صفائی نصف ایمان ھے

تحریر۔۔۔شہزاد بھٹہ
ایک وقت تھا کہ تعلیمی ادارے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت ڈسپلن اخلاقیات نظم و ضبط برداشت ٹیم ورک اجتماعی سوچ پیدا کرتے تھے بلکہ اداروں سے پہلے گھر میں ماں باپ اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتے کیونکہ کسی بھی بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ھوتی ھے اور پھر وقت نے بچوں سے ان کی پہلی درس گاہ چھین لی اور اوپر سے سرکاری تعلیمی اداروں نے بھی اپنا بنیادی کردار چھوڑ کر ڈنگا ٹپاؤ نظام اختیار کر لیا استاد استاد نہ رھا صرف خالی خانہ پوری چلتی رھی سکول آئے گپ شپ کی چائے پی اور اپنے اپنے کاروبار پر چلے گئے جس سے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت پتلی ھوتی چلی گئی اور پھر پرائیویٹ شعبہ نے تعلیم کی بھگ دوڑ سنبھالی تو تعلیمی ادارے صرف ڈگریاں باٹنے کے کارخانے بن گئے اور پیسے کی دوڑ نے تعلیمی اداروں کو بزنس سنٹرز بنا دیا اخلاقیات ختم ھو گئی،علم ختم، تربیت ختم، ڈسپلن ختم، اجتماعی سوچ ختم،برداشت ختم، صبر ختم، عزت و احترام صرف اور صرف نوے فیصد سے زیادہ نمبر چاھیں اور ھاتھوں میں ڈگریاں
ایک خاص بات جو آج کی نوجوان نسل میں دیکھی جاسکتی ھے کہ صرف اپنے بارے سوچنا ھے اس کی ایک چھوٹی سی مثال ھم روز اپنے اردگرد دیکھ سکتے ہیں جہاں بیٹھے کھایا پیا گند ڈالا اور چلے گئے چاھے وہ پبلک پارک سکول کالج کا کلاس رومز ھوں گروانڈ ھوں سڑک ھو یا گلی محلہ اور گاڑی میں سفر کر رھے ھیں تو بسکٹ وغیرہ کھایا اور ریپر باھر پھینک دئیے اور اس طرح ایک اور کامن عادت پائی جاتی ھے گروانڈ میں کرکٹ کھیلنے جاتے ہیں تو اینٹیں اور پتھر اٹھا کر وکٹ بنا لیتے ہیں اور کھیلنے کے بعد وہ اینٹیں اور پتھر وغیرہ گراؤنڈ میں چھوڑ کر چلے جاتے ھیں کہ پیچھے سے ان کے والد محترم کے نوکر آئیں گئے تو صفائی وغیرہ کر لیں گئے سادہ سے بات ھے اگر آپ کہیں سے اینٹیں اٹھا کر آسکتے ہیں تو واپس وھی پر رکھا جائیں کرکٹ کھیلنے کا شوق بھی پورا ھو جائے اور گروانڈ میں صفائی بھی رھے اور کسی پارک میں کچھ کھا پی رھے ھیں تو واپسی پر گند شاپر بیگ میں ڈال کر کسی نزدیکی ویسٹ بنک میں ڈال دیئے اس سے آپ کا علاقہ سکول کالج گلی محلے بھی صاف رھے گا اور پاکستان بھی صاف ستھرا رھے گا
====================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC