انسانی فطرت

ثمرین مہران
===========

انیسہ جب کم سن تھی تو وہ زندگی کے رموز سے نہ واقف تھی۔وہ نہیں جانتی تھی کہ ایک لڑکی جب گھر سے باہر نکلتی ہے تو معاشرے کے اندر لوگوں کی للچاتی نظروں کا سامنا کیسے کریں لیکن حقیقت ہے کہ زندگی ایک جامعہ ہے جو تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ انیسہ جانتی تھی کہ اگر وہ گھر سے باہر نکل کر کسی جگہ حصول علم کی طرف جائیگی تو مختلف مسائل سے اس کا سامنا ہوگا اور ان کا سامنا کرنا اور ان کے ہوتے ہوئے حصول مقصد کے لئے جدو جہد کرنا ہی اصل زندگی اور بہادری کی علامت ہے۔

جب وہ بچی تھی تو اس نے اپنے اماں سے کچھ ایسی چیزیں سیکھی تھی جو اسے لوگوں کی فطرت سے آشنا رکھتی تھی اس لئے وہ ہر قدم پر چاک و چو بند رہتی تھی اور اس آشنائی نے اس کو یہ کمال عطا کیا تھا کہ وہ لوگوں پر یکدم بھروسہ نہیں رکھتی تھی۔ جب عمر بڑھتی گئی تو ٹانگوں کے ساتھ عقل بھی بڑی ہوتی چلی گئی۔ وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت اور عقل مند بن گئی اور کچھ اطوار معاشرے میں بھی سیکھ لی تھی کہ انسانی فطرت کیسے بدلتی ہے اور وہ اپنے مفاد کے لئے کیسے انسانوں کو استعمال کرتی ہے۔وہ ایک ایسی لڑکی تھی کہ اس کا مزاج کسی سے موافقت نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ اپنی دنیا میں مگن ایک شرارتی و شوق چنچل سے لڑکی تھی۔

وہ میٹرک اور انٹر جماعت پاس کرنے کے بعد بہت کچھ سیکھ چکی تھی اور زندگی کے رموز سے بھی کچھ حد تک واقفیت حاصل کرچکی تھی۔ انٹر کے بعد اس نے کسی ادارے میں داخلہ لیا۔
انیسہ صلاحیتوں سے مالا مال ایک لڑکی تھی، چیزوں کو سمجھنا اور ان کو سر انجام دینا اسکی اہم خوبی تھا۔جب اس نے ادارے میں داخلہ لیا تو اس نے محسوس کیا کہ اس کا استاد اس میں انٹرسٹ لینے لگا ہے۔
اسکے ساتھ بیٹھنا، اس کو دیکھنا ،اسے کینٹین یا ریسٹورنٹ میں لیکر جانا۔
وہ کوشش کرتا کہ انیسہ سے اسکی ملاقات ہوں اس لئے وہ ضرور کوئی بہانہ بنالیتا ،کبھی کسی ایونٹ کے بہانے اس سے ملتا، کبھی کلاس میں اسے بٹھا کر باتیں کرتا۔ انیسہ نے محسوس کیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں پا رہا۔

ایک دن اس نے ہمت کرکے انیسہ سے اپنی دل کی بات کہہ دی تو انیسہ تجسس سے دیکھنے لگی کہ یہ انسان ایک تو میرا استاد ہے اور دوسرا وہ پہلے سے شادی شدہ ہے تو وہ مجھ سے ایسی باتیں کیوں کررہا ہے لیکن انیسہ حاضر جواب تھی اس نے براہ راست اس کو جواب دیا لیکن وہ باز نہیں آیا اور اپنی حرکتیں دہراتا رہا۔

ایک دن انیسہ بیٹھی ہوتی ہے کہ وہ آجاتا ہے، باتوں باتوں میں انیسہ اسے کہتی ہے کہ اپنی شریک حیات کی تصویر دکھادو۔پہلے پہل وہ انکار کردیتا ہے لیکن انیسہ ضد کرتی ہے تو وہ تصویر دکھا دیتا ہے۔ تصویر دیکھنے کے بعد انیسہ اسکی بیوی کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کردیتی ہے اور ایک آنکھ سے اس پر نظر رکھتی ہے تو اسکے چہرے پر ایک عیارانہ مسکراہٹ پھیلی ہوئی ہے۔
اس بات سے انیسہ محسوس کرتی ہے کہ وہ انسان اپنی شادی شدہ زندگی سے بہت خوش ہے۔ اس منظر کو دیکھنے کے بعد انیسہ کے ذہن میں سوالوں کا طوفان کھڑا ہوجاتا ہے کہ ایک شادی شدہ انسان جو اپنی زندگی میں بے حد خوش ہے تو وہ ایک کنواری لڑکی کو کیوں شادی کے لئے پسند کرنے لگتا ہے؟
شاید وہ اس سے کوئی رشتہ رکھنا چاہتا ہے لیکن جو انسان پہلے ہی کسی رشتے سے منسلک ہوں اور اس رشتے کو چھ مہینے ہوئے ہوں تو دوسری لڑکی سے شادی کے لئے پرپوز کرنا کیا بد دیانتی نہیں ہے؟
کیا وہ انسان اپنے بیوی اور اس لڑکی کی زندگی سے کھیلنے کی کوشش نہیں کررہا تھا؟
کیا وہ صرف انیسہ کو استعمال کرنے کے لئے سب کچھ کررہا تھا؟

ان سوالوں کا بوجھ اٹھائے وہ یہاں سے اٹھی اور خود کلامی کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ یہ انسانی فطرت ہے ہمیشہ اپنے حد سے زیادہ کی چاہ میں رہتا ہے اور زیادہ کی چاہ نہ صرف اسے تباہ کرتی ہے بلکہ اسکے ساتھ کئی اور لوگ تباہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
انیسہ کی بہادری اور جواب دینے کی خوبی نے نہ صرف اس کی اپنی زندگی تباہ ہونے سے بچائی بلکہ اس انسان اور اسکے بیوی و بچوں کی زندگی کو بھی تباہی سے بچایا۔