ایس ڈی جیز: اقوام متحدہ کا عالمی ترقیاتی ایجنڈا 2030 ( SDG s )

ایس ڈی جیز: اقوام متحدہ کا عالمی ترقیاتی ایجنڈا 2030

انسانی تاریخ میں پہلی بار، پوری نسل انسانی کے لیے ایک مشترکہ ترقیاتی ایجنڈا طے پایا ہے۔ یہ ایجنڈا “پائیدار ترقی کے اہداف” یا Sustainable Development Goals (SDGs) پر مشتمل ہے، جسے عام طور پر “ایس ڈی جیز” کہا جاتا ہے۔ یہ وہ سترہ بین الاقوامی اہداف ہیں جنہیں 2015 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا تھا اور انہیں 2030 تک حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ یہ اہداف “ہزارہ ترقیاتی اہداف” (Millennium Development Goals) کا تسلسل ہیں، لیکن ان کا دائرہ کار اور جامعیت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔

ایس ڈی جیز کا تعارف اور تاریخی پس منظر

ایس ڈی جیز درحقیقت انسانیت کے سامنے موجود سب سے بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک جامع روڈ میپ ہے۔ 25 ستمبر 2015 کو، اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک نے “ٹرانسفارمنگ آور ورلڈ: دی 2030 ایجنڈا فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ” کے عنوان سے ایک دستاویز منظور کی، جس کے مرکز میں یہ سترہ اہداف ہیں۔ یہ ایجنڈا اس احساس کی عکاسی کرتا ہے کہ دنیا کی ترقی، خوشحالی، امن اور استحکام کے لیے صرف معاشی ترقی ہی کافی نہیں بلکہ سماجی انصاف، ماحولیاتی تحفظ اور اقتصادی استحکام کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ناگزیر ہے۔

ایس ڈی جیز کے سترہ اہداف (17 SDGs)

ایس ڈی جیز کے سترہ اہداف ایک دوسرے سے گہرے مربوط ہیں۔ ایک ہدف کی کامیابی دوسرے ہدف پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ اہداف درج ذیل ہیں:

غربت کا خاتمہ: ہر قسم کی غربت، ہر جگہ کا خاتمہ۔

بھوک کا خاتمہ: بھوک کا خاتمہ، غذائی تحفظ اور بہتر غذائیت کو یقینی بنانا اور پائیدار زراعت کو فروغ دینا۔

اچھی صحت و تندرستی: ہر عمر کے لوگوں کے لیے صحت مند زندگی کو یقینی بنانا اور ان کی بہبود کو فروغ دینا۔

معیاری تعلیم: شامل اور مساویانہ معیاری تعلیم کو یقینی بنانا اور سب کے لیے زندگی بھر سیکھنے کے مواقعے فروغ دینا۔

صنفی مساوات: صنفی مساوات حاصل کرنا اور تمام خواتین و لڑکیوں کو بااختیار بنانا۔

صاف پانی اور صفائی: سب کے لیے پانی اور صفائی کی دستیابی اور پائیدار انتظام کو یقینی بنانا۔

سستی و صاف توانائی: سب کے لیے قابل اعتماد، پائیدار اور جدید توانائی تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا۔

اچھی روزگار اور معاشی ترقی: مسلسل، جامع اور پائیدار معاشی ترقی، مکمل اور پیداواری روزگار اور سب کے لیے معقول کام کو فروغ دینا۔

صنعت، اختراع اور بنیادی ڈھانچہ: مضبوط بنیادی ڈھانچہ، جامع اور پائیدار صنعت کاری اور اختراع کو فروغ دینا۔

عدم مساوات میں کمی: ممالک کے درمیان اور اندرونی عدم مساوات کو کم کرنا۔

پائیدار شہر اور کمیونٹیز: شہروں اور انسانی بستیوں کو شامل، محفوظ، مضبوط اور پائیدار بنانا۔

ذمہ دارانہ استعمال اور پیداوار: پائیدار استعمال اور پیداوار کے نمونوں کو یقینی بنانا۔

موسمیاتی کارروائی: موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی کرنا۔

آبی حیات کی حفاظت: سمندروں، بحیروں اور سمندری وسائل کا تحفظ اور ان کا پائیدار استعمال۔

زمینی حیات: زمینی ماحولیاتی نظام کے تحفظ، بحالی اور پائیدار استعمال کو فروغ دینا، جنگلات کے پائیدار انتظام، بنجر زمینوں کو بہتر بنانے اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کو روکنا۔

امن، انصاف اور مضبوط ادارے: امن اور جامع معاشروں کو فروغ دینا، سب کے لیے انصاف تک رسائی کو یقینی بنانا اور ہر سطح پر مؤثر، جوابدہ اور جامع اداروں کی تعمیر۔

اہداف کے لیے شراکت داری: عمل درآمد کے ذرائع کو مضبوط بنانا اور پائیدار ترقی کے لیے عالمی شراکت داری کو ازسر نو زندہ کرنا۔

ایس ڈی جیز کیوں اہم ہیں؟

ایس ڈی جیز کی اہمیت ان کی جامعیت اور عالمگیریت میں پنہاں ہے۔

عالمگیریت: یہ صرف ترقی پذیر ممالک کے لیے نہیں ہیں، بلکہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی، عدم مساوات، اور صحت کے بحران جیسے مسائل کسی ایک ملک کی سرحدوں میں مقید نہیں رہتے۔

باہمی ربط: یہ اہداف الگ تھلگ نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، غربت کا خاتمہ (ہدف 1) بھوک کے خاتمہ (ہدف 2)، صحت (ہدف 3) اور تعلیم (ہدف 4) سے جڑا ہوا ہے۔ اچھی صحت کے لیے صاف پانی (ہدف 6) ضروری ہے۔

“کسی کو پیچھے نہ چھوڑنا”: یہ ایس ڈی جیز کا بنیادی نعرہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی کے فوائد ہر انسان تک، چاہے اس کی عمر، جنس، نسل، مذہب یا معاشی حیثیت کچھ بھی ہو، پہنچنے چاہئیں۔

ماحولیاتی تحفظ: پہلی بار، معاشی اور سماجی ترقی کے اہداف کو ماحولیاتی تحفظ کے اہداف کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے۔ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ بغیر ماحول کو بچائے، حقیقی ترقی ممکن نہیں۔

پاکستان اور ایس ڈی جیز

پاکستان نے ایس ڈی جیز کے نفاذ کے لیے فوری اور پرعزم اقدامات کیے ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے اپریل 2016 میں ایس ڈی جیز کو اپنے قومی ترقیاتی ایجنڈے میں شامل کر لیا۔ حکومت پاکستان نے “ایس ڈی جیز سپورٹ یونٹ” قائم کیا ہے جو پالیسی ہم آہنگی، ڈیٹا مینجمنٹ اور ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ رابطے کا کام کرتا ہے۔

پاکستان کے سامنے ایس ڈی جیز حاصل کرنے میں متعدد چیلنجز ہیں، جن میں آبادی میں تیزی سے اضافہ، وسائل کی کمی، موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات (جیسے سیلاب اور خشک سالی)، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مسائل، اور معاشی عدم استحکام شامل ہیں۔ تاہم، ان چیلنجز کے باوجود، پاکستان نے کئی شعبوں میں پیش رفت کی ہے۔ مثال کے طور پر، بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کی آواز مؤثر رہی ہے۔

نوجوان نسل اور ایس ڈی جیز

نوجوان ایس ڈی جیز کے نفاذ میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ نہ صرف اس کے مستقبل کے وارث ہیں بلکہ اس وقت بھی تبدیلی کے سب سے بڑے محرک ہیں۔ دنیا بھر کے نوجوان سماجی کاروبار (سوشل انٹرپرینرشپ) شروع کر رہے ہیں، ماحولیاتی تحفظ کی مہمات چلا رہے ہیں، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اختراعات لا رہے ہیں اور اپنی آواز بلند کر کے حکومتوں کو جوابدہ بنا رہے ہیں۔ ہر نوجوان، چاہے وہ اپنے گھر، اسکول، یونیورسٹی یا کام کی جگہ پر ہو، وہاں پائیداری کے اصولوں کو اپنا کر ان اہداف کی تکمیل میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔

خلاصہ اور مستقبل کے امکانات

ایس ڈی جیز محض ایک بین الحکومتی معاہدہ نہیں ہے۔ یہ انسانیت کے مستقبل کے لیے ایک اجتماعی وژن، ایک اخلاقی فرض اور ایک عملی روڈ میپ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ترقی کا مطلب صرف دولت کا حصول نہیں، بلکہ انصاف، امن، صحت اور ایک صاف ستھرے ماحول میں ایک باعزت زندگی ہے۔

2030 کا ہدف قریب آ رہا ہے اور کورونا وائرس جیسے عالمی بحرانوں نے اس سفر کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ تاہم، یہ ہمیں مایوس ہونے کی بجائے زیادہ پرعزم ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایس ڈی جیز کی کامیابی کے لیے حکومتوں، نجی شعبے، سول سوسائٹی، تعلیمی اداروں اور ہر فرد کے درمیان مضبوط شراکت داری کی ضرورت ہے۔

آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایس ڈی جیز ہمارے سیارے اور اس پر بسنے والے ہر انسان کے لیے ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کا واحد اور آخری موقع ہے۔ یہ ہماری اجتماعی دانش، ہماری ہمت اور ہمارے عزم کا امتحان ہے۔ اس موقع کو ضائع نہیں ہونے دیا جا سکتا۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک پائیدار، پرامن اور خوشحال دنیا چھوڑ کر جائیں۔ ایس ڈی جیز کا ایجنڈا اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا راستہ دکھاتا ہے