ائی ایم ایف 11 ارب ڈالر ملکی معشیت

راجہ وسیم حسن
ترجمان پیاف
ارٹیکل

پاکستان کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ایک جامع اور کثیر جہتی پالیسی کی ضرورت ہے جو ملک کو درپیش مختلف چیلنجوں سے نمٹ سکے دنیا کی سب سے بڑی مالیاتی ادارہ ائی ایم ایف نے ایک بار پھر پاکستانی حکومت کو 11 ارب ڈالر کی قرض جاری کرے گا ائی ایم ایف سے سود پر قرض ملنے پر حکومت اور حکومت کے حمایتی لوگ خوشی محسوس کر رہے ہیں لیکن یہ قرضہ کن سخت شرائط اور کن اسان شرائط پہ ملے گا کتنا ٹیکس کتنا پیٹرول بجلی گیس مہنگے ہوں گے اس پر حکومت نے ایک لفظ تک نہیں بولا البتہ ائی ایم ایف نے خود بتایا کہ بجلی پٹرول مہنگا کرنے کی ہماری شرائط حکومت نے مان لی ہیں جس میں انے والے دنوں میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان ائے گا اور جو لوگ پہلے دو وقت کی روٹی کو ترس رہے تھے ان کے لیے مزید مشکلات ا کھڑی ہوں گی ایسے حالاتوں میں صنعت کا پہیہ تھوڑا بہت چل رہا ہے اس کا پہیہ چلنا بھی مشکل ہو جائے گا ایک بار پھر ملک کی انڈسٹری پر مزید بوجھ ان پڑے گا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپ ملک اس طرح قرض لینے سے ترقی کرتے ہیں ائی ایم ایف کی قسط جاری ہونے کے بعد یکم جولائی کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہونا شروع ہوگا پاکستان واحد ملک ہے جو قرض لینے پر خوش ہوتا ہے جو بعد میں قرض اتارنے کا بی سکت نہیں رکھتے کیونکہ وہ پہلا قرضہ نہیں دے سکتے اور حکومت دوسرا قرضہ لے رہی ہے کوئی سمجھائے ہمارے حکمرانوں کو جس کی وجہ سے ہم قرضوں کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں ان قرضوں سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ عوام مہنگائی کہ بوجھ میں پھنس جاتی ہے ائی ایم ایف سے قرض لینے والوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے اج تک ایک بھی ملک اس ائی ایم ایف کے پروگرام پر چل کر اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوا چند ارب ڈالر کی خاطر پاکستان کی 24 کروڑ عوام کو مشکلات میں ڈالنا مناسب نہیں ائی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بارے میں حکومت اور اپوزیشن دونوں نے سیاست دکھانی شروع کی گئی اپوزیشن نے قرضہ روکنے کے لیے واشیٹن میں احتجاج کیا جبکہ پی ٹی ائی کے سربراہ عمران خان نے ائی ایم ایف کو خط لکھ دیا لیکن اس کے باوجود ائی ایم ایف نے پاکستان کو 11 ارب ڈالر کا قرضہ جاری کر دیا اب یہ قرضہ عوام کی فلاح کے بجائے ملک کے بااثر افراد کی نظر ہو جائے گا عوام بچاری اس کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک جائے گی کاش اگر ائی ایم ایف نہ ہوتا تو پاکستانی عوام خوشحال زندگی بسر کر رہی ہوتی اور کسی بھی حکومت کی ائی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے پر نظر نہ پڑتی اگر بجلی گیس پیٹرول مہنگا ہوگا تو ڈالر بھی اونچی اڑان میں اڑے گا جس کا سارا نقصان پاکستان کی انڈسٹری اور عوام کو برداشت کرنا ہوگا جس سے پاکستان کی معیشت ایک بار پھر لڑکھڑا جائے گی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا ائی ایم ایف کی قسط کے بعد پاکستان یہ قرض کی رقم واپس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ویسے بھی ائی ایم ایف پاکستان کو پیسے دینے سے انکار نہیں کرے گا کیونکہ اس کی وجہ سے مشکل میں پھنسے قوم سیدھی بھی ہو سکتی ہے مگر ائی ایم ایف کی شرائط صرف عام کی روٹی کھانی مشکل کرنا ہوتا ہے پاکستان کوئی بانج ملک نہیں ہے صرف اشرفیہ کے چنگل میں ائی ہوئی ریاست ہے جو اس کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے اور کوئی پوچھنے اور روکنے والا نہیں ائی ایم ایف کی غلامی کا پھندہ ملک اور قوم کے گلے میں ڈالنے کی بجائے 17 ارب ڈالر کی وہ مراعات ختم کریں جن کی نشاندہی اقوام متحرہ کر چکی ججوں جرنیلوں اور بیوروکریسی کا 55ارب روپے کا مفت پیٹرول بجلی بند کریں جب تک اشرفیہ کی لوٹ مار ختم نہیں ہوگی ملکی معاشی بحران جاری رہے گا ہماری مروجہ سیاسی معاشی نظام سے سمجھ بوجھ رکھنے والا ہر شخص یہ جانتا ہے خرابی کہاں ہے اور یہ کیسے درست ہوگی ہر حکومت اس عزم کا اظہار بھی کرتی ہے مگر پھر دیدہ نہ دیدہ مجبوریوں کا شکار ہو ہوتی ہے 1968سے -2023 تک پاکستان 23 بار ائی ایم ایف سے بلیک اؤٹ پیکجز لے چکا ہے ہر بار مالیاتی پیکج کے حصول کا مقصد معیشیت کو درپیش چیلنجوں سے ازمودہ ہونا بتایا ہے مگر ملکی اقتصادیات کی سمت درست کرنے کی بجائے مالیاتی اداروں کے سہارے میں شرک کو چلانے کا اسان راستہ ڈھونڈ لیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اقتصادی ڈھانچے کو درست نظام عالم سے ہم اہنگ کے بجائے
نے قرض کے حصول پر مرکوز ہو گئی ایسے میں معاشی بگاڑ تو ایک طرف پورا مالیاتی نظام جمود کا شکار ہو گیا نتیجہ ہمارے سامنے ہے 25 کروڑ ابادی کا ملک جس کی لگ بھگ دو تہائی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کی بجائے عالمی اردو کی امداد اور قرض کا محتاج ہو چکا ہے بنگلہ دیش نے ائی ایم ایف سے نصف سے کم قرضہ حاصل کیا اور سائی توجہ اپنی معیشیت سمت درست کرنے پر مقروض کی اج وہ پیداوار معیشت ہے اس طرح بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جو 1993 میں ائی ایم ایف کو خیرباد کہنے کے بعد دو ہزار تک تمام قرضوں کی قسط ادا کرنے کے بعد اپنے معاشی معاملات میں خود مختیار ہو چکا ہے اور پاکستان ایک کزیومر مارکیٹ عالمی مالیاتی محض خامیوں کی نشاندہی کر سکتا ہے انہیں دور کرنا ہمارا کام ہے اس وقت پاکستان کے اندرونی اور برونی قرضے ناقابل برداشت سطح پر پہنچ چکے ہیں جبکہ قرضوں ادائیگی کی شرح بھی جی ڈی پی کہ لحاظ سے بلند ترین سطح پر ہے معاشی صورتحال کو مضبوط کرنے کے لیے ایک جامعہ مضبوط پلان کی ضرورت ہے جس کے لیے سیاسی اتفاق رائے بھی ضروری ہے معیشیت پر دو برس میں جو اثرات ڈال ہیں اس میں عوامی مشکلات میں اضافہ ہوا پاکستان قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال ملک ہے اگر معاشی استحکام کی پائیداری حکمت عملی کے ساتھ دستیاب وسائل سے استفادہ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم موجودہ ریلیف کو عالمی مالیاتی ادارہے سے اخری رحوع نہ بنایا جا سکے اگر ہم حکمت عملی سے ائی ایم ایف سے نجات حاصل ہو گئی تو ہم بہت جلد عالمی مالکوں کی صف میں کھڑے ہوں گے