ایک دیہاتی کبھی کبھی وجد. میں آ کر کہتا کہ کاش میرے نبی دنیا میں موجود ہوتے

تحریر =*ملک سخاوت علی. * ۔
———————

میں اپنی لاڈلی بھینس سے دودھ نکالتا اور مکئی کی روٹی دودھ میں ڈال کر اپنے نبی کو کھلاتا، حضور سیر ہو کر کھانا کھاتے تو میرا کلیجہ ٹھنڈا ہو جاتا۔

ہماری مائیں روتے بچوں کو آج بھی جب چپ کرواتی ہیں تو زبان سے کہتی ہیں ۔۔ صدقے یا رسول اللہ!

ہمارے غریب عمر بھر پائی پائی جوڑتے ہیں۔ انکی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ سرکار کا روضہ دیکھنا ہے،
اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کے اپنی محبت کی تکمیل کرتے ہیں۔

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ دیہاتی عورتیں جب مدینہ جاتی ہیں تو ان کے لبوں پر ایک ہی سوال ہوتا ہے
سوہنڑے دا روضہ کتھے اے؟

ہمارے ایک بے ہوش شرابی شاعر کو ہوش اس وقت آ جاتا ہے جب کوئی بے ادبی سے نامِ محمد لیتا ہے ، وہ کپکپاتے ہونٹوں اور برستی آنکھوں کیساتھ یہ کہہ کر اس محفل سے اٹھ جاتا ہے کہ
میرے دامن میں نبی کے سوا کچھ نہیں، مجھ سے میرا یہ آخری سہارا نہ چھینو
۔۔۔
یار یہ دنیا کیوں نہیں سمجھتی کہ اس قوم کا نبی سے تعلق کیسا ہے؟

اتنی وابستگی حضور کیساتھ دنیا کو دکھائی کیوں نہیں دیتی؟

ہمارے کلیجوں میں اس وقت آگ بھڑک اٹھتی ہے جب کوئی زبان دراز آمنہ کے لعل پر بات کرتا ہے !
ہمارے آنکھیں روتی ہیں جب کوئی حضور کی ذات پر نکتہ چینی کرتا ہے۔ ہمارے جسموں میں عشق مصطفیٰ ہے، ہم زندہ فقط اسی تعلق کی وجہ سے ہیں۔

دنیا کا امن احترام مصطفیٰ سے وابستہ ہے!
میرے نبی کا احترام کیجئے دنیا میں سکون رہے گا ورنہ عرب ہو کہ عجم، گورا ہو یا کالا! وہ اسم محمد پہ سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔

حضور کی ذات آخری حد ہے۔ اس حد کو دنیا کراس نہ کرے۔
صلی اللہ علیہ وسلم۔ ❤️

ملی سخاوت علی دعا گو