پہلا پڑاؤ بطور سیشن جج— لودھراں

یادوں کے جھروکوں سے

عابد حسین قریشی

(16)

پہلا پڑاؤ بطور سیشن جج— لودھراں

پوشاکِ زندگی تجھے سیتے سنوارتے
سو چھید ہو گئے رفوگر کے ہاتھ میں

غالباً 25 اگست 2007 میں بطور ASJ 1st لاہور میں موسم گرما کی تعطیلات میں ڈیوٹی جج کے فرائض انجام دے رہا تھا کہ ہمدم دیرینہ چوہدری محمّد دین بسرا جو کہ اُس وقت ہائی کورٹ میں سیشن جج اسٹبلشمنٹ تھے کا فون آیا کہ میری پوسٹنگ بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لودھراں ہو گئی ہے اور پھر ادھر سے ہوتے ہوئے آرڈر لے جانا۔ میں ہائی کورٹ چلا گیا۔ بسرا صاحب نے کہا کہ آج جب آپکا پوسٹنگ آرڈر ہو رہا تھا تو چیف جسٹس چوہدری افتخار حسین مرحوم نے کہا کہ میں نے عابد حسین قریشی کو آج تک دیکھا ہی نہ ہے لہٰذا چیف جسٹس صاحب سے مل کر جائن کرنا۔ میں نے اُسی وقت چیف جسٹس صاحب سے ملنے کی کوشش کی جو کامیاب رہی۔ بڑا مزیدار ڈائیلاگ ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ “حالیہ AC میٹنگ میں clear ہونے والوں میں تمہارا آخری نمبر تھا۔ مگر میں آپکو ضلع میں لگا رہا ہوں۔ ہماری پہلی روبرو ملاقات آج ہو رہی ہے۔ مگر میں آپ کے بارے میں کافی معلومات رکھتا ہوں۔ لودھراں میں تگڑے ہو کر کام کرنا۔ ہمارے سیشن جج کریمنل جسٹس کوارڈینیشن میٹنگ بھی ٹھیک نہیں کر پاتے اور کسی خوف اور ڈر کو خاطر میں نہ لانا۔” میں نے چیف جسٹس صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اُنکی ہدایات پر عمل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے اجازت چاہی۔ مگر اس ملاقات کا بڑا گہرا تاثر میرے قلب و نظر پر محیط رہا۔ اگلے تین روز بعد میں لودھراں چارج لینے کے لیے روانہ ہوا۔

ضلع لودھراں کسی زمانے میں ضلع ملتان کی تحصیل تھی۔ ملتان ضلع بھی کیا شان رکھتا تھا کہ اس میں سے ایک نہیں بلکہ تین نئے ڈسٹرکٹ نکلے جن میں لودھراں، خانیوال اور وہاڑی شامل ہیں۔ اور یہ اولیاء کی سرزمین ضلع ملتان آج بھی اپنی ایک الگ شناخت و پہچان کے ساتھ پنجاب کے بڑے قد آور اضلاع میں شمار ہوتا ہے۔ لودھراں ملتان سے دور اور بہاولپور شہر کے بالکل قریب واقع ہے۔ صرف درمیان میں دریائے ستلج ہے اور پندرہ بیس منٹ کی مسافت پر لودھراں ضلع کہروڑ پکا اور دنیا پور تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ سیاسی لحاظ سے یہ کسی وقت سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا حلقہ انتخاب ہوا کرتا تھا۔ پھر یہاں سے بلوچ برادری اکثریتی ہونے کی بنا پر اُنکے نمائندے کامیاب ہوتے رہے۔ بعد ازاں جہانگیر ترین بھی اسی حلقہ سے قسمت آزمائی کرتے رہے۔ کہروڑ پکا اور لودھراں کے حلقہ سے سابق وزیر خارجہ صدیق کانجو اور پھر اُنکے پسران بھی کامیاب ہوتے رہے۔ بہرحال یہ گندم، کاٹن اور گنّا کا علاقہ ہے۔ زرعی طور پر بہترین زمین اور پُرامن لوگوں کا مسکن ہے۔

