ایران اسرائیل کے درمیان بڑھتے جنگ کے شعلے اور پاکستان


ون پوائنٹ
نوید نقوی
===========


صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے دنیا میں جس طرح تیزی سے منظرنامہ بدل رہا ہے میں بھی پوری کوشش کر رہا ہوں کوئی واقعہ مس نہ ہونے پائے۔ میری خواہش ہے کہ ان تاریخی واقعات کے گواہوں میں میرا نام بھی شامل ہو۔ مجھے شروع سے ہی اپنے پڑوسی ملک بھارت اور مشرق وسطیٰ کے معاملات میں دلچسپی رہی ہے۔ اس لیے انہی صفحات پر ان دو موضوعات پر کئی بار لکھ چکا ہوں۔ اپنے قلم اور زبان کو کس طرح ایمانداری اور سچائی سے استعمال کرنا ہے، میرا ایمان ہے کہ روز قیامت اس کی جواب طلبی لازمی ہوگی۔ اپنے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر رانا شہزاد صاحب جو اب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، میڈیا اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں، کے حکم پر ہمیشہ کوشش کی ہے نیوٹرل ہو کر سچائی کے دامن کو نہ چھوڑتے ہوئے پوری ایمانداری سے لکھوں اور انشاء اللہ تعالیٰ آگے بھی ایسا ہی کروں گا۔ فلسطین اور اسرائیل دو ایسے نام ہیں جو اس وقت انٹرنیشنل میڈیا کا ہاٹ ٹاپک ہیں۔ اب ایک اور نام بھی ان کے ساتھ جڑ چکا ہے اور وہ ہے ہمارا ایک اور برادر ہمسایہ ملک ایران۔ روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ کا موضوع اس وقت پس منظر میں چلا گیا ہے اور پوری دنیا کی نظریں مشرق وسطیٰ پر ہیں کیونکہ یہاں کسی بھی بڑی جنگ کی صورت میں دنیا کے ہر ملک کی اکانومی پر ڈائریکٹ اثر پڑے گا۔ ارض مقدس کے آنسو کے عنوان سے میں نے اس وقت بھی ریسرچ بیسڈ پر لکھا جب موجودہ غزہ اور اسرائیل تنازعہ شروع بھی نہیں ہوا تھا۔ اسرائیل کے مظالم سے تنگ آ کر 7 اکتوبر 2023 میں حماس کے طوفان الاقصیٰ نام کے آپریشن کے بعد جس طرح اسرائیل نے امریکی تعاون سے اہل غزہ پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں اس کی گواہ پوری انسانیت ہے۔ ایشیا، افریقہ، یورپ اور امریکہ سمیت پوری دنیا اسرائیل کے مظالم کی نہ صرف مذمت کر رہی ہے بلکہ یورپ اور امریکہ کی اسرائیلی حمایتی حکومتوں کو اپنے عوام کا جنگ بندی کے لیے بے پناہ دباؤ بھی ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار پر، جن کو اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتا ہے نظر ڈالیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اس جدید دور میں بھی انسان ایک دوسرے انسان پر اتنا ظلم کے پہاڑ ڈھا سکتا ہے؟ غزہ کی مکمل آبادی اس وقت گھر بدر ہو چکی ہے اور ان کو قحط کے خطرے کا سامنا ہے۔ غزہ میں اس وقت ایک بلڈنگ بھی صحیح سلامت باقی نہیں بچی ہے۔ 40 ہزار شہادتیں ہو چکی ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ رفح میں موجود کیمپوں میں کئی ایسے معصوم بچے موجود ہیں جن کے پورے خاندان کی شہادتیں ہو چکی ہیں۔ حماس کے زیر کنٹرول وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں طبی عملے کے بھی سینکڑوں افراد شہید ہو چکے ہیں۔ جن میں ایک بڑی تعداد خواتین ڈاکٹرز اور نرسوں کی بھی ہے۔ اب تک ڈیڑھ سو سے زائد اسپتالوں اور طبی اداروں کو تباہ کیا گیا ہے۔ حماس کے زیر انتظام ایک بھی ہیلتھ سنٹر باقی نہیں بچا۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اوسطاً روزانہ پانچ درجن سے زائد فلسطینی شہید ہو رہے ہیں۔ ارض مقدس کے باسی شدید بھوک اور پیاس کا سامنا کر رہے ہیں۔ ماہ رمضان بے شک گزر چکا ہے لیکن رہتی دنیا تک اہل غزہ یہ سحر وافطار یاد رکھیں گے۔ جاپان سے لے کر تھائی لینڈ تک، کینیڈا سے لے کر نیوزی لینڈ تک، برطانیہ سے لے کر آسٹریلیا تک تمام حکومتیں اسرائیلی مظالم پر مجرمانہ طور پر خاموش ہیں۔ ان کی خاموشی تو سمجھ آتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ امت مسلمہ بھی اپنے فلسطینی بھائیوں پر ہونے والے مظالم پر صیہونی ریاست کے خلاف کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ اس وقت لاکھوں فلسطینی زخمی ہیں۔ بچوں کے لیے دودھ ختم ہو چکا ہے۔ دودھ پلانے والی ماؤں کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ غزہ کی طرح مغربی کنارے میں جہاں سول کنٹرول محمود عباس کے زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہے وہاں بھی اسرائیل کے مظالم جاری ہیں اور مختلف بہانے بنا کر فلسطینیوں کے گاؤں اور زرعی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی ہٹ دھرمی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا بلکہ اس سے چار قدم آگے بڑھ کر وہ غزہ میں امداد تک نہیں جانے دے رہا۔ اس سب کے بیچ اسرائیل اور لبنان کی حزب اللہ کے درمیان بھی جھڑپوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ حزب اللہ کی پشت پر اسرائیل کا ایک ایسا دشمن موجود ہے جو نہ صرف لبنان کی حزب اللہ کے ذریعے بلکہ حماس کی عملی حمایت کر کے اسرائیلی دفاعی افواج کو منظم طریقے سے نقصان پہنچا رہا ہے۔ جی ہاں ایران، جو شاہ کے زمانے میں اسرائیل کا نہ صرف اتحادی تھا بلکہ اسرائیل کو تسلیم کر کے قابل ذکر تجارتی، دفاعی، سفارتی تعلقات بھی رکھتا تھا لیکن 1979 کے امام خمینی کی زیر قیادت انقلاب کے بعد ایران کی اسرائیلی پالیسی میں یکسر تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔ یہ دونوں ملک اب کھلم کھلا دشمن ہیں۔ اب تک اسرائیل اور ایران شیڈو وار لڑتے آئے ہیں۔ جہاں دونوں بغیر ذمہ داری قبول کیے خطے میں ایک دوسرے کے اہداف کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔ اسرائیل اپنے تمام تر وسائل اور ظلم کے باوجود غزہ میں حماس کی عسکری قیادت کو نہ گرفتار کر سکا ہے اور نہ ہی حماس کی جنگی طاقت ختم ہوئی ہے۔ کیونکہ ایران حزب اللہ اور شامی افواج کے تعاون سے حماس کی مدد کر رہا ہے اس لیے اسرائیل نے جھنجھلا کر یکم اپریل 2024 کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر جیٹ طیاروں کے ذریعے بمباری کی جس کے نتیجے میں پاسداران انقلاب کی بیرون ملک آپریشن کرنے والی شاخ قدس فورس کے سینئر کمانڈر برگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی اپنے دیگر ساتھیوں سمیت شہید کر دیے گئے، اس کے بعد ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بدلہ لینے کا اعلان کیا اور دو ہفتوں کے بعد ہی یعنی 13 اپریل 2024 کو 300 ڈرونز اور درجنوں بیلیسٹک و کروز میزائلوں سے اسرائیل پر جوابی کارروائی کی۔ یاد رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تقریباً 2152 کلومیٹر کا زمینی فاصلہ ہے۔ تمام وار اینالسٹس یہ مان رہے ہیں کہ ایران کا حملہ یقینی تھا کیونکہ اسرائیل نے شام میں اس بار ایرانی قونصل خانے پر ڈائریکٹ حملہ کیا جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھا۔ ایرانی ڈرونز اور میزائلوں کو روکنے کے لیے اسرائیلی دفاعی افواج کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، اردن سمیت نو ممالک کی افواج نے حصہ لیا۔ اسرائیل کا مشہور زمانہ دفاعی نظام آئرن ڈوم اور ایرو ایرئیل تمام ایرانی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا، جس کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اور برطانوی فوج کو دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر اسرائیل کی مدد کرنا پڑی۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر کئی عالمی رہنماؤں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ موجودہ صورتِ حال نے مشرقِ وسطیٰ کو ایک نئی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ جنگ اگر ہوتی ہے تو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کو اس کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ ایران جغرافیائی طور پر اسرائیل سے بہت بڑا ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ 1648195 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی تقریباً نو کروڑ افراد پر مشتمل ہے، جو اسرائیل سے تقریباً دس گنا زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل کی کل آبادی 90 لاکھ ہے جس میں کم و بیش بیس فیصد عرب بھی ہیں۔ جبکہ کل رقبہ صرف 22145 مربع کلومیٹر ہے۔ فوجی طاقت کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایران نے میزائلوں اور ڈرونز میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے پاس ہتھیاروں کا اپنا ایک وسیع ذخیرہ ہے۔ ایران کا دفاعی بجٹ 10 ارب ڈالرز کے قریب ہے تو اس کے مقابلے میں اسرائیل کا بجٹ 24 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اسرائیل کے مشہور میزائیلوں میں ڈیلائلا، جبریئل، ہارپون، چریکو 1، جریکو 2، جریکو 3، لورا اور پوپیئی شامل ہیں۔ اسرائیل کے پاس دنیا کی جدید ترین فضائی افواج میں سے ایک ہے۔ آئی آئی ایس ایس کی ملٹری بیلنس رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے پاس جیٹ طیاروں کے کم از کم 14 سکواڈرن ہیں۔ جن میں ایف 16، ایف 15 اور جدید ترین ایف 35 سٹیلتھ جیٹ شامل ہیں۔ یعنی اسرائیل کے پاس 241 لڑاکا طیارے اور 48 تیز حملہ کرنے والے ہیلی کاپٹر ہیں۔ جبکہ ایران کے پاس فائٹر جیٹس کی تعداد 186 اور دو درجن اٹیک ہیلی کاپٹر ہیں۔ ایران اپنے جدید ڈرون روس کو دے کر بدلے میں سخوئی جنگی طیارے لے رہا ہے۔ ایران کے حاضر سروس فوجی بھی اسرائیل کے مقابلے میں تقریباً چھ گنا زیادہ ہیں۔ ایران کے ایکٹیو فوجیوں کی تعداد چھ لاکھ دس ہزار جبکہ اسرائیل کے ایکٹیو فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ہے۔ ایران کی بحری فوج کے پاس 101 جہاز جبکہ اسرائیل کے پاس صرف 67 ہیں۔ ایرانی نیوی کے پاس ہزاروں کی تعداد میں خطرناک سپیڈ بوٹس ہیں جو ہتھیاروں سے لیس ہو کر آبنائے ہرمز میں گشت کرتی رہتی ہیں۔ کسی بھی جنگ کی صورت میں ایران ان جنگی کشتیوں کے ذریعے ہی تیل کی سپلائی بند کر دے گا جس سے امریکہ سمیت پورا یورپ شدید ترین متاثر ہوگا۔ جس طرح امریکہ سمیت نیٹو اسرائیل کی مدد کر سکتے ہیں اسی طرح ایران نے بھی اپنا ایک اتحاد قائم کیا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ، شام، عراق اور یمن کے حوثی، جو اس وقت بحیرہ احمر میں کاروائیاں کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی جنگی کابینہ میں اس وقت ایسے لوگ ہیں جو امریکہ کو جنگ میں گھسیٹنا چاہتے ہیں اور نئی جنگ ہی ان کو اسرائیل عوام کے ہاتھوں کرپشن کے الزامات سے بچا سکتی ہے۔ اسرائیل نے 19 اپریل 2024 کی صبح ایران کے حملے کے جواب میں کچھ ڈرون اور ایک میزائیل داغا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ حملہ ایرانی شہر اصفہان پر کیا گیا ہے جسے ایران کے فضائی دفاع نے ناکام بنا دیا۔ اصفہان، ایران کے دارالحکومت تہران سے تقریباً چار گھنٹے کی دوری پر یا 350 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ اسی خطے میں ایرانی جوہری تنصیبات بھی واقع ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں ایران کا سب سے بڑا فوجی اڈا بھی واقع ہے۔ اس کے علاوہ نتنز شہر بھی اصفہان میں واقع ہے جہاں ایران کا سب سے بڑا جوہری مرکز ہے۔ اسرائیل اور ایران اب کھلم کھلا ایک دوسرے کے سامنے آ گئے ہیں اور دونوں جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ دنیا ابھی تک روس یوکرین جنگ کے اثرات سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ اگر یہ جنگ ہوئی تو یقیناً یہ تیسری عالمی جنگ کی شروعات ہوگی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 22 اپریل 2024 کو ایرانی صدر پاکستان کے دورے پر آ رہے ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک با اثر ملک ہے۔ جس کے امریکہ سمیت تمام یورپی طاقتوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ پاکستان مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کے شعلے بجھا سکتا ہے کیونکہ اگر یہ جنگ ہوئی تو اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا جس سے مہنگائی اور دہشت گردی کا ایک طوفان آئے گا۔ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ بندی سمیت ایران اسرائیل کشیدگی میں کمی لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے تو امت مسلمہ کی قیادت یقیناً پاکستان کے پاس ہوگی اور یہ ایک بڑا اعزاز ہوگا