اپوزیشن اراکین بی بی آصفہ بھٹو زرداری سے خوفزدہ ہیں اسی وجہ سے انہوں نے بی بی آصفہ بھٹو زرداری کے حلف اٹھاتے وقت ایوان میں شور شرابہ کیا۔

 اسلام آباد (19 اپریل 2024)

چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں صحافیوں کے سوالات کے جوابات دئیے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپوزیشن اراکین بی بی آصفہ بھٹو زرداری سے خوفزدہ ہیں اسی وجہ سے انہوں نے بی بی آصفہ بھٹو زرداری کے حلف اٹھاتے وقت ایوان میں شور شرابہ کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک نہتی لڑی سے خوفزدہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کبھی بھی ایسے ہتھکنڈوں سے نہیں گھبراتی اور تین نسلوں سے ہم نے ان کا مقابلہ کیا ہے اور جنرل ضیاءاور جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹروں کو جمہوریت سے شکست دی ہے۔ ہم ابھی بھی ان کا جمہوری انداز میں سامنا کریں گے۔ پی ٹی آئی کے اراکین کے رویے سے ایوان کا وقار مجروح ہو رہا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کل پاکستان پیپلزپارٹی نے تاریخ رقم کی ہے اور صدر زرداری نے کل ساتویں مرتبہ مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ صدر زرداری نے ان مسائل کو اجاگر کیا جو وقت اور پاکستان کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی اختلافات کی بجائے ملک کا سوچنا چاہیے۔ ہمیں اس عوام کے متعلق سوچنا چاہیے۔ صدر زرداری نے کل بھی یہ پیغام دیا کہ پاکستان کے مسائل کے حل کے لئے ہمیں متحدہ ہونا ہوگا۔ عوامی نمائندوں کو اپنا کردار اور ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حزب اختلاف پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہتی۔ ہمیں عوام کے مسائل حل کرنا ہیں لیکن حزب اختلاف کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفادات حاصل کریں اور این آر او لے کر اپنے پارٹی لیڈران کو رہا کروائیں۔ حزب اختلاف کا احتجاج کا انداز جمہوری نہیں تھا۔ بدقسمتی سے ان کے اس انداز کی وجہ سے اسپیکر اس بات پر مجبور ہوئے کہ حزب اختلاف کے دو اراکین کی قومی اسمبلی کی رکنیت معطل کر دی۔ چیئرمین پی پی پی نے عمران خان کی حکومت کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی پالیسیاں تحریک طالبان پاکستان، دہشتگردی اور ہمسایہ ملک کے متعلق غلط تھیں اور جس طرح سے عمران خان کی حکومت نے دہشتگردوں کو رہا کیا اور افغانستان میں دہشتگردوں کو پاکستان میں آکر آباد ہونے کی اجازت دی غلط تھا۔ پارلیمنٹ کو اس بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا اور اس وقت کے صدر دہشتگردوں کو معافی دیتے رہے۔ یہ عمران خان کی حکومت کی پالیسی تھی جس پر ہم نے اس وقت بھی تنقید کی اور اب ہمیں چاہیے کہ مسائل کو صرف سیاسی مسائل نہ سمجھیں بلکہ قومی سکیورٹی کا مسئلہ سمجھیں۔ ہمیں دوغلی پالیسی نہیں اختیار کرنی چاہیے کیونکہ ان دہشتگردوں کو ماضی میں ختم کرنے کے لئے فوج، پالیسی اور عوام نے بے انتہا قربانیاں دی ہیں۔ صدر کے مشترکہ اجلاس کے خطاب کے دوران حزبِ اختلاف کے شور شرابے کے متعلق چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہر سیاسی پارٹی کو سیاست کرنے کا حق ہے لیکن جہاں معاملہ فارن افئیرز اور ڈپلومیسی کا ہوتا ہے وہاں ہمیں سفاتکاروں کے سامنے اتحاد رکھنا چاہیے۔ کل جو سفارتکار ایوان میں موجود تھے وہ اپنے ممالک میں حزب اختلاف کے غلط رویے کے متعلق بھی اپنی حکومتوں کو بتائیں گے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ متحدہ عرب امارات جیسے جدید ملک میں بھی بارشوں نے تباہی مچا دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان ایک غیرترقی یافتہ ملک ہے لیکن پھر بھی ہم 2022ءکے سیلاب سے متاثرہ افراد کی محدود وسائل کے باوجود مدد کر رہے ہیں اور سندھ میں ان کے لئے 20 لاکھ گھر تعمیر کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنا ترقیاتی لائحہ عمل تبدیل کرنا ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایسا انفراسٹریکچر تعمیر کرنا ہوگا جو موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرسکے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں محفوظ ہو سکیں۔ صدر زرداری نے بھی کل اپنی تقریر میں یہ پیغام دیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ گذشتہ عبوری حکومت کے چند فیصلے کسانوں کے نقصانات کا باعث بنے اور ہماری معیشت بھی کمزور ہوئی۔ عبوری حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ دیگر ممالک سے گندم درآمد کرے گی لیکن اس حکومت نے وہ پالیسی ختم کرکے اب گندم کی برآمد پر بھی پابندی لگا دی ہے جس سے صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کے جو تحفظات ہیں ان پر توجہ دی جائے اور انہیں دور کیا جائے۔ انہوں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ اس حکومت کے دور میں مہنگائی میں کمی آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں مہنگائی سب سے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئی تھی اور اگر یہ حکومت مہنگائی کم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے ہم سب کا فائدہ ہوگا۔ سعودی عرب کے وزیرخارجہ کے حالیہ دور ے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں یہ دورہ سب سے کامیاب دورہ تھا۔ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری میں ایک اہم کردار اداکرے گا جس سے سارے پاکستان کے عوام کو ان کے وسائل مہیا ہوں گے۔ یہ حکومت، اس کے اتحادی اور حزبِ اختلاف سب کا فرض ہے کہ وہ بیرونی وفود کو پاکستان میں خوش آمدید کہیں۔ یہ بات بہت غلط تھی کہ جس وقت سعودی وزیر خارجہ پاکستان میں موجود تھے تو پی ٹی آئی کے ایک سیاستدان نے سعودی عرب پر یہ الزام لگایا کہ وہ پاکستان میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے میں ملوث تھی۔ ہم اس بیان کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور پی ٹی آئی کی اس پالیسی کو بھی رد کرتے ہیں۔ یہ دوغلی پالیسی غلط ہے، پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ جھوٹ کی سیاست کو ترک کر دیں۔ سعودی عرب کے پاکستان کے تعلقات ہیں کہ کسی ایک سیاسی پارٹی سے۔ ساری سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کی حمایت کریں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ صدر پاکستان نے کل اپنے خطاب میں واضح پیغام دیا ہے کہ ملک کو مفاہمت اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے تین مطالبات ہیں وہ یہ ہیں کہ قومی سطح پر چارٹر آف اکانومی، چارٹر آف مفاہمت اور چارٹر آف عدالتی اصلاحات کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سے پی ٹی آئی سیاست کرتی ہے وہ قومی مفاہمت کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے نہ صرف پاکستان، پاکستان کی معیشت اور خود پی ٹی آئی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہر سیاسی پارٹی کو چاہیے کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کی کوششیں کرے۔ وزیراعظم نے اپنی پہلی تقریر میں پیپلزپارٹی کے نکات پر بات کی تھی۔ اب ہمیں اس حکومت کو کچھ وقت دینا چاہیے کہ وہ ان نکات پر عملدرآمد کرے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو فنڈز مہیا کرے گی تاکہ ہم عوام کو ریلیف فراہم کر سکیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آج صبح کراچی میں دہشتگردوں کو ناکام بنانے پر سندھ پولیس کو سراہا اور کہا کہ یہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرتا ہے کہ دہشتگردی کا عفریت پاکستان میں ایک مرتبہ پھر اپنا سر اٹھا رہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمسایہ ملک کو بھی ان کے خلاف کاررائی کرنی چاہیے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بطور وزیرخارجہ انہوں نے چین، افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس بلایا تھا تاکہ یہ مسئلہ حل ہو سکے اور ہمیں ابھی بھی چاہیے کہ دہشتگردی کو ختم کرنے کے لئے اسی قسم کی کوششیں کریں۔ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے سندھ میں احتجاج کے بارے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر وہ احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں سہولیات مہیا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا صاحب ایک سینئر سیاستدان ہیں جنہیں ان کی پارٹی کے لوگوں کی جانب سے یہ غلط تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ سندھ میں انتخابات دھاندلی کی وجہ سے ہارے ہیں۔ مولانا صاحب کو چاہیے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کریں کہ وہ دھاندلی کی وجہ سے ہارے ہیں یا ان کے صوبائی سطح کے سیاستدان اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے انہیں یہ غلط تاثر پیش کر رہے ہیں۔ مولانا صاحب کو تو احتجاج گنڈاپور کے خلاف کرنا چاہیے اور احتجاج ڈیرہ اسماعیل اور پشاور میں کرنا چاہیے نہ کہ سندھ میں ۔