جس دن بطور سیشن جج جائن کرنا تھا لاہور سے روانہ ہوا تو خیال یہ تھا کہ آج کا دن جج صاحبان اور بار کے عہدیداران سے ملاقاتوں میں اچھا گزر جائے گا۔ مگر جب مشکل کام ہی آپکے حصّہ میں آتے ہوں تو اس میں عہدے matter نہیں کرتے۔ جب اپنی عدالت کے باہر گاڑی سے اُترا تو عدالت کے چاروں اطرف وکلاء کا ایک جمّ غفیر دیکھا۔ ایک خوش کن خیال آیا کہ شاید یہ میرے استقبال کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ مگر جب ریڈر عدالت نے بتایا کہ ایک مقدمہ قتل میں قبل از گرفتاری کی درخواست ضمانت لیّہ بار کے ایک وکیل صاحب سائل/ملزم ہیں اور یہ درخواست ضمانت لیّہ سیشن کورٹ سے ملتان سیشن کورٹ ہوتی ہوئی لودھراں میں ہائی کورٹ کی ڈائریکشن کے تابع آئی ہے کہ اسکا فیصلہ دو ہفتوں میں کرنا ہے اور اب شاید دو تین روز کی معیاد باقی ہے۔ اور یہ وکلاء کا جمّ غفیر آپکے استقبال کے لیے نہیں بلکہ اپنے وکیل بھائی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اکٹھا ہوا ہے۔ تو اپنے ہوش کچھ ٹھکانے لگے اور سوچا یہ کام کرتے ہوئے 25 سال گزر گئے ہیں۔ ہمیشہ سب سے مشکل اور ٹیڑھا کیس ہی اپنے حصّہ میں آیا۔ خیر اللہ تعالٰی کی ذات پر بھروسہ کر کے عدالت میں جا بیٹھا۔ توقع کے عین مطابق سائل کو

غیر حاضر پایا اور ایک درخواست حاضری معافی کے ساتھ میڈیکل سرٹیفیکیٹ آ گئی۔ بغیر بحث سُنے دو دن کا التوا دیا۔ ساتھ سردار ارشد مرحوم ایڈوکیٹ کونسل سائل جو کہ بڑے ہی نفیس الطبع مگر فوجداری قانون پر پوری دسترس رکھنے والے اور ان کے ساتھ صدر بار ملک ربنواز جتیال جو بڑے دھیمے مزاج کے وضع دار انسان ہیں سے مخاطب ہو کر کہا کہ آئند تاریخ پر ہر صورت بحث ہو گی اور میں یہ توقع رکھوں گا کہ کونسل سائل اپنے کسی ایک ساتھی کے ساتھ پیش ہونگے کہ اسطرح کا اجتماع وکلاء کچھ منفی تاثر دے رہا ہے۔


صدر بار نے یقین دہانی کرائی کہ ایسا ہی ہو گا۔ یہ 2007 کی وکلاء تحریک کے عروج کا زمانہ تھا۔ بہرحال دو دن بعد بڑے ہی پُر سکون ماحول میں صرف پانچ منٹ میں درخواست کا فیصلہ کر دیا گیا کہ FIR میں سائل کو جو رول منسوب کیا گیا تھا ہم نے سردار ارشد ایڈوکیٹ سے پوچھا کیا اسطرح کی قبل از گرفتاری ضمانت آج تک کسی عدالت نے منظور کی ہے تو انہوں نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے

کہ سائل کو اپنی بے گناہی تفتیش میں ثابت کرنا ہے اور بظاہراً ضمانت قبل از گرفتاری کا کیس نہ بنتا ہے اس لیے انہوں نے درخواست ضمانت واپس لیتے ہوئے سائل کو سرنڈر کر دیا اور یہ کہا کہ چونکہ سائل ایک سینئر وکیل ہے اور لیّہ یہاں سے کافی دور ہے اس لیے اسے ہتھ کڑی لگائے بغیر پولیس وین میں لے جانے کا حکم دیا جائے۔ اس پر کونسل مستغیث نے

