مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید

بادشاہ خان

————————————–
فتنوں کے دور میں علماء تیزی سے اپنے رب کی بارہ گاہ میں حاضر ہورہے ہیں، اللہ ہماری حالت پر رحم فرمائے، شہر کراچی علماء کا مقتل ثابت ہواہے، صرف چند برسوں میں جید علماء کی شہادت گاہ شہر قائد بنا، اور اب ڈاکٹر عادل خان کی شہادت نے مزیددل سوگوار کردیا ہے، حضرت سے ہماری ملاقتیں بھائی طلحہ رحمانی کی وساطت سے ہوتی رہی، ڈاکٹر صاحب ایک فعال اور دوستوں کی خبر رکھنے والے انسان تھے،آخری ملاقت جامعہ بنوری ٹاون میں ہونی والی وفاق المدارس کی تقریب میں ہوئی، آج بھی ان کی تقریر دماغ میں گونج رہی ہے،ان کا مضبوط موقف،مدلال جوابات سب ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں، اور دوسری جانب ان کی شہادت کی خبر نے پورے دینی طبقے کو پریشان کردیا ہے،ڈاکٹر حبیب اللہ مختار، مولانا یوسف لدھیانوی، مفتی نظام الدین شامزی،مفتی جمیل خان تک بے شمار علماء کو شہید کردیا گیا،اور یہ سلسلہ جاری ہے، اور حکمران ہیں،کہ ٹس سے مس نہیں ہورہے،صرف مذمتی بیان ایک آدھا ٹکر اور نیوز چینل پر خبر کے بعد خاموشی، حکمران بھی چپ اور علماء بھی شہادت کا سوچ کر خاموش، لیکن سوال یہ ہے کہ شہادتیں جس مقصد کے لئے دی گئی،کیا وہ مسائل ختم ہوئے؟ بقول ڈاکٹر عادل خان شہید کے کہ اللہ اپنے پسندیدہ لوگوں کو بلارہا ہے، لیکن کیا ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کے نقش قدم اور مشن پر چل رہے ہیں؟بہت اہم سوال ہے، اللہ علماء، عوام اور حکمرانوں کو سمجھنے کی توفیق دے،اللہ ڈاکٹر صاحب کی شہادت کو قبول فرمائے،آمین۔

خبر سامنے ہے کہ حضرت مولانا ڈاکٹر عادل خان صاحب دارالعلوم کراچی سے واپس آتے ہوئے شاہ فیصل کالونی شمع سینٹر کے مقام پر اپنے بیٹے عمیر کو سامان لینے بھیجا خود گاڑی میں ڈرائیورکے ہمراہ تھے، موٹر سائیکل سوار ملزمان نے فائرنگ کی اور آپ کوایک گولی گردن پر لگی اور ایک گولی پیٹ پر لگی ہسپتال لیجاتے ہوئے آپ خالق حقیقی سے جاملے۔ نامعلوم موٹر سائیکل سوار نامعلوم منزل کی جانب نکل گئے؟خیربات دوسری طرف نکل جائے گی، مولانا ڈاکٹر عادل خان شہید 1957ء کو شیخ الحدیث مولاناسلیم اللہ خان (آفریدی پٹھان) کے گھر پیدا ہوئے، 1973ء میں دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ سے ہی سند فراغت حاصل کی، کراچی یونیورسٹی سے 1976 میں بی اے ہیومن سائنس، 1978ء میں ایم اے عربی اور 1992ء میں اسلامک کلچر میں پی ایچ ڈی کی۔ڈاکٹر عادل خان1980 سے(اردو انگریزی اور عربی) میں چھپنے والے رسالے الفاروق کے شہادت تک ایڈیٹر رہے۔ تحریک سواد اعظم میں اپنے والد محترم مولانا سلیم اللہ خان کے شانہ بشانہ رہے،1986ئسے 2010 تک جامعہ فاروقیہ کراچی کے سیکرٹری جنرل رہے اور اسی دوران آپ نے اپنے والد سے مل کر جامعہ کے بہت سے تعلیمی وتعمیری منصوبوں کی تکمیل کی۔پھر کچھ عرصہ امریکا میں مقیم رہے اور جہاں ایک بڑا اسلامی سینٹرقائم کیا۔ملیشیا کولالمپور کی مشہور یونیورسٹی میں 2010ء سے 2018 تک کلیۃ معارف الوحی اور انسانی علوم میں بطور پروفیسر خدمات انجام دی۔ 2018 ریسرچ وتصنیف وتحقیق میں ملیشیاۂائیر ایجوکیشن کی جانب سے فائف اسٹار رینکنگ ایوارڈ سے نوازا گیا، یہ ایوارڈآپ کو ملیشیا کے صدر کے ہاتھوں دیا گیا۔ وفاق المدارس المدارس العرابیہ کے مرکزی کمیٹی کے سینئر رکن اور وفاق المدارس کی مالیات نصابی اور دستوری کمیٹی جیسی بہت سی اہم کمیٹیوں کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ مولانا ڈاکٹر عادل خان کو اردو انگلش اور عربی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا وہ بہترین معلم، خطیب اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ علوم القرآن، علوم الحدیث، تعارف اسلام، اسلامی دنیا، اسلامی معاشیات، اخلاقیات فقہی مسائل آیات احکام القرآن اور احکام فی الاحادیث، مقاصد شریعہ، تاریخ اسلام، خاص کر تاریخ پاکستان اور اردو اور عربی ادب جیسے موضوعات پر دلچسپی رکھتے تھے۔ مولانا عادل خان 6 سال تک جامعہ فاروقیہ کے دارالافتاء کے رئیس بھی رہے۔ حضرت کئی کتابوں کے مصنف تھے،ملائشیا میں بھی ان کی متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں، انہوں نے ملائشیا یونیورسٹی میں ایم اے کا کورس بھی مرتب کیا تھا، دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک کا سفر کر چکے ہیں۔ان کی معروف تصنیفات میں،اسلامی جمہوریہ پاکستان (جلد اول)،اسلام اور تصور کائنات،اسلام اور اخلاقیات،اکیسویں صدی میں اسلام،المقالات المختارۃ فی الکتاب والسنہ،اسلام اینڈ نالج،اسلام اور ایتھکس کے علاوہ ملائنشیا یونیورسٹی کے نصاب کی تین کتابوں میں کو آتھر بھی ہیں جن میں نالج اینڈسولائزیشن ان اسلام،ایتھک اینڈ فقہ فار ایوری باڈی،دی اسلامک ورڈ ویوشامل ہیں۔


