* گورنر ہاؤس میں حلف برداری کی تقریب * گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے محمد احمد شاہ سے بطور نگراں صوبائی وزیر حلف لیا


* گورنر ہاؤس میں حلف برداری کی تقریب * گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے محمد احمد شاہ سے بطور نگراں صوبائی وزیر حلف لیا

* تقریب میں نگراں وزیر اعلی سندھ جسٹس (ریٹائرڈ )مقبول باقر,نگراں صوبائی وزراء کی شرکت * چیف سکریٹری سندھ نے تقریب کی نظامت کے فرائض انجام دئیے * صوبائی سکریٹریز اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی موجود

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے سندھ صوبائی وزارت کا حلف اٹھا لیا۔

حلف برداری کی تقریب ہفتہ کو ڈھائی بجے دن سندھ گورنر ہاوس میں منعقد ہوئی۔

گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے صوبائی وزیر سے حلف لیا۔

تقریب میں محمد احمد شاہ، کی اہلیہ چاند گل شاہ، صاحبزادی فاطمہ شاہ، صاحبزادے تیمور علی شاہ اور جہاں زیب علی شاہ بھی موجود تھے ۔

حلف برداری کی تقریب میں وزیر اعلی سندھ جسٹس مقبول باقر، صوبائی وزیر عمر سومرو، چیف سیکرٹری سندھ محمد فخر عالم خان، نے شرکت کی۔

تقریب میں معروف شاعر افتخار عارف، منور سعید، شاعرہ غزالہ حبیب صحافی و اینکر سیہل وڑائچ، معزز شہروں اور میڈیا کے نمائندے بھی موجود تھے۔

تقریب میں آرٹس کونسل کے ارکین معروف صحافی و دانشور غازی صلاح الدین، ایوب شیخ، دانیال عمر، شکیل خان، بشیر سدوزئی نے شرکت کی۔
=============================

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”ترکی و ایران میں اردو“ پر سیشن کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”ترکی و ایران میں اردو“ پر سیشن کا انعقاد کیاگیا، شرکاءمیں وفا یزداں، احمد شہریار اور تحسین فراقی شامل تھے جبکہ نظامت کے فرائض عظمیٰ الکریم نے انجام دیے، سیشن میں ایران اور ترکی میں اردو زبان کی اہمیت پر بات کی گئی ، وفا یزداں نے کہاکہ ایران میں اردو کی اہمیت روز بروز بڑھتی جاری ہے ، انہوں نے کہاکہ اردو میں فارسی کا بڑا سرمایہ ہے، اردو کی پہلے مثنوی ایرانی شاعر کی ہی ہے، بچوں سے مخاطب ہوتے ہوئے انہوں نے کہاکہ فارسی ضرور سیکھیں اور اردو کی طرح اس سے عشق کریں تو آپ کو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔تحسین فراقی نے کہاکہ اردو اور فارسی کو ایک زبان کے دو رُخ ہیں،دونوں زبانوں کا رسم الخط ایک جیسا ہے اور اسی لیے ایران میں اردو بولنی سکھائی جارہی ہے ،انہوں نے بتایا کہ علامہ اقبال اپنی فارسی شاعری کی وجہ سے وہاں بے حد مقبول ہیں اور کافی عرصے تک وہاں کے طالب علم علامہ کو فارسی شاعر سمجھتے رہے، اسی طرح ایرانی شاعر سعدی اور شیرازی ہمارے ہاں پڑھے جاتے ہیں، فارسی 7سو سال برصغیر کی زبان رہی اور اسی میں تاریخ لکھی اور پڑھی گئی۔ اردو سے فارسی اور فارسی سے اردو میں کئی ہزار تراجم ہوئے ، ابھرتے ہوئے شاعر احمد شہریار نے کہاکہ میں نے کئی فارسی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیاہے، اردو اور فارسی کو جدا کرنا آسان نہیں، ہمارا پورا ترانہ فارسی میں ہے ، ایران میں اردو کو اس تیزی سے فروغ مل رہا ہے کہ یہ ایک دبستان کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
========================