بھی کوئی اعتراض نہ کیا لہٰذا I.O کو حکم دیا گیا کہ سائل کو تحویل میں لے لے اور سائل کو لیّہ تک بغیر ہتھ کڑی کے لے جایا جائے۔ کمال کی بات یہ تھی کہ دونوں فریقوں کے وکلاء اور صدر بار چیمبر میں بعد از فیصلہ درخواست آئے اور میرا شکریہ ادا کیا کہ ایک اتنا گھمبیر مسلۂ جو تین اضلاع میں درد سر بنا ہوا تھا نہایت سکون اور خوش اسلوبی سے اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق نبٹا دیا گیا ہے۔

لودھراں بار میں اُس زمانے میں بڑے محنتی اور پروفیشنل وکلاء سول اور فوجداری سائیڈ پر موجود تھے۔ جن میں سے چند سینئر وکلاء کے نام جو یاد رہ گئے اُن میں سردار ارشد مرحوم، مقبول حسین ڈوگر مرحوم، محمّد دین ہاشمی مرحوم، محمّد اسماعیل میو، محمّد شفیع میو، رانا دیوان علی، رانا لیاقت علی، کرم حسین جاوا، مہر محمّد مسعود، راؤ خلیل احمد، سیّد حسین رضوی وغیرہ نمایاں تھے۔ مگر سچی بات تو یہ ہے کہ ساری بار ہی ایک منفرد وضع دار بار تھی۔ لودھراں ایک چھوٹا سا قصبہ نما شہر تھا اور سارے شہر کی رونق، شرافت اور وضع داری کی پہچان ڈاکٹر شیر محمّد اعوان تھے۔

لودھراں کی پوسٹنگ کے دوران مجھے یہ منفرد اعزاد بھی ملا کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر پر نئی تعمیر شدہ جوڈیشل کمپلیکس کی عمارت، کہروڑ پکا میں الگ الگ تعمیر شدہ سول اور سیشن کورٹس کے لیے بلاک اور دنیاپور میں نئی ایڈیشنل سیشن جج کی کورٹس کا افتتاح اور پورے ضلع میں وکلاء چیمبرز کا سنگ بنیاد رکھنے کا شرف ملا۔ میں وہاں اگست 2007 سے اگست 2008 تک رہا۔ ایک بھی قابل ذکر بلکہ معمولی سا بھی کوئی ناخوشگوار واقع کسی جوڈیشل افسر کے ساتھ کسی بھی عدالت میں پیش نہ آیا۔ ضلع لودھراں کے بارے میں میری یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ اُس وقت پنجاب میں یہ سب سے پُرامن خطّہ تھا جہاں بار اور بنچ میں اختلافات نامی کسی چیز کا وجود ہی نہ تھا۔ یہ امن کا جزیرہ- دیگر علاقوں کے برعکس نظام انصاف میں وکلاء تحریک کے نتیجہ میں برپا ہونے والے گہرے اثرات، زمینی حقائق کے مدّوجزر، اور اس نظام سے منعکس ہونے والے منفی اور ناخوشگوار تاثرات سے بلکل پاک اور صاف اور بار اور بنچ کے درمیان انتہائی خوشگوار تعلقات کی سرزمین لودھراں۔ اس میں یقیناً ہمارے جوڈیشل افسران کا بھی رول تھا۔ مگر وہاں کے وکلاء کی تربیت اور اُٹھان اس ماحول کی پیداوار تھی کہ جہاں عدالت میں اونچی آواز میں بات کرنا بھی خلاف ادب سمجھا جاتا تھا۔ اس میں اُس وقت کے صدر ڈسٹرکٹ بار اولاً ملک ربنواز جتیال اور بعد ازاں رانا لیاقت علی خان، ممبر پنجاب بار کونسل موجودہ پراسیکوٹر جنرل رانا عارف کمال نون اور صدر بار دُنیاپور نوجوان، خوش گفتار طارق ندیم ایڈوکیٹ کے کردار کا بڑا اہم حصّہ تھا۔ یہ سبھی لوگ بڑے وضع دار، رکھ رکھاؤ والے تھے اور بات بگڑنے کی نوبت ہی نہیں آنے دیتے تھے۔

