آغاز
کوک اسٹوڈیو کا آغاز 2008 میں پاکستان میں ہوا۔ یہ آئیڈیا بنیادی طور پر “کوکا کولا” کمپنی کا تھا، جس نے برانڈ پروموشن کے لیے موسیقی کو ایک ذریعہ بنایا۔ اس میوزک پروگرام کی اولین پروڈیوسر روحیل حیات تھے، جو کہ “وائٹل سائنز” بینڈ کے سابق رکن بھی ہیں۔ روحیل حیات نے کوک اسٹوڈیو کا جو خاکہ تیار کیا، وہ پاکستان کی موسیقی کی تاریخ میں ایک انقلاب ثابت ہوا۔
سیزن 2 تا 6 (2009 – 2013):
روحیل حیات کے زیرِ نگرانی ان سیزنز نے کوک اسٹوڈیو کی بنیاد مضبوط کی۔ ان سیزنز میں “آج جانے کی ضد نہ کرو”، “اللہ ہو”، “تویں میری مین توں تیرا”، اور “جاگے ہونٹ” جیسے لازوال گیت سامنے آئے، جنہوں نے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر دھوم مچائی۔
سیزن 7 تا 9 (2014 – 2016):
===================
اس دور میں اسٹریگس (Strings) بینڈ کو پروڈکشن کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان سیزنز میں بھی کئی یادگار گیت سامنے آئے جیسے “تا جب تک ہے جان”، “آفرین آفرین” (راحت فتح علی خان اور ممتاز مغنیہ مومنہ مستحسن کی آواز میں) جسے یوٹیوب پر کروڑوں ویوز ملے۔
سیزن 10 تا 12 (2017 – 2019):
ان سیزنز میں مختلف پروڈیوسرز نے حصہ لیا، اور نئے فنکاروں کو موقع ملا۔ خاص طور پر نوجوان گلوکاروں کو جو پلیٹ فارم ملا، اس سے پاکستانی موسیقی کو ایک نئی نسل میسر آئی۔
====================

=========
سیزن 13 و 14 (2020 – 2022):
14 (Qar Khan) اس سیزن میں “پسوڑی” نے عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ علی سیٹھی اور شے گل کی یہ پرفارمنس پاکستان کا سب سے وائرل میوزک نمبر بن گئی۔ یہاں تک کہ نیٹ فلکس کے شوز میں بھی اس کا ذکر آیا اور بالی وُڈ فلموں میں بھی اس کے رنگ نظر آئے۔
کوک اسٹوڈیو کے نمایاں پہلو
بین الثقافتی سنگم:
کوک اسٹوڈیو نے مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو یکجا کر کے ایک ایسا میوزک کلچر پیش کیا جو صرف سننے کا نہیں، بلکہ محسوس کرنے کا تجربہ فراہم کرتا ہے۔
نئے فنکاروں کی حوصلہ افزائی:
اس پروگرام نے کئی گمنام آوازوں کو روشنی میں لایا۔ جیسے کہ تنویر افضال، شے گل، علی اکبر، میشا شفیع، اور زوئی وکاجی جیسے فنکاروں کو وسیع سامعین تک رسائی ملی۔
=========


==========================
عالمی سطح پر پذیرائی:
کوک اسٹوڈیو نے صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں موسیقی کے شائقین کو متاثر کیا۔ بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، ایران، ترکی، مشرق وسطیٰ اور حتیٰ کہ مغربی ممالک میں بھی کوک اسٹوڈیو کو سراہا گیا۔
ادبی اور کلاسیکی شعری ورثے کا احیاء:
کوک اسٹوڈیو نے امیر خسرو، بُلھے شاہ، وارث شاہ، غالب، فیض احمد فیض اور دیگر صوفی و کلاسیکی شاعروں کا کلام نئے انداز میں پیش کر کے اردو اور پنجابی شاعری کو دوبارہ زندہ کر دیا۔
===========
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال:
کوک اسٹوڈیو کے پروڈکشن معیار نے ثابت کیا کہ پاکستان میں بھی بین الاقوامی سطح کی موسیقی تیار کی جا سکتی ہے۔ بہترین کیمرا ورک، اعلیٰ درجے کی ساؤنڈ
مکسنگ اور جدید سٹوڈیو ٹیکنالوجی نے اسے ایک ماڈرن اور پرکشش شو میں تبدیل کیا۔
============
کوک اسٹوڈیو کا سماجی اثر
کوک اسٹوڈیو نے نہ صرف موسیقی کو زندہ رکھا بلکہ پاکستانی معاشرے میں ثقافتی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ بلوچ، پشتون، پنجابی، سندھی، سرائیکی، کشمیری اور اردو زبانوں میں گیتوں کی شمولیت نے ثابت کیا کہ پاکستان کی ثقافتی رنگا رنگی ہی اس کی اصل طاقت ہے۔ کوک اسٹوڈیو نے قوم کو ایک آواز میں گانے کا ہنر سکھایا۔
بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں اثرات
پاکستان میں کوک اسٹوڈیو کی کامیابی کے بعد بھارت میں بھی “کوک اسٹوڈیو انڈیا” شروع کیا گیا، تاہم وہ زیادہ دیر تک مقبولیت حاصل نہ کر سکا۔ اس کی ایک وجہ پاکستانی کوک اسٹوڈیو کی تخلیقی گہرائی اور صوفی رنگ تھا، جس کا متبادل بھارتی ورژن میں کم نظر آیا۔ اسی طرح کوک اسٹوڈیو نے جنوبی ایشیا میں میوزک کے معیار کو بلند کرنے میں کردار ادا کیا