ڈاکٹر عادل خان کے پسماندگان میں مولانا مفتی محمد انس عادل، مولانا عمیر، مولانا زبیر، مولانا حسن، ایک بیٹی،، ایک بیوہ، دو بھائی مولانا عبیداللہ خالد اور عبدالرحمن سوگوار چھوڑا،دوبیٹے مولانا زبیر اور مولانا حسن اور ایک بیٹی ملیشیا میں مقیم ہیں۔ 2017 ء میں والد مولانا سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے انتقال کے بعد پاکستان واپس آئے دینی درسگاہ جامعہ فاروقیہ کی دونوں شاخوں کا نظم ونسق سنبھالا اور شیخ الحدیث کے عہدے پر فائز ہوئے، بعدازاں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل اپنے بھائی مولانا عبیداللہ خالد کے حوالے کرکے اپنی تمام تر توجہ جامعہ فاروقیہ حب چوکی پر مرکوز کی جس کو وہ ایک جدید خالص عربی پر مبنی تعلیمی ادارہ اور یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے، آپ جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کے سرپرست اور جامعہ فاروقیہ حب چوکی کے مہتمم تھے۔ان کا نمازہ جنازہ جامعہ فاروقیہ حب چوکی میں ہزاروں سوگوران نے ادا کیا،سوال وہی ہے کہ کیا صحابہ کرام کی ناموس عظمت اور تقدس کے لئے کھڑے ہونے والے اور ڈٹ جانے والے علماء کی قربانیاں ضائع تو نہیں جائیں گی؟ کیا حکمران اس ملک میں اسے قوانین لاگو کرینگے کہ جس سے فرقہ واریت کا خاتمہ ہو،؟ کسی کی دل آزاری نہ ہو؟ یا ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد ایک طویل خاموشی۔۔چند تعزیتی کانفرنسیں اور مشن جاری رکھنے کے دعوے، اللہ اپنے محبوب افراد کو بلا رہا ہے، مسئلہ میرا اور آپ کا ہے،ہم کہاں اور کس کے ساتھ کھڑے ہیں، مرنا تو ایک دن ہے،سوال رضا الہی اور کامیابی کے پیمانوں کا ہے،ہمارا پیمانہ کیا ہے،ذرا سوچیں۔۔۔۔۔۔