آزاد کشمیر مضطرب ہے، قوم پرست دوستوں کے ساتھ مکالمہ،

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی،
============


آزاد کشمیر میں عوامی سطح پر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور اس کا ایکشن زیر بحث ہے کہ اس کے سیاسی منظر نامے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ کمیٹی کا آئندہ لائے عمل کیا ہونا چاہیے۔ کمیٹی اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔ غیر سیاسی عوامی مارچ پر کچھ افراد خوش ہیں کہ مطالبات کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے تو دوبارہ احتجاج اور انٹری پوائنٹ پر دھرنا دینے کے اعلان کا کیا جواز ہے۔لیکن “ہنوز دلی دور است” کے مصداق ماحول ابھی بھی آلودہ ہے۔ نوٹیفکیشن کے اجراء کو ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ہوا اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ بجلی کے بل پرانے نرخ پر جاری ہوئے، اسیران ابھی قید میں ہیں بلکہ چار بیاڑ کے اسیران کو بھی شامل کریں تو ان میں اضافہ ہوا۔ مراعات کے نوٹیفکیشن پر ابھی کمیشن قائم ہونا باقی ہے۔ لہذا کوئی وثوق سے پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے اس سارے عمل میں کیا حاصل کیا اور اس کا مستقبل کیا ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے وقت گزارنے کے ساتھ حکمت عملی میں کچھ تبدیلیاں اور اب کے بار آر پار کی منصوبہ بندی کے تحت پانچ پلاٹون نیم فوجی دستوں کی تعیناتی اس مائنڈ سیٹ کی عکاسی ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی عوامی سطح پر جتنی بھی مقبول ہو، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی سے زیادہ مقبول اور مضبوط نہیں اور نہ ہی اس کی قیادت ان دونوں جماعتوں کی قیادت سے زیادہ پختہ کار ہے کہ بھنور میں پھنسی کشتی کو کنارے لگا سکے۔ اتنی مضبوط پارٹیوں

اور پختہ کار قیادت کو زخم چاٹنے کا موقع بھی نہیں ملا تو عوامی ایکشن کمیٹی کتنے وقت تک کتنے ایکشن دیکھا سکتی ہے وقت ہی بتائے گا۔ ماضی کی روایات یہی رہی ہیں کہ سب کچھ برداشت ہے، عوامی طاقت کو یکجا اور یک آواز ہونا برداشت نہیں۔ ماضی کے اسی تجربہ کے باعث یہاں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آنے والا وقت مشکل ہے۔ عوامی لانگ مارچ نوٹیفکیشن کے اجراء پر ختم ہوا تھا اور 29 جون کا لانگ مارچ نوٹیفکیشن منسوخ ہونے پر ختم ہو سکتا ہے۔ پی سی یا ایف سی کی پانچ پلاٹون کی قبل از وقت تعیناتی کے احکامات معمولی اقدام نہیں اور اب کے بار، آر پار کی سوچ کے تحت ریاست کا رویہ مختلف ہو سکتا ہے۔ بظاہر تو یہ نیم فوجی دستے حساس تنصیبات کی حفاظت کریں گے جن میں سب سے زیادہ حساس پاکستان سے آزاد کشمیر میں انٹری پوائنٹ ہیں لہذا کوئی یہ تاثر قائم کرنے کی سوچے بھی نہ کہ کشمیر اور پاکستان سے جدا، جدا ہیں یا جدا ہو سکتے ہیں، احتجاج وہی اچھا ہے جو پرامن اور جس کے اثرات مثبت ہوں۔ بات وہاں تک نہ جانے دی جائے کہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے اسیران کو ٹی وی کی اسکرین پر لوگ دیکھے اور وہ سب کچھ بولیں جو کشمیر اور پاکستان کے عوام سننا نہیں چاتے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کو غور کرنا چاہیے کہ اس کی صفوں میں ایسے لوگ تو نہیں چھپے جو اس کو غلط سمت کی طرف لے جا رہے ہیں۔ غیر ضروری نعرے بلند کر رہے ہیں اور گال گلوچ کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ اگر کو ایسا ہے تو اس کے ساتھ قطعی تعلق کا اعلان ہونا چاہئے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کو اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ اس کا پلیٹ فارم سے خدانخواستہ آزادی کے نشان آزاد کشمیر کے جھنڈے کو لپیٹنے کی سازش تو نہیں ہو رہی یا اس کے لیے عوامی ایکشن کمیٹی استعمال تو نہیں ہو رہی۔ جب سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا ایکشن شروع ہوا، پاکستانی فرنچائز سیاسی اشرافیہ اور قوم پرست آمنے سامنے ہیں۔ یہاں ہی سے خرابی پیدا ہوئی کہ بعض افراد نے عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے اپنی تقریروں میں نازیبا الفاظ ادا کئے اور ناشائستہ نعروں سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا معیار اور جدوجہد کے رنگ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ آزاد کشمیر میں قوم پرستی کے نعرے پر کبھی پابندی نہیں رہی اور نہ تنظیموں پر مگر ہر چیز میزان میں اچھی لگتی ہے۔ تاجر لیڈران کے اتحاد کا بظاہر کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، تو سیاسی تقریروں اور نعروں سے بچنا انہی کی ذمہ داری ہے۔ ان کو سمجھنا چائیے کہ وہ غیر متوقع طور پر عوامی حقوق کی آواز بلند کر کے میدان عمل میں نکلے اور سیاسی اشرافیہ کو چاروں شانے چت کر دیا یہ کیسے ممکن ہے کہ سازشی اور مفاد پرست عناصر خاموش بیٹھے رہیں گے۔ سردار عتیق احمد خان بھی اپنی تانگہ پارٹی کو لے کر میدان میں اترے اور کشمیر بنے گا پاکستان ریلیاں نکالنا شروع کی۔ اسی سلسلے کی ایک ریلی 13 جون کو جولی چیڑ تا راولاکوٹ بری طرح ناکام ہوئی۔ اس سے پہلے بلاول زرداری کی فرنچائز کے چورن کو عوام نے زائد المیعاد کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔ عید الضحٰی سے چند روز قبل چار بیاڑ تراڑ کھیل میں رونما ہونے والا واقعہ افسوس ناک ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے۔ اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر ڈال کر ریاستی طاقت استعمال کرنا اور بھی زیادہ افسوس ناک اور ذمہ داران حکومت کی بھوکلاٹ کا مظہر ہے۔ اس افسوس ناک واقعہ کا جواز وزیر حکومت نے مہیا کیا جس نے سیاحتی کانفرنس میں سیاسی اور مفادی نعرے لگائے۔ مخالفین نے اس کا جواب دیا تو ان کو مارنا شروع کر دیا گیا۔ اس سے تو صاف اندازہ ہو رہا ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت اور کابینہ اراکین ریاست میں نان اسٹیٹ ایکڑ کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ کیا آزاد کشمیر کے وزیر یہ چاتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں بھی مقبوضہ کشمیر کی طرح ولیج کمیٹیاں قائم ہوں جن کو مسلح کیا جائے اور ان کو سیاسی و نظریاتی مخالفین کے کچلنے کا مکمل اختیار ہو۔ چار بیاڑ میں وزیر حکومت کے جتھے کی جانب سے مخالفین پرحملہ مقبوضہ کشمیر کی محلہ کمیٹی کی طرز کا ہی لگتا ہے جن کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ حلقے میں کوئی سر اٹھا کر نہ چلے۔ یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو سول نافرمانی اور باہمی لڑائی کو روکنا مشکل ہو جائے گا یہی را کی خواہش ہے کہ آزاد کشمیر میں بدآمنی اور بدعملی زوروں پر ہو۔ اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمہ دار حکومت اور سیاسی فرنچائز ہی ہوں گی جو عوامی فساد کرا کر یہ تاثر دینا چاتی ہیں کہ عوام ،جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ نہیں ان کے ساتھ ہیں۔اگر ریلیاں عوام کی عدم شرکت کے باعث ناکام ہوتی ہیں یا کسی جگہ تھرڈ اوپشن کا نعرہ لگتا ہے تو ایسا کرنے والے غداری اور را کا ایجنٹ کیسے ہو گئے۔ کشمیریوں کو پاکستان کی حکومتوں سے شکایات ھیں جن کا معقول جواز بھی ہے، خاص طور پر کشمیر پالیسی میں وقتا فوقتا بلا جواز تبدیلیاں اور بین الاقوامی سطح پر موثر طریقے سے نہ اٹھانا۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ وہ ریاست پاکستان کے خلاف ہیں۔ کوئی بھی ہوش مند کشمیری پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ اس کی مضبوطی ترقی اور استحکام کا خواہاں ہے جو تحریک آزادی کشمیر کا پشت بان ہے۔ لیکن کچھ عناصر دانستہ یا نادانستہ نفرتوں اور غلط فہمیوں کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ عوامی لانگ مارچ کے دوران جو افراد گرفتار ہوئے وہ ابھی تک رہا نہیں ہوئے۔ معائدے کے بعد ان کی غیر مشروط رہائی ان کا حق ہے

نہ معلوم اس کو اتنا کیوں طول دیا گیا۔ اخلاص کے ساتھ جو بات طہ ہو گئی تھی وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کی ذمہ داری ہے کہ اس پر عمل درآمد کرے۔ تاکہ آزاد کشمیر کے معاشرے سے اضطراب ختم ہو۔ کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ پیش آیا تو نقصان دونوں جانب کا ہو گا۔ اور زیادہ نقصان ریاست کا ہو گا جس سے عوام دور ہو جائیں گے اس لیے اس مسئلے کو سیاست اور تدبر برداشت اور حکمت عملی سے حل کیا جائے۔راولاکوٹ کے صحت آفزاں مقام تولی پیر کے ایک ریسٹ ہاوس میں سنئیر اور جونئیر قوم پرستوں کے ساتھ کئی گھنٹوں پر مشتمل مکالمہ ہوا۔ آزاد کشمیر کی سیاسی صورت حال، تحریک آزادی کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال پر سوال جواب ہوتے رہے۔ میرا موقف تھا کہ قوم پرستوں کے اخلاص پر تو شک نہیں کیا جا سکتا اور اگر جموں و کشمیر کا کوئی آبرومندانہ حل ہے تو وہ یہی، لیکن اس نظریے اور نعرے کو سب سے زیادہ قوم پرستوں ہی نے بدنام کیا۔ قوم پرست طلباء تنظیموں نے مفاد پرستوں کو قیادت مہیا کی۔ اور ٹولیوں میں تقسیم ہو کر اس تحریک اور جدوجہد کو نقصان پہنچایا۔ آج کی صورت حال میں آزادی کے دو ہی آپشن باقی رہ گئے ہیں تقسیم یا خود مختاری، تقسیم پاکستان اور کشمیریوں کے مفاد میں نہیں خود مختاری کی منزل تک پہنچنے کے لیے راستے کا تعین درست نہیں۔ اس صورت حال میں تحریک آزادی کشمیر کو منتقی انجام تک پہنچانا ہے تو کے ایچ خورشید کا نظریہ اور ریاستی سیاست کی بحالی ضروری ہے لیکن ابھی تک آزاد کشمیر کے عوام کو درست سمت میں رہنمائی نہیں کی جا رہی۔ اس سلسلے میں وسیع پیمانے پر مکالمہ اور بحث ہونا چاہئے۔ میرا یہ بھی موقف تھا کہ نوجوانوں کو کے ایچ خورشید کی سوچ اور نظریہ کا مطالعہ کرنا چاہیے جو فی زمانہ استحکام پاکستان اور کشمیر کی آزادی کا واحد حل ہے۔ 77 سال سے جاری بیانیہ تحریک آزادی کشمیر کو کوئی مدد نہیں دے سکا بلکہ کشمیریوں کو شدید نقصان ہوا، موجودہ صورت حال میں نئے عمرانی معائدے اور نئے بیانیے کی ضرورت ہے۔ قوم پرستوں کا اس میں اہم رول بنتا ہے اگر وہ جذباتی نعرے بازی سے، سیاست، حکمت اور تدبر کے ساتھ عوامی سیاست میں پلٹ آئیں۔ عمر رسیدہ قوم پرستوں نے تو مکمل تائید کی اور تسلیم کیا کہ نیا عمرانی معائدہ اور آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو
وسیع اختیارات کے ساتھ ڈوگرہ کی جانشین حکومت تسلیم کرنا ہی مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہے البتہ نوجوان قوم پرست ابھی بھی ہوا میں انقلاب لانے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ اگر آج کا نوجوان حالات کو نہ سمجھ سکا تو 65 سال بعد اپنے سنئیر کی طرح جونئیر کو سمجھا رہا ہو گا جو غلطی ہم سے ہوئی اس کو نہ دہرائیں، اس وقت بھی نوجوان انقلاب لانے کی بات کر رہے ہوں گے مگر بات ہی بات میں 77 سال مزید گزر جائیں گے۔ اس وقت کوئی اور مودی اور کوئی اور شہباز شریف ہو گا اور کوئی اور نوجوانوں کو کے ایچ خورشید کے نظریہ پر بریفنگ دے رہا ہو گا۔