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”Purposeful Education“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سولہویں عالمی اردو کانفرنس کے تیسرے روز Purposeful Educationکے نام سے سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت زبیدہ مصطفی نے جبکہ نظامت اعجاز فاروقی نے کی، صوبائی وزیر تعلیم رانا حسین ، صادقہ صلاح الدین، امجد سراج ، سید جعفر احمد نے اظہارِ خیال کیا، صدارتی خطبہ میں زبیدہ مصطفی نے کہاکہ اگر ایک چھوٹے بچے کو اس کی مادری زبان میں نہ پڑھایا جائے تو بنیاد ہی غلط پڑ جاتی ہے، جب تک تعلیم دلچسپ نہیں ہوگی تب تک تعلیم کے حقیقی فوائد حاصل کرنا نہ ممکن ہے۔ صوبائی وزیر رانا حسین نے کہاکہ میری خواہش ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال کارجحان یقینی بنایا جائے اور میں سمجھتی ہوں کہ تبدیلی زبردستی نہیں بلکہ اصلاحات سے حاصل کی جاسکتی ہے، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر امجد سراج نے کہاکہ کہ ہمارے نصاب کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر طالب علم کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے ڈگری ملے جبکہ ان کی ترجیح Skils ہونی چاہیے۔ صادقہ صلاح الدین نے ایک مختلف نقطہ پر توجہ دلاتے ہوئے کہاکہ اصل مسئلہ مادری زبان کا نہیں بلکہ اساتذہ کو عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا ہے۔ سید جعفر احمد نے کہاکہ اگر نصاب سازی اچھی ہوبھی جائے تب بھی پڑھانے والے وہی پرانے رہیں گے۔لہٰذا نصاب کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو بھی بہتری کی ضرورت ہے۔ اعجاز فاروقی نے کہاکہ اساتذہ کی ورکشاپ اور ٹریننگ کے بعد ان کا امتحان لازمی لیا جائے جس سے معلوم کیا جاسکے کہ آیا ٹریننگ اور ورکشاپس سے اساتذہ میں کوئی بہتری آئی یا نہیں۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”اردو افسانے کے مشاہیر“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

تمام مشاہیر نے اردو افسانے کی بہتری میں اپنا اہم کردار ادا کیا ،زاہدہ حنا

افسانوں نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کیا ،پاکستان عظیم ملک ہے اور یہاں کے قاری بھی عظیم ہیں،اسد محمد خان

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”اردو افسانے کے مشاہیر“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد آڈیٹوریم 1 میں کیاگیا، اجلاس کی صدارت زاہدہ حنا اور اسد محمد خان نے کی جبکہ نظامت کے فرائض اقبال خورشید نے انجام دیے، اظہارِ خیال کرنے والوں میں ناصر عباس ،ڈاکٹر طاہرہ اقبال، ڈاکٹر نجیبہ عارف ،اخلاق احمد اور مرزا حامد بیگ شامل تھے، مجلس صدر زاہدہ حنا نے مشاہیر اردو افسانے پر کہاکہ غلام عباس نے پاکستان میں انتہا پسندی کے حوالے سے بھی افسانہ لکھا ، قرہ العین حیدر سمیت اردو افسانے کے مشاہیر کی تعداد بہت زیادہ ہیں ، تمام مشاہیر نے اردو افسانے کی بہتری میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ، اسد محمد خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ افسانوں نے مجھے اپنے سحر میں گرفتار کیا اور پاکستان عظیم ملک ہے اور یہاں کے قاری بھی عظیم ہیں، ناصر عباس نیر نے انور سجاد اور انتظار حسین کی افسانہ نویسی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ انور سجاد اپنے زمانے اور آج کے عہد پر لکھتے اور حقیقت کو کلیت میں رکھتے تھے ، انہیں گرفتار بھی کیاگیا، انور سجاد نے غاصبیت کے موضوع پر بھی قلم اٹھایا ، انور سجاد افسانے کے ساتھ ساتھ دیگر صفتوں اور فنون میں بھی دلچسپی رکھتے تھے ، ان کے افسانوں میں دیگر فنون کی جھلک بھی واضح دکھائی دیتی ہے، انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے جبر کے موضوع پر بھی کوب لکھا، انتظار حسین نے زبانی ، مذہبی اور تحریری روایات کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ، ممتاز نقاد ڈاکٹر طاہرہ اقبال نے معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دونوں افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے مختلف پہلوﺅں کی نشاندہی کی ہے، عصمت چغتائی نے اپنے افسانوں میں خواتین کے حقوق کو ابھارا وہ سیاسی طور پر قوم پرست خاتون تھیں، انہوں نے اپنی تحریروں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی، احمد ندیم قاسمی کا مزاج انقلابی تھا انہوں نے اپنے افسانوں میں مظلوم طبقات کے ساتھ ساتھ پنجاب کی دیہی زندگی کی عکاسی کی ، احمد ندیم قاسمی نے اپنے افسانوں میں گنڈاسہ متعارف کرایا جو آج بھی ڈراموں اور فلموں میں پیش کیا جاتا ہے،مرزا حامد بیگ نے مشہور افسانہ نگاروں منٹو اور بیدی کے افسانوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ راجندر سنگھ بیدی کا آبائی علاقہ ڈسکہ تھا ، قیام پاکستان کے قبل بیدی اپنے بھائی کے پاس روہپڑ چلے گئے، قیام پاکستان کے وقت بیدی شملا میں تھے بعد ازاں وہ دہلی پھر بمبئی جا پہنچے، راجندر سنگھ بیدی نے فلمی دنیا میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں، بیدی کے لکھے کئی ناول اور افسانے چھپ ہی نہیں سکے ، اخلاق احمد نے معروف افسانہ نگار کرشن چندر اور ممتاز مفتی کے افسانوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ کرشن چندر نے اپنے افسانوں میں معاشرے کے عام کرداروں کو مضبوط کہانیوں کی شکل میں ڈھالا ، کرشن اپنے افسانوں میں کرداروں کے حوالے سے بہت تحقیق کیا کرتے تھے ، ان کے افسانے آدھے گھنٹے میں پڑھے جاتے اور آدھی صدی تک یاد رہتے ہیں ، کرشن نے اپنے زمانے سے بہت آگے کا فکشن لکھا ، ممتاز مفتی نے نفسیات اور ٹیبوز پر افسانے لکھے، انہوں نے ایسے موضوعات پر قلم کاری کی جنہیں معاشرے میں کہنا مشکل تھا ، ڈاکٹر نجیبہ عارف نے غلام عباس اور نیر مسعود کی افسانہ نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ دونوں افسانہ نگاروں کا اسلوب جداگانہ تھا، غلام کے افسانوں پر روسی ادب کے اثرات ہیں ، نیر مسعود لکھنو¿ میں رہے ، ان کے افسانوں میں لکھنو¿ی رنگ نظر آتا ہے ، غلام عباس کے افسانوں میں سطح زمین کے کردار عام ملتے ہیں ، نیر مسعود کے کردار بھی عام ہیں مگر ان میں تخیل کی آمیزش دکھائی دیتی ہے ، غلام عباس کے افسانوں میں سماجی زندگی کا پہلو نمایاں ہے ، نیر مسعود کے افسانوں میں سماج کی اصلاح کا جذبہ نہیں ملتا بلکہ دریافت کا عنصر غالب ہے ، غلام عباس کے افسانوں میں بیانیہ سیدھا جبکہ نیر مسعود کی تحریروں کا بیانیہ الجھا ہوا ہے ، نیر مسعود کے افسانوں میں ماورائیت دکھائی دیتی ہے۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”اردو غزل کے مشاہیر“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردوکانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”اردو غزل کے مشاہیر“ کے عنوان سے سیشن منعقد کیاگیا، جس کی صدارت معروف شاعر افتخار عارف اور افضال احمد سید نے کی، جبکہ جن مشاہیر پر گفتگو کی گئی ان میں منیر نیازی ، جگر مرادآبادی، ادا