بورصہ کا گرینڈ بازار بھی استنبول گرینڈ بازار جیسا ہے۔(88) اقتباس۔۔۔۔ بشیر سدوزئی کی کتاب “اسلامبول سے استنبول “

تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ اولو مسجد میں گھوم پھر کر تبرکات دیکھنے، سمجھنے اور سوچنے کی کوشش کرتے رہے۔ان میں قرآنی آیات کی خطاطی اور ان کو قرینے سے سجانا کمال ہے اور یہی اس مسجد کی خوبصورتی ہے جو روح کو تسکین پہنچاتی ہے۔ خواہش کے باوجود نماز مغرب مسجد میں باجماعت ادا نہ کر سکے۔ وقت کی تنگی کے باعث با دِلِ نا خواسْتَہ قبل از مغرب مسجد سے نکلنا پڑا۔ مسجد کے صدر دروازے سے باہر نکلے تو گرینڈ بازار کے صدر دروازے سے اندر داخل ہو گئے، جو مسجد کے سامنے والے حصے کے دائیں جانب ہے۔ بیچ میں ایک گلی ہے جہاں گاڑیوں کا داخلہ منع ہے یہاں سیاح بے فکر آر پار اور گلی میں گھوم پھر رہے ہیں۔ ٹریفک کا داخلہ تو صرف اسی گلی میں نہیں بلکہ پورے گرینڈ بازار میں بند ہے۔ ہم نے جیسے ہی گلی عبور کی گرینڈ بازار میں داخل ہو گئے۔ یہ گرینڈ بازار اتنا ہی قدیم ہے جتنی مسجد اولو۔ دونوں کی عمر ایک اتنی ہے۔ اولو مسجد کی تعمیر کے وقت سلطان بایزید اول نے اس بازار کا بھی سنگ بنیاد رکھا تھا۔ اس تاریخی بازار کی بھی بناوٹ، سجاوٹ اور سامان فروخت گرینڈ بازار استنبول سے ملتا جلتا ہے۔ لگتا ہے ان بازاروں کے قیام کا مقصد ایک ہی تھا اس لیے ان کی بناوٹ ایک جیسی ہے۔ چھت ایک جیسا، گلیاں اور بھول بھلیاں ایک جیسی۔ استنبول کا بازار اس سے بڑا اور بھیڑ بھاڑ بھی زیادہ ہے۔ جب کہ گرینڈ بازار بورصہ میں اتنا ہجوم نہیں کہ من چلوں کو ٹکرانے کا موقع ملے،۔ ہمیں خریداری سے زیادہ چیزوں کو دیکھنے میں دلچسپی ہے۔ گرینڈ بازار دیکھنے کی یہی خواہش تھی کہ سیکڑوں سال قبل کے حکمران کیسا سوچتے تھے اور کیا عمل کرتے تھے۔ ترکیہ کے کسی بھی شہر میں دیکھیں عثمانیوں کی کوئی نہ کوئی انفرادیت نظر آئے گی۔ عثمانی بھی کیا کمال کے لوگ تھے۔ ان کے کس کس پہلو پر، کس کس کام اور کس کس عمل پر غور کریں، ہر شعبہ میں انفرادیت ہے۔ بلا کے بہادر، ذہن اور نکتہ رس لوگ تھے۔ ایک سے ایک، جو آتے پہلے والے سے نمبر ون ہوتے 17ویں صدی تک جو بھی صاحب اقتدار رہا اس نے کمال کر دیکھایا۔ اتنی بڑی سلطنت نہ پہلے قائم ہوئی نہ اب قائم ہونے کی کوئی امید ہے۔ 1683 میں 5,200,000 کلومیٹر رقبہ پر ان کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ یہی عثمانیوں کا سنہری دور ہے اور اس کے بعد زوال شروع ہوا۔ معشیات کا کلیہ افادہ مختتم یہی تو ہے، اور فطرت کا کمال بھی کہ ہر عروج کو زوال ہوتا ہے۔ لہذا عروج کی خواہش زوال کو دعوت دیتی ہے۔ عثمانیوں کی زوال کی داستان میں ہزاروں داستانیں ہو سکتی ہیں لیکن سچی بات یہی ہے کہ جب عروج پر پہنچے تو زوال شروع ہو گیا۔ لیکن انہوں نے جتنا عرصہ بھی حکومت کی کمال کی حکومت کی۔ وہ صرف تلوار، نیزے کے دھنی اور شہ سوار ہی نہیں تھے کہ انہوں نےجنگ لڑکر صرف فتوحات ہی حاصل کی، وہ بہت بڑے مشعیت دان، بہترین منتظم، دانشور سفارت کار، فن و ثقافت کے دلدادہ اور پکے سچے مسلمان اور کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ بورصہ پر حکومت قائم کی تو اولو مسجد تعمیر کی اس کے مدمقابل ایسی خوب صورت آرکیٹیکچرل معبد اس کے بعد دنیا میں آج تک دوسری تعمیر نہیں ہوئی۔ ریاست کی معیشت کو ترقی دینے اور تجارتی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے اسی دور میں یہ گرینڈ بازار تعمیر ہوا جو چھ سو 40 سال سے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے رہا ہے۔ یہ سلطان بایزید اول کا ویژن ہی تھا کہ یہ عظیم الشان بازار تعمیر کیا گیا ایسے کئی اور بازار بھی تعمیر ہوئے جو سلطنت کی معاشی سرگرمیوں کو فروغ اور اقتصادی ترقی کا باعث بنے۔ بازار کے دروازے سے اندر داخل ہوں تو نئی دنیا معلوم ہوتی ہے۔ صاف و شفاف ماحول، قرینے سے سجی سجائی گلیاں اور سامان سے بھری دوکانیں سیاحوں کا خریداری کے لیے بہترین ماحول میسر ہے۔ اس بازار میں انسانوں کے علاوہ ہرچیز کلاسک نظر آتی ہے۔ عثمانیوں کے ان قدیم بازاروں میں گھومتے ہوئے عجیب احساسات پیدا ہوتے ہیں پرانے وقتوں کی تعمیر اور بناوٹ سجاوٹ کو دیکھ کر طبعیت ویسے ہی مائل ہو جاتی ہے۔ کچھ نہ بھی خریدنا ہو تو کم از کم گائک رکھتا ضرور ہے۔ اس بازار کی ہر چیز منفرد سمنٹ اور اینٹوں کا یہاں کوئی کام نہیں مجبوری میں جگہ لگایا ہو جہاں بہت ضرورت تھی ورنہ لکڑی اور کسی جگہ لوہے کا زیادہ استعمال ہوا۔ ہر چیز منفرد چھت دیکھیں تو شہ تیروں پر چادریں، فرش پتھر کی چوڑی اینٹوں کا، جس میں کسی جگہ سبز پتھر یا سفید سنگ مرمر استعمال ہوا۔ تمام گلیاں پتھر کی بنی ہوئی ہیں جو چھ سو 40 سال سے ٹوٹنے کا نام نہیں لیتی۔ استنبول کے گرینڈ بازار کی طرح یہاں کی گلیاں بھی بھول بھلیاں ہیں، لیکن اس میں ہمیں بھولنے کا خطرہ نہیں تھا کہ سارے لوگ ایک ساتھ تھے۔ ترکیہ کے لینڈ اسکیپ کی طرح اس بازار میں بھی اونچ نیچ ہے۔ چھت مکمل بند نہیں شہ تیروں پر رکھی چادروں سے اتنی روشنی آتی ہے کہ کسی بھی دوکان پر دن کو بلب جلانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہم نے کوئی بلب جلتے دیکھا۔ ہم اس بازار میں زیادہ دیر گھوم نہیں سکے بلکہ پہلی ہی نظر میں اس کے خدوخال سمجھ گئے۔ کپڑے کی دوکانیں زیادہ ہیں، کسی جگہ سرامکس بھی جو ترکیہ کے خاص ٹریڈیشنل ہیں اور کچھ برتنوں اور قدیم سامان کی بھی دوکانیں ہیں۔ سونے چاندی کی بھی ایک سکشن ہے۔ ہمارے ایک نوجوان ساتھی نے نیٹ سے تلاش کیا اور کہا کہ بانی سلطنت عثمانیہ، سلطان عثمان غازی اور ان کے صاحبزادے اورحان غازی کا مزار نزدیک ہے۔ میرے کانوں میں جب یہ آواز پڑھی تو میری توجہ گرینڈ بازار سے ہٹ کر ادھر چلی گئی۔ میں نے اس نوجوان سے کہا کہ بے وقت کہی لیکن لاجواب کہی، کیوں نہ سلطان کے مزار پر حاضری لگا دیں۔ عثمان غازی کے مزار پر جانا کل کے شیڈول میں ہے لیکن، یہ کام آج ہی ہو جائے تو کل کی مصروفیات میں کچھ وقت بچ جائے گا۔ نوجوان کو قائد تسلیم کر کے آگئیں کیا اور قافلہ روانہ ہو گیا۔ گرینڈ بازار کی ایک کشادہ گلی میں نوجوان کے پیچھے روانہ ہوئے اور نوجوان گوگل کو تھامے قافلے کی قیادت کرتے برک رفتاری سے اسی شاہراہ پر پہنچا جس پر گاڑی نے اولو مسجد کے کونے پر اتارا تھا۔ جس جگہ ہم اترے تھے اس سے ایک فرلانگ پیچھے ہم نے سڑک عبور کی تو سامنے پہاڑ کھڑا ہے اور ہم اس کے دامن میں منہ اٹھائے کھڑے۔ اب گوگل نے تھوڑا ہی بتانا ہے کہ سڑک پر جو الیکٹرانک سڑی لگے ہوئی ہے اسے استعمال کریں۔ اگر اس سے پہاڑ پر چڑھنے میں ڈر لگتا ہے تو اس کے ساتھ سڑیاں ہیں انہی کو استعمال کریں اوپر جا کر ہی معلوم ہو گا کہ پہاڑ پر سلطان عثمان غازی کا مزار ہے یا نہیں۔ سب نے ایک ایک کر کے الیکٹرانک سڑیوں سے پہاڑ پر چڑھنا شروع گیا۔ جب پہاڑ کی چھت پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ اسی شاہراہ اتنی چوڑی شاہراہ ادھر بھی ہے جتنی نیچے چھوڑ آئے ہیں۔ نوجوان سے پھر رجوع کیا کہ اب گوگل کیا بتا رہا ہے فرمایا سیدھے ہاتھ جانا ہے۔ پھر کھڑے کیوں ہو،انتظار کس ہم تو تمام کے تمام پورے ہیں اور آپ ہی قافلے کے سردار ہیں۔ آپ چلیں گے تو ہم بھی آگئے بڑھیں گے۔ بولا نٹ گڑ بڑ کر رہا ہے، کسی دوسرے نے کہا نٹ نہیں آپ کا فون گڑ بڑا کر رہا ہے۔ ماڈرن ملک کے قدیم شہر میں گھومنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ فون بھی قدیم استعمال کرو۔ نوجوان معلوم نہیں شرمندہ ہوا یا رنجیدہ لیکن دوسرا اور بلکل تازہ فون جیب سے نکالا اور نٹ پر سلطان عثمان غازی کا مزار تلاش کرنے لگا۔ اس پر ایک ہم سفر نے تبصرہ کیا کہ بندہ سیانا ہے۔ اس کو معلوم ہے نیا فون ہے کسی نے دیکھا تو چھین لے گا پھر کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا بلکہ جان بچی تو لاکھوں پائے کے مصدق کوئی آ گیا تو خوشی خوشی دینا پڑے گا۔ اس پر پھر لقمہ آیا، اور بھائی صاحب یہ پاکستان نہیں ترکیہ ہے۔ یہاں فون چھینے لگے تو ہو گئی سیاحت کما لیا ترکیہ نے۔ یہ پاکستان نہیں ترکیہ ہے ترکیہ سمجھے۔ سمجھ گیا لیکن یہاں لوگوں کو فون کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہوتی ہے لیکن جیب خاص سے خریدنا پڑتا ہے۔ ہم سفر کی یہ گفتگو جاری تھی کہ ہمارا قافلہ نوجوان کی قیادت میں عثمان غازی کے مزار کے احاطے کے مرکزی دروازے پر پہنچ چکا۔
===========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC