کون کہتا ہے حماس نے غلطی کر لی؟

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی۔
============

جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور آخری مغوی کی بازیابی تک جنگ جاری رکھنے کی دھمکی دینے والے اسرائیل اور حماس کو دہشت گرد کہنے والے امریکا نے بالآخر حماس کے ساتھ معاہدہ امن پر دستخط کