فیڈریشن آف پاکستان یونیورسٹیز اے ایس ایز (فپواسا)نے مطالبہ کیا ہے کہ ایچ ای سی یونیورسٹیوں میں بھرتی کے اشتہار واپس لینے کا اپنا فیصلہ واپس لے اور نئی و پرانی تمام مشتہر آسامیوں پر جون تک بھرتی عمل مکمل کرنے کا حکم جاری کرے۔

لاہور (نمائندہ خصوصی) فیڈریشن آف پاکستان یونیورسٹیز اے ایس ایز (فپواسا)نے مطالبہ کیا ہے کہ ایچ ای سی یونیورسٹیوں میں بھرتی کے اشتہار واپس لینے کا اپنا فیصلہ واپس لے اور نئی و پرانی تمام مشتہر آسامیوں پر جون تک بھرتی عمل مکمل کرنے کا حکم جاری کرے۔ فپواسا پنجاب کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اظہر نعیم اور جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر رضوان اللہ کوکب کا کہنا ہے کہ پرانے اشتہارات پر بھرتی عمل مکمل نہ کرنا یونیورسٹیز انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت ہے اس کی سزا سالہا سال سے ترقی کے منتظر ہزاروں اساتذہ کو نہیں ملنی چاہئے۔ ایچ ای سی تمام یونیورسٹیوں کو حکم جاری کرے کہ اب تک جتنی بھی سیٹیں مشتہر کی جا چکی ہیں ان پر بھرتی عمل جون 2024 تک مکمل کیا جائے۔ پرانے اشتہارات کو واپس لینے کی ہدائت کرنا قابل مذمت ہے۔ چیئرمین ایچ ای سی اس بابت فوری اپنی وضاحت جاری کریں۔ انہوں نے تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے بھی مطالبہ کیا کہ کوئی اشتہار واپس نہ لیا جائے ۔ یونیورسٹیز خودمختار ادارے ہیں جبکہ ایچ ای سی نے بھی اشتہار واپس لینے کی صرف تجویز دی ہے حکم جاری نہیں کیا۔ اب تک مشتہر ہونیوالی تمام سیٹیوں پر بھرتی کی جائے اور سالہا سال سے ترقی کے منتظر یونیورسٹی ٹیچرز کو ترقی کے حق سے محروم نہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں نے مشتہر کی گئی آسامیوں کے اشتہار واپس لئے تو اس کیخلاف ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔
======================

پنجاب کی 18 رکنی کابینہ نے حلف اٹھا لیا

پنجاب کی 18 رکنی کابینہ نے حلف اٹھا لیا
پنجاب کی 18 رکنی کابینہ نے حلف اٹھالیا۔ گورنر ہاؤس میں گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے کابینہ ارکان سے حلف لیا۔

اس موقع پر گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی موجود تھیں۔

پنجاب کی کابینہ میں حلف اٹھانے والوں میں مریم اورنگزیب، عظمیٰ بخاری، عاشق حسین کرمانی شامل ہیں۔

اسی طرح شیر علی گورچانی، رمیش سنگھ اڑورہ، خلیل طاہر سندھو، سلمان رفیق، عمران نذیر، ذیشان رفیق اور صہیب بھرت نے بھی حلف اٹھایا۔

بلال یاسین، مجتبیٰ شجاع الرحمن اور سہیل شوکت بٹ بھی بھی حلف اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔
====================

مخصوص نشستوں کی تقسیم:تحریک انصاف کا الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائرکرنے کا فیصلہ
انتخابی نشان اور انٹرا پارٹی الیکشن کیس میں سپریم کورٹ کے اندر پارٹی کی لیگل ٹیم نے کمزوری دکھائی‘قومی اسمبلی ‘پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی حکومتوں کے استعفوں پر بھی پارٹی قیادت میں اختلاف رائے تھا ‘قیادت کے مشیروں نے ”ٹریپ“کیا اور مشکل وقت میں پارٹی چھوڑ گئے‘غلط فیصلوں کی وجہ سے پارٹی انتخابات میں فیصلہ کن بھاری اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی. تحریک انصاف کے ذرائع کے حوالے سے ایڈیٹر ”اردوپوائنٹ“میاں محمد ندیم کی خصوصی رپورٹ

مخصوص نشستوں کی تقسیم:تحریک انصاف کا الیکشن کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ ..

لاہور(۔06 مارچ۔2024 ) پاکستان تحریک انصاف نے مخصوص نشتوں کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس سلسلہ میں پارٹی قیادت کے درمیان مشاورت مکمل کرلی گئی ہے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے حکم امتناعی جاری ہونے کے بعد اگرچہ پی ٹی آئی کو وقتی ریلیف ملا ہے مگر پارٹی کی لیگل ٹیم کا کہنا ہے کہ مسلہ کا حتمی حل سپریم کورٹ میں ہی ممکن ہے.
تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کو انٹرپارٹی الیکشن کے بارے میں بھی خط کے ذریعے آگاہ کردیا گیا ہے خط میں الیکشن کمیشن سے درخواست کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن پارٹی کا انتخابی نشان اور پارلیمانی حیثیت کو بحال کرئے. الیکشن کمیشن کی جانب سے بچ جانے والی مخصوص نشستوں کو دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کردینے کے بعد نمبر گیم میں بڑی تبدیلی آئی ہے ‘ماہرین کا کہنا ہے کہ مخصوص نشستوں کے بارے میں قانون اور الیکشن ایکٹ 2017 خاموش ہے اور اس وقت سنی اتحاد کونسل نے اپنی ترجیحی لسٹ جمع نہیں کروائی تھی اگر عدالت سنی اتحاد کونسل کے حق میں فیصلہ دے دیتی تو اس سے سنی اتحاد کونسل کووفاق اور صوبوں میں مخصوص نشستیں مل سکتی تھیںالیکشن کمیشن کے فیصلے میں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کے مطابق کسی اسمبلی میں خواتین اور غیر مسلموں کے لیے مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے الیکشن لڑنے والی سیاسی جماعتیں کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت کمیشن کی طرف سے مقرر کردہ مدت کے اندر مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کی فہرستیں بھی جمع کروائیں گی اور کمیشن کو یہ فہرستیں ترجیحی آرڈر میں صوبائی الیکشن کمشنر یا کمیشن کے دوسرے مجاز افسران کو دی جائیں گی جو ایسی فہرستوں کو عوام کی معلومات کے لیے شائع کریں گے.
الیکشن کمیشن کے ممبر بابر حسن بھروانہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ وہ بینچ کے دیگر ممبران کے ساتھ اس حد تک‘ تو متفق ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں اس لیے نہیں دی جا سکتیں کیونکہ جماعت ترجیحی فہرست مقررہ وقت میں جمع کروانے میں ناکام رہی ہے تاہم میرا اختلافی نوٹ اس بارے میں میں ہے کہ یہ نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دی جا رہی ہیں انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ میری رائے میں آئین کے آرٹیکل 51 (6-ڈی) اور آرٹیکل 106(3-سی) میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں ان کے امیدواروں کی جانب سے جیتی گئی کل نشستوں کی بنیاد پر دی جائیں گی اس لیے یہ نشستیں خالی رہنی چاہییں جب تک آئین آرٹیکل 51 یا 106 میں پارلیمان کی جانب سے ترمیم نہ کر دی جائے.
صدارتی اور سینیٹ کے انتخابات میں اس جماعت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جس کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے صدر اور سینیٹرز کا انتخاب قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اسمبلی کرتے ہیں تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے سے نہ صرف اس کے صدارتی انتخابات میں ووٹ کم ہو جائیں گے بلکہ پی ٹی آئی کے کم ووٹ ہونے کی وجہ سے اس کو ملنے والے سینیٹرز کی تعداد بھی کم ہو جائے گی یوں پارلیمان کے ایوان بالا میں تحریک انصاف کا حجم سکڑ جائے گا.
الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے تحریک انصاف کے راہنما بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق جب تک عدلیہ کا فیصلہ نہیں آتا صدارتی اور سینیٹ الیکشن نہیں ہو سکتا اس لیے فی الفور صدارتی اور سینیٹ الیکشن ملتوی کیے جائیں مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے سینیٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرآئینی ہے ان کے مطابق ’الیکشن کمیشن نے ہمیں مخصوص نشستوں کے حق سے محروم کیا جمہوریت کے خلاف فیصلہ برداشت نہیںاگر اس فیصلے کے بعد الیکشن ہوئے تو ہمیں منظور نہیں ہوں گے علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سینیٹ سے مطالبہ کرتا ہوں پورے الیکشن کمیشن کو مستعفی ہوجانا چاہیے اور چیف الیکشن کمشنر پر آرٹیکل6 لگنا چاہیے جبکہ الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف نے اس جماعت (سنی اتحاد کونسل) کا انتخاب کیا ہے جس کے سربراہ نے خود بھی عام انتخابات میں اپنی جماعت کے انتخابی نشان گھوڑے کا انتخاب نہیں کیا اور آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا الیکشن کمیشن کے مطابق مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے کسی سیاسی جماعت کا پارلیمانی جماعت ہونا لازمی ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل کا انتخاب کر کے کیا کوئی غلطی کی ہے اور خود اس صورتحال کی ذمہ دار ہے؟.
تحریک انصاف کا موقف ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی جماعت کا رجسٹرڈ ہونا شرط ہے اور اس کا پارلیمانی پارٹی ہونا قانونی شرط نہیں ہے ان کے مطابق جہاں تک بات ترجیحی فہرست کی ہے تو اس فہرست کو جمع کرانا محض ایک پریکٹس ہے قانون نہیں ہے جب بلے کے انتخابی نشان سے متعلق سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی تھی تو یہ سوال سامنے آیا تھا کہ اگر انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیے گئے تو پھر تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم ہو جائے گی۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو پھر یہاں پیٹیشن دائر کر دی جائے.

ادھرتحریک انصاف کے معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کی جانب سے بروقت فیصلہ نہیں کیا جاتا تو پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے خلاف دوبارہ سپریم کورٹ میں جائے گی واضح رہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے کے باعث الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کا انتخابی نشان ”بلا “ واپس لے لیا تھا جس کی وجہ سے پارٹی کے امیدواروں کو فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں آزاد امیدواروں کی حیثیت سے حصہ لینا پڑا تھا مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے پی ٹی آئی نے تحریک انصاف پارلیمنٹرینز‘ جماعت اسلامی‘مجلس وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کے ساتھ مذکرات کیئے اور آخرکار پاکستان سنی اتحاد کے ساتھ اتحاد قائم کرلیا .
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے تحریک انصاف کی جانب سے بروقت فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے اسے بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جن میں ایک نشان پر انتخابات میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے بہت ساری نشستوں پر معمولی مارجن سے ہار‘مخصوص نشستوں کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس سے پارٹی کی قومی وصوبائی اسمبلیوں میں نمائندگان کی تعداد کم ہوئی جس کے اثرات قومی وصوبائی اسمبلیوں میں اہم عہدوں پر انتخاب میں شکست کے بعد سینیٹ اور صدارتی انتخابات میں بھی نظرآئیں گے قومی اسمبلی اور صوبوں میں مخصوص نشستیں نہ ملنے کی وجہ سے سینیٹ میں تحریک انصاف کی نمائندگی کم ہوجائے گی اور اسے سینیٹ کی بھی مخصوص نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں.
تحریک انصاف کے اندر بھی سوچ پائی جاتی ہے کہ انتخابی نشان اور انٹرا پارٹی الیکشن کیس میں سپریم کورٹ کے اندر پارٹی کی لیگل ٹیم نے کمزوری دکھائی اور پارٹی کی جانب سے طویل عرصہ پہلے الگ ہوجانے والے درخواست دہندہ اکبر ایس بابر کی پارٹی رکنیت کے خاتمے کی ایک بھی دستاویزعدالت میں پیش نہیں کی جاسکی اسی طرح پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات میں غیرضروری تاخیر بھی تحریک انصاف کی قیادت کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے کہ انہوں نے ان آئینی رکاوٹوں پر غور ہی نہیں کیا حالانکہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد انٹراپارٹی انتخابات کروائے جاسکتے تھے پارٹی کے بعض راہنماﺅں کا خیال ہے کہ قیادت کی ضرورت سے زیادہ پراعتمادی کی وجہ سے پارٹی کو ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا‘قومی اسمبلی ‘پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی حکومتوں کے استعفوں پر بھی پارٹی قیادت میں اختلاف رائے تھا .
پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی جانب سے قیادت کو تحفظات سے آگاہ کیا گیا تھا تاہم پارٹی قائد کی مشاورتی ٹیم نے انہیں درست فیصلے نہیں کرنے دیئے یہاں تک کہ پنجاب کے وزیراعلی چوہدری پرویزالہی بھی صوبائی اسمبلی توڑنے کے خلاف تھے اور ان کا موقف تھا کہ وفاق کے دونوں اطراف کے پی کے اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے دباﺅ رہے گا اور آئین کے مطابق نگران حکومتوں کے قیام میں بھی پی ڈی ایم حکومت پی ٹی آئی سے مشاورت کی پابند رہے گی.
پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت کے اس وقت کے مشیروں کے ذریعے جال بچھایا گیا اور بعد میں ان مشیروں کی بڑی تعداد منحرف ہوکر مشکل وقت میں پارٹی اور قیادت کو چھوڑ گئی انہی اختلافات کی وجہ سے اس وقت کے وزیراعلی کے پی کے پرویزخٹک سمیت پارٹی کے بہت سارے راہنما بھی ناراض ہوکر پارٹی چھوڑ گئے جبکہ پارٹی قیادت کو مقدمات‘قیدوبند اور پارٹی پر غیراعلانیہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور دودہائیوں سے زیادہ عرصہ کی محنت غلط فیصلوں کی وجہ سے ضائع ہوگئی عام انتخابات میں انتخابی نشان نہ ہونے اور پارٹی قیادت کی عدم موجودگی میں پارٹی نے بھاری اکثریت سے جیتنے کا موقع گنوادیا.
========================

کس کو کونسی وفاقی وزارت ملے گی؟ مشاورت مکمل
وفاقی کابینہ کی تشکیل کے معاملے پر وزیرِ اعظم شہباز شریف نے قریبی رفقا سے مشاورت مکمل کر لی۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ محمد اورنگزیب کو وزیرِ خزانہ، خواجہ آصف کو وزیرِ دفاع، اسحاق ڈار کو وزیرِ خارجہ بنائے جانے کا امکان ہے۔

احسن اقبال کو منصوبہ بندی و ترقی اور نجکاری کی وزارتیں، عطاء تارڑ کو وزیرِ اطلاعات و نشریات کا قلمدان سونپے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

رانا ثناء اللّٰہ کو معاونِ خصوصی برائے داخلہ، شمشاد اختر کو معاونِ خصوصی برائے خزانہ بنائے جانے کا امکان ہے۔

امیر مقام کو وزارتِ آبی وسائل، مصدق ملک کو پیٹرولیم و توانائی کا قلم دان ملنے کا امکان ہے۔

ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال کو سائنس و ٹیکنالوجی، فیصل سبزواری کو پورٹس اینڈ شپنگ اور فاروق ستار کو وزارتِ اوورسیز سونپے جانے کا امکان ہے