جعفری، پروین شاکر، ناصر کاظمی، احمد فراز ، اطہر نفیس، جون ایلیا، شکیل جلالی اور عرفان صدیقی شامل تھے، غزل کے ان مشاہیر پر یاسمین حمید، ڈاکٹر فاطمہ حسن، محبوب ظفر، پیرزادہ سلمان اور عنبرین حسیب عنبر نے گفتگوکی، افتخار عارف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ اردو ادب کے فروغ میں سماجی طور پر جتنا حصہ غزل کا ہے وہ کسی اور صنف سخن کا نہیں ہے، غزل ہی ادب کی شناخت ہے اور اس شناخت کو برقرار رکھنے میں غزل نے اہم کردار ادا کیا ہے، انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس بہت اچھے غزل گو شاعر موجود ہیں، غزل کا اسم اعظم عشق ہے، غزل کی اصل شکل کو برقرار رکھنا ضروری ہے، انہوں نے کہاکہ بعض اصناف سخن کسی ایک حلقے تک محدود ہوتی ہےں مگر غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جس کا ایک مخصوص حلقہ بھی ہے، انہوں نے کہاکہ نثری نظم کی بھی اپنی جمالیات اور تقاضے ہیں، غزل بہت زیادہ اکھاڑ پچھاڑ پسند نہیں کرتی، ناصر کاظمی اور منیر نیازی ہجرت کے شاعر ہیں، ترک وطن اور گھر چھوڑنے کا احساس ان کی شاعری میں موجود ہے، افضال احمد سید نے کہاکہ شاعری میں کبھی بھی کسی صنف کے امکانات ختم نہیں ہوں گے، غزل کہی جارہی ہے اور کہتی جاتی رہے گی، انہوں نے کہاکہ ہم اپنے ماضی کی عظیم روایات کی جانب لوٹ رہے ہیں، ہمارے یہاں کئی نوجوان بہت اچھا لکھ رہے ہیں، قبل ازیں شکیب جلالی اور عرفان صدیقی پر گفتگو کرتے ہوئے عنبرین حسیب عنبر نے کہاکہ ان دونوں شعراءکی پہچان غزل ہے، شکیب جلالی نے اردو غزل کو ایک نیا چہرہ اور اسلوب دیا ہے، شکیب جدید شاعر ہیں جو ان کی شاعری میں نمایاں علامات کے طور پر نظر آتی ہے، انہوں نے کہاکہ شکیب جلالی کی روح میں آزادی پسندی تھی اور یہی آزادی ان کے مزاج میں بھی شامل تھی جو ان کے اسلوب میں بھی نظر آتی ہے، اطہر نفیس اور جون ایلیا پر گفتگو کرتے ہوئے پیرزادہ سلمان نے کہاکہ تخلیق کار کو اس کی ذاتی زندگی کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے، جون ایلیا سے میرا ذاتی تعلق بھی رہا ہے، ان کی شاعری پر بہت کم لکھا گیا ہے، جون ایلیا کی شاعری میں آپ کو رائےگانی ملے گی جبکہ ان کی شاعری میں اشتراکیت اور وجودیت دونوں اثر موجود ہیں، وجودی رنگ جون کی شاعری میں بے پناہ ہے اب یہ جون اپنے قاری پر چھوڑتے ہیں کہ اسے کون سا رنگ پسند ہے، انہوں نے کہاکہ اطہر نفیس کی شاعری اعتراف کی شاعری ہے، اس موقع پر انہوں نے جون ایلیا کے مقبول اشعار بھی سنائے جسے شرکائے محفل نے بہت پسند کیا، ناصر کاظمی اور احمد فراز پر گفتگو کرتے ہوئے محبوب ظفر نے کہاکہ ناصر کاظمی 8دسمبر 1925کو پیدا ہوئے انہوں نے صرف 47سالہ زندگی پائی، اپنی زندگی کا بیشتر وقت انہوں نے چائے خانوں میں گزارا اور ان کی بہترین غزلیں ان ہی چائے خانوں میں بیٹھ کر رت جگوں کا نچوڑ ہیں، ان کا بنیادی حوالہ غزل ہی ہے اور ان کی غزل ان کی زندگی کی سچی تصویر بھی ہے، انہیں چڑیوں اور درختوں سے بہت پیار تھا بسترِ مرگ پر بھی انہوں نے چڑیوں اور درختوں کو اپنا سلام کہلوایا تھا، انہوں نے کہاکہ احمد فراز اپنی جدوجہد، رومان اور انقلابی شاعری کے حوالے ہمیشہ یاد رکھے جائےں گے، فراز کے بغیر اردو شاعری مکمل ہی نہیں ہوتی، ان کی شاعری مزاحمت اور احتجاج کی شاعری ہے، ادا جعفری اور پروین شاکر پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہاکہ ادا جعفری نے 13برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیے تھااور اس طرح انہوں نے بچپن ہی میں اپنے ہونے کا احساس دلا دیا تھا، ان کی شاعری میں روایات کا شعور بہت نمایاں ہے،انہوں نے کہاکہ پروین شاکر میری ہم عمر تھیں اور میرے محلے میں بھی رہتی تھیں انہوں نے مزاحمت کے لہجے میں بھی شائستگی کا وقار برقرار رکھا، ان کا مجموعہ کلام ”خوشبو“ بہت مقبول ہوا ، ان کی شاعری میں نوجوان لڑکی کے جذبات کا بے ساختہ اظہار موجود ہے، منیر نیاز ی اور جگر مراد آبادی پر گفتگو کرتے ہوئے یاسمین حمید نے کہاکہ جب ہم کسی شاعر کے بارے میں بات کرتے ہیں یا جاننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا اور جاننا بہت ضروری ہے کہ شاعر کس عہد یا کس زمانے کا ہے، جگر مراد آبادی اور منیر نیازی کے زمانے میں دو نسلوں کا فرق ہے، انہوں نے کہاکہ جگر مراد آبادی کی شاعری میں ایک خاص بات ان کا خوب صورت ترنم بھی ہے، ان کی شاعری کی زبان سادہ اور رواں ہے مصرعہ ایسے لکھتے تھے کہ کہیں ٹکراﺅ کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا، انہوں نے کہاکہ منیر نیازی کی شاعری میں نظم اور غزل کا ایک ہی مزاج اور ایک ہی کیفیت ہے جو تبدیل نہیں ہوتی، منیر نیازی بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC