قصہ 16ارب اور نااہلیوں کی داستان کا۔

ن و القلم۔۔۔مدثر قدی


آخرکار وزیر اعلی پنجاب نے محکمہ صحت کا 16ارب روپے کا بجٹ منظور کرہی لیا مگر ہزاروں وعدوں اور لاکھوں نعروں کے باوجود پنجاب کے غریب مریضوں کو ادویات اور ٹیسٹوں کی سہولیات تاحال نہیں مل سکیں اس کی وجہ سیکرٹری صحت علی جان کی نااہلی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آج میں آپ کو نااہلی کی وہ داستان بتانے لگا ہوں جس کو بیان کرتے ہوئے میں خود بھی حیران اور پشیمان ہوں اس کہانی کے نام اور کردار میں نے تبدیل کردیے ہیں مگر یہ کہانی ایک بچے علی کی حقیقی کہانی ہے جس کی عمر 4سال کے قریب ہے اور اس کو گزشتہ دنوں چلڈرن ہسپتال جسے اب بچوں کی بیماریوں کے حوالے سے یونیورسٹی کا درجہ دیا جاچکا ہے وہاں علاج کی غرض سے لایا گیا اسے ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف سے ہاتھ اور پاوٗں ٹیڑھے ہونے کی بیماری تشخیص ہوئی ، عمر کم ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے اس کاآپریشن کرنے سے انکار کردیا مگر کچھ عرصے بعد اس کی بیماری نے شدت اختیار کرلی اور اس کی والدہ اس کو لے کر پھر چلڈرن ہسپتال میں ڈاکٹروں کی منتیں کرنے لگی کہ اس کے بچے کا علاج کیا جائے ڈاکٹروں نے معائنہ کرنے کے بعد ایک موقف اختیار کیا کہ اس کی کمر کے گرد اختیاطی جنگلہ باندھ دیا جائے تاکہ اس کی ریڑھ کی ہڈی مزید ٹیڑھی نہ ہو اور بچہ آسانی سے اپنے روزمرہ کے کام کرسکے یہاں سے ایک جدوجہد شروع ہوئی اس کی وجہ ہسپتال انتظامیہ نے اس غریب ماں سے بچے کے علا ج کا لاکھوں روپیہ مانگ لیا کیونکہ ان کے مطابق محکمہ صحت اس بچے کے علاج کے اخراجات نہیں اٹھا سکتا ۔ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کے 16ارب دینے کے باوجود سیکرٹری ہیلتھ جس نے صوبے کی عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنی ہیں ان کے پاس ایسے ضرورت مند کیسوں کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں اس حالات میں ماں نے بچے کی جان بچانے کے لیے ہاتھ پائوں مارے تو ایک خداترس انسان نے اس بچے کو حفاظتی جنگلہ فراہم کردیا تاکہ اس کا آپریشن ہوسکے مگر کہانی اب شروع ہوئی جب ماں جنگلہ لے کر چلڈرن ہسپتال پہنچی کہ اب شاید اس کا بچہ ٹھیک ہوجائے گا مگر ہسپتال انتظامیہ نے اس سے آپریشن کی مد میں لاکھ روپیہ مانگ لیا کہ آپ یہ رقم جمع کرائیں تاکہ اس بچے کا آپریشن ہو سکے ۔علی کی ماں نے اس پر صحت کارڈ کا حوالہ دیا مگر انتظامیہ نے کہا کہ چلڈرن ہسپتال میں صحت کارڈ نہیں چلتا ،انتظامیہ نے وضاحت کی کہ ان پیسوں سے آپ کے بچے کے لیے ادویات خریدی جائیں گی جو اس کے آپریشن میں ا ستعمال ہوں گی ۔آپ دیکھیں بے حسی کی کیسی داستان ہے کہ حکومت پنجاب اربوں روپیہ صحت کے سیکٹر کو فراہم کررہی ہے مگر دوسری جانب ایسے مریض اور خصوصی طور پر بچے ہیں جن کے علاج پر محکمہ صحت کے آفیسران ایک روپیہ خرچ کرنے کو تیار نہیں کیسا نظام ہے جس میں مریض کے نام پر سیکرٹری صحت اربوں روپیہ تو حکومت سے مانگ لیتا ہے مگر ایک روپیہ بھی مریض کی فلاح پر خرچ نہیں ہوتا مگراس روپے کو بے دریغ کنسلٹنٹس کی تنخواہوں پر خرچ کیا جاتا ہے اور یہ کنسلٹنٹس بھی ایسے ہیں کہ ایک محکمہ سے ریٹائرڈ اور محکمہ صحت میں سیکرٹری کی سفارش سے تعینات کیے جاتے ہیں اب تو واضح قانون بھی بن چکا ہے کہ پنشن یا تنخواہ میں سے ایک چیز ملے گی مگر کیا کہیے جن لوگوں نے اس بات پر عمل درآمد کروانا ہے وہی سب سے پہلے اپنے منظور نظر افراد کو نوازتے ہیں۔ محکمہ صحت کا بے رحم آڈٹ ہوتو ساری تصویر سامنے آجائے گی ۔بات بچے علی کے علاج سے شروع ہوئی اورکہاں تک پہنچی مگر کیا کہیے محکمہ صحت کی 2وزیروں اور ایک مشیر کے ہوتے ہوئے بزرگ ،جوان ،مرد و خواتین سمیت بچے اپنے علاج اور ادویات کے حصول کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں مگر 16ارب ملنے کے باوجود بھی محکمہ صحت

