی دیتا ہے تو وہ ہے معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کی داستان۔ ڈرامہ ہو، خبرنامہ یا پھر کوئی مذاکرہ، ہر جگہ معاشی اور معاشرتی تفریق کی بازگشت سنائی جاتی ہے۔ شعبہ تعلیم اور نفسیات کے ایک طالبعلم کے طور پر اکثر اوقات مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ امتیازی سلوک تو ایک بچے کی زندگی میں بہت ابتدائی زندگی سے شامل ہو جاتا ہے۔

جیسے ہی ایک بچہ سکول جانے کے قابل ہوتا ہے، اس کے مستقبل میں ترقی کے مواقع کا تعین کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارا پیارا وطن ایک عجیب طرح کی تفریق کا شکار ہے۔ امیر کے بچے کے لیے اعلٰی تعلیم یافتہ استاد، بہترین سہولیات سے آراستہ سکول اور انگریزی تعلیم کے شاندار مواقع موجود ہیں۔ متوسط طبقہ کے بچوں کے لیے نجی سکولوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں مہنگے سکولوں کے تحت چلنے والے درمیانہ درجے کے سکول بھی شامل ہیں۔ معاشی طور پر کم وسائل رکھنے والے خاندانوں کے بچوں کے لیے سرکاری سکول یا گلی محلے میں کھلے ہوئے پرائیویٹ سکول۔

اسکے علاوہ اپنے بچوں کو دینی اصولوں کے مطابق تعلیم فراہم کرنے کے خواہاں والدین کے لیے روایتی طور پر دینی مدارس تو موجود تھے ہی، لیکن اب اس میں بھی جدید خطوط پر دینی تعلیم دینے کے لیے مہنگے سکول بھی اپنی خدمات سرانجام دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ ادارے دینی اور جدید علوم کو باہم ملا کر بچوں کو جدید دور کے چیلنجز کا سامنا کرنے اور اچھا مسلمان بننے کی تربیت دے رہے ہیں۔

ہوتا یہ ہے کہ والدین اپنی استطاعت کے مطابق اپنے بچوں کے لیے تعلیمی سہولیات خرید لیتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اپنے وسائل کے مطابق اپنے بچوں کے مستقبل میں سرمایہ کاری کر لیتے ہیں۔ بہت افسوس کا مقام ہے کہ تعلیم جو ایک بنیادی حق ہے، اب اس کے معیار کا تعین بھی والدین کی معاشی استطاعت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اچھی تعلیم معاشی طور پر مستحکم طبقے کا حق ہے کیونکہ وہ ایک ”خصوصی طبقہ“ سے تعلق رکھتے ہیں اور عوام کے لیے ”عمومی“ درمیانہ درجہ کے سکول ہی کافی ہیں۔

خصوصی اور عمومی کی تفریق صرف معاشی اور معاشرتی عوامل تک محدود نہیں۔ ایک اور امتیاز، جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کی بنیاد پر بھی برتا جاتا ہے۔ لیکن اس میں ”خصوصی“ اور ”عمومی“ کی تخصیص الٹ ہو جاتی ہے۔ جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ بچے ”عمومی“ جبکہ کسی نہ کسی معذوری یا کمزوری کا شکار بچے ”خصوصی“ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

اگر ہم بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ خصوصی بچوں کے لیے بنائے گئے خصوصی تعلیم کے ادارے بھی صرف ایسے بچوں کو داخلہ دیتے ہیں جو ٹوائلٹ ٹرینڈ ہوں، اپنی سیٹ پر آرام سے بیٹھ سکیں اور اپنی بنیادی ضروریات کے لیے کسی پر انحصار نہ کرتے ہوں۔ یعنی جو ادارے معذوری سے متاثرہ بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے، وہ اس مخصوص آبادی میں سے صرف بہتر اور کم مسائل کا شکار بچوں کے لیے اپنے دروازے کھول پاتے ہیں۔ تخصیص در تخصیص کا ایک اندھا کنواں ہے جس میں تعلیم فراہم کرنے کے مقاصد کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

عمومی اور خصوصی اداروں کی تخصیص کی جڑیں ہمارے معاشرے میں بہت گہری ہو چکی ہیں۔ ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو صرف بہترین طلبہ کے لیے بنے ہیں اور چھان کر صرف بہترین دماغوں کو ہی اپنے تعلیم کے سمندر سے فیض یاب ہونے کا موقع دیتے ہیں۔ اس طرح کی تعلیم آج تک انڈسٹریل ماڈل کے تحت جاب مارکیٹ کے لیے بہترین ورکرز تیار کرنے کا فرض ادا کر رہی ہے۔ جو اچھا ورکر بننے کی قابلیت رکھتے نظر نہیں آتے ان کو ریجیکٹ کر دیا جاتا ہے۔ گویا طلباء نہ ہوئے فیکٹری کا خام مال ہو گئے۔

سکول جو معاشرے نے اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے لیے تشکیل دیے تھے، اب تمام بچوں کو تعلیم دینے سے قاصر ہیں۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں، کتنے تعلیمی ادارے ہیں جو ہر بچے کے معاشی، معاشرتی پس منظر، اور اس کی قابلیت یا معذوری سے قطع نظر اس کو معیاری تعلیم دینے کے لیے تیار ہوں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب بچپن ہی سے ہمارے بچے ایک ”تفریق“ کے مائنڈ سیٹ میں رہتے ہوئے پروان چڑھتے ہیں، تو ہم بڑا ہونے پر ہم ان سے یہ امید کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ اتحاد، مساوات اور انصاف کا پرچار کریں گے۔ حال ہی میں حکومت وقت نے ”یکساں قومی نصاب“ کا اعلان کیا۔ اس کے اغراض و مقاصد اور اس کے فوائد و نقصانات پر یقیناً مختلف آراء ہو سکتی ہیں۔ لیکن سیاسی وابستگی سے قطع نظر، اگر لوگوں کی طرف سے اس کے خلاف دیے گئے دلائل کا مطالعہ کیا جائے۔ تو اندازہ ہوتا ہے کہ زمینی حقائق کے برعکس ”خصوصی“ طبقے کے لیے بنائے گئے ”خصوصی“ تعلیمی اداروں کا زعم اور احساس تفاخر اس ناپسندیدگی کی زیادہ بڑی وجہ ہے۔

ملک کی ترقی کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ تمام بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس لیے یا تو تمام تعلیمی ادارے خصوصی ہونے چاہیے جہاں ہر طالبعلم کو خصوصی توجہ دی جائے، یا تمام تعلیمی ادارے عمومی ہونے چاہیے جہاں کسی بھی بنیاد پر بچوں میں امتیاز نہ برتا جائے۔

——–from—humsub—pages