قبل ازیں ہمیں سرائیکی بیلٹ میں کام کرنے کا موقع بطور سول جج خیرپور ٹامیوالی مل چکا تھا اور پھر لودھراں کی پوسٹنگ کے دوران ہمارا یہ تصّور بڑا راسخ ہو کر ابھرا کہ جنوبی پنجاب جسے سرائیکی بیلٹ بھی کہتے ہیں کے لوگوں میں عمومی طور پر پُر امن، شیریں لہجہ، برتاؤ اور رویّوں میں عاجزی، نرمی اور انکسار اور رکھ رکھاؤ واضح طور پر جھلکتا ہے۔ میری بڑی خواہش تھی کہ میں سرائیکی زبان سیکھ سکوں مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا مگر جب کسی محفل میں میرے سامنے سرائیکی زبان میں گفتگو ہو رہی ہوتی تو میرے دل و دماغ پر یہ ایک گہرا تاثر چھوڑتی کہ اس سے میٹھی زبان کا ہمارے سنٹرل اور نارتھ پنجاب کے لوگوں کے لیے شاید تصّور بھی ممکن نہ ہے۔ خیرپور میں تعیناتی کے دوران جب ابھی فیملی کورٹس کو پہلی پیشی پر تنسیخ نکاح کے دعوی میں جبری طلاق کا اختیار نہ تھا اور ایسے دعویٰ جات چلنے کے تھوڑے عرصے بعد راضی نامہ کے روشن امکانات ہوتے تھے ابتدائی مصالحت کی کاروائی کراتے ہوئے جب فریقین ایک دوسرے سے سرائیکی زبان میں گفتگو کرتے اور کبھی کبھار آپس میں اُلجھ بھی جاتے تو ان کے سرائیکی میں ادا کیے الفاظ اتنے معنی خیز، اثر انگیز اور دل و روح کو چھو لینے والے ہوتے کہ بیان سے باہر ہے۔

بطور سیشن جج پہلی مرتبہ جیل انسپکشن کا موقع بھی میّسر آیا۔ ضلع لودھراں کے قیدی بہاولپور کے سنٹرل جیل اور بورسٹل جیل میں رکھے جاتے تھے۔ جیل کے اندرونی حالات اور قیدیوں کے اصل مسائل سے آگاہی بھی ہوئی۔ ان دنوں موجودہ آئی۔جی جیل خانہ جات مرزا سلیم بیگ سنٹرل جیل بہاولپور کے سپرٹنڈنٹ تھے اور جیل میں ڈسپلن اور جیل کا نظم و نسق بڑے اچھے طریقے سے چلا رہے تھے۔ ماہانہ کریمنل جسٹس کوارڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں جب یہ گھمبیر صورتحال سامنے آئی کہ اس علاقہ میں rape یا attempt to rape کے بہت سے مقدمات درج ہوتے ہیں۔ جو کافی لمبی چھوڑی تفتیش کے بعد جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔ مگر اس دوران ملزم لمبا عرصہ جیل میں گزار چکا ہوتا ہے۔ کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ میری تجویز پر ہوا کہ زنا کے تمام مقدمات میں DNA ٹیسٹ لازمی کر دیا جائے اور DNA کی رپورٹ آنے تک ملزم کی گرفتاری التوا میں رکھی جائے۔ صرف دو تین ماہ میں ایسے مقدمات کے اندراج میں 70/80 فیصد کمی آ گئی۔ اور صرف genuine cases ہی درج ہوتے رہے۔ اُن دنوں لودھراں میں ہمارے ساتھ شریف النفس مہر عبدالحق جپّہ سینئر سول جج، شعر و شاعری اور کُتب بینی کا گہرا شغف رکھنے والے شاہد محمود اور اپنی جوڈیشل سروس کا آغاز کرنے والے وضع دار مہر عابد حسین اور بڑے دلنواز ثنا خان عتیق بطور ایڈیشنل سیشن جج کام کر رہے تھے۔

لودھراں میں پوسٹنگ کے دوران بطور DRO جنرل الیکشن 2008 بھی کرایا۔ الیکشن سے چند روز قبل بیلٹ پیپرز کی کراچی سے وصولی کے لیے ہم نے ایک سرکاری ٹیم روانہ کی۔ جس میں مزمّل سپرا سول جج نمائندہ DRO اور شکیل احمد اسسٹنٹ کمشنر کہروڑ پکا نمائندہ DCO معہ پولیس اسکارٹ جس میں سات پولیس ملازمین شامل تھے۔ یہ 27 دسمبر 2007 کی شام تھی جب یہ قافلہ کراچی سے صرف 50/60 کلومیٹر پیچھے تھا تو میڈیا پر محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کی افسوسناک خبر بریک ہو گئی جس پر اندرون سندھ شدید ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی اور نیشنل ہائی وے پر چلنے والی ٹریفک سب سے زیادہ متاثر ہوئی اور بڑا نقصان بھی ہوا۔ ہمارا یہ سرکاری قافلہ بھی اسی ہنگامہ آرائی کی زد میں آ گیا۔ پولیس وین تو جنگل کی طرف نکل کر کسی قریبی تھانہ میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئی جبکہ ہمارے یہ دونوں افسران جو AC کی سرکاری گاڑی میں محو سفر تھے موت کو اپنے سامنے رقصاں دیکھ کر بچتے بچاتے قریبی شہر مورو میں کسی دوست کے گھر میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ اگلے روز بڑے ہی مرنجاں مزنج DCO وقار احمد جو ہمارے ساتھ لاہور میں مجسٹریٹ بھی رہ چکے تھے لودھراں کے بڑے پروفیشنل اور رکھ رکھاؤ والے DPO چوہدری منظور سرور کے ساتھ سیشن ہاؤس کے کیمپ آفس میں تشریف لائے اور مجھے بتایا کہ ہمارے یہ دونوں افسران بڑی مشکل میں ہیں۔ ہمیں اُنکو rescue کرنے کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔ میں نے فوری طور پر مزمّل سپرا سے رابطہ کیا۔ اس سے آگے کی کہانی لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ اور اُس وقت میرا حوصلہ جواب دے گیا جب سول جج کے فون میں فائرنگ کی آواز سن رہا تھا۔ اور اس نے بتایا کہ سر شاید آپکے ساتھ ہماری یہ آخری گفتگو ہو گی کہ یہ پورا محلہ شدید ہنگامہ آرائی کی زد میں ہے اور ہر طرف جلاؤ اور گھیراؤ کی آوازیں آ رہی ہیں۔ میں اپنے جذبات کے اظہار سے قاصر ہوں مگر دونوں دوست DCO اور DPO لودھراں اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ اُس رات میں نے کس کس لیول پر رابطہ کر کے اپنے افسران کی جان بچانے کی بھرپور سعی کی۔ میں نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ، رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ، چیف سیکرٹری پنجاب، ہوم سیکرٹری پنجاب، آرمی، رینجرز اور نجانے کہاں کہاں دستک دی۔ بلآخر رات گئے جناب شیخ رؤف صاحب جو اُس وقت خوش قسمتی سے رجسٹرار ہائی کورٹ تھے اُنہوں نے آئی۔جی سندھ میجر ضیادالحسن جن کے ساتھ اُنکی ذاتی شناسائی بھی تھی سے رابطہ کیا۔ IG کے سٹاف افسر نے مجھ سے متذکرہ افسران کی location لی اور غالباً سات آٹھ پولیس کی گاڑیوں بشمول بکتر بند گاڑیوں کے ہمارے افسران کو وہاں سے باحفاظت نکالا جو کہ ایک معجزہ سے کم نہ تھا۔ پھر قریبی پولیس لائن میں پہنچایا جہاں پھر حالات مخدوش ہو گئے اور پھر آرمی کے ایک بڑے دستہ نے ہمارے ان افسران کو صادق آباد کراس کرایا۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر ان دونوں افسران کو داد دینی چاہیے کہ جب الیکشن 18 فروری تک ملتوی ہو گئےاور دوبارہ بیلٹ پیپرز کراچی سے لانے مطلوب تھے۔ تو پھر انہی دونوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کیا۔ مگر اس دفعہ ہم نے انہیں بائی ائر بھجوایا۔
—————–
عابد حسین قریشی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ریٹائرڈ)