کی حالت نہیں بدلی اس کا واضح ثبوت گزشتہ روز محکمہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر کے نوٹیفیکیشن سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس محکمہ کے سیکرٹری جو پرائمری اینڈ سیکنڈری کے سیکرٹری بھی ہیں وہ ہسپتالوں کی ری ویمپنگ کے بعد ان کا نظام کسی سیٹھ کو نوازنے تلے ہیں جس کے لیے انھوں نے تین دنوں میں وائس چانسلرز،پرنسپلز اور ایم ایس صاحبان سے تجاویز بھی مانگیں ہیں اس نوٹیفیکیشن کے مطابق ہسپتالوں کےتھیٹرز میں آرتھروسکوپی سسٹم، ویڈیو لیپرو سکوپی سسٹم کو پرائیوٹائز کیا جائے گا۔ویڈیو اینڈرالوجی اور ویڈیو اینڈوسکوپی سسٹم کو کنٹریکٹ پر دیا جارہا ہے۔اسی طرح آپریشن تھیٹرز سیٹ میں اوٹی ٹیبل،سیلنگ لائٹ ، اینستھزیا مشین،الیکٹرو سرجیکل یونٹ، پیشنٹ مانیٹر اور سکشن مشین بھی آؤٹ سورس کی جائے گی اوراس سے قبل پیڈیاٹرک اور ریڈیالوجی شعبہ کو بھی آؤٹ سورس کیا جارہا ہے۔اس سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں چاہے وہ اقتدار میں ہوں یاں اختلاف میں ان کی ترجیع عوامی خدمت نہیں اور نہ ہی غریب مریضوں کو سہولیات فراہم کرنا ہے ان کا بنیادی فلسفہ صرف اقتدار میں آنا اور پیسہ کمانا ہے باقی عوام کی خدمت صرف ایک نعرہ ہے اور کیوں نہ ہو عملی طور پر پاکستان مسلم لیگ کے دور اقتدار میں اس نوٹیفیکیشن کا جاری ہونا ، صحت کے نظام کی کارکردگی پر سوال اٹھاتا ہے اس نوٹیفیکیشن کے خلاف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے اپنا ردعمل ظاہر کیا جس کے مطابق انھوں نے پنجاب حکومت کی طرف سے صوبے کے ٹیچنگ ہسپتالوں کے آپریشن تھیٹرز کو آوٹ سورس کرنے کے فیصلے کے خلاف رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے نظام صحت کے خلاف سازش اور عوام دشمنی قرار دیا ہے۔پی ایم اے لاہور کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی اور جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر شاہد شوکت ملک نے پنجاب حکومت کے اس فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری اپنے شہریوں کو صحت کی معیاری۔بہترین اور ارزاں
سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے لیکن حکومت نے اپنی اس آئینی ذمہ داری سے اغماض برتتے ہوئے عوام الناس کو تاجر مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ نے کا فیصلہ کر لیا ہے جسے ڈاکٹرز کمیونٹی کے علاؤہ صحت سے متعلقہ تمام تنظیمیں اور عوام نے مسترد کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے اس غیر آئینی۔غیر قانونی اور غیر اخلاقی فیصلے پر عمل درآمد کے نتیجے میں عوام الناس علاج معالجہ کی سستی اور معیاری سہولیات سے محروم ہو جائیں گے اور موجودہ نظام صحت بھی متاثر ہو گا۔مگر میری نظر میں تو محکمہ صحت تو کب کا متاثر ہوچکا جو 16ارب لینے کے بعد بھی علی جیسے ضرورت مند بچے کے علاج کے لیے پیسے مانگنے پر مجبور ہے جو صرف نااہلیوں کی داستان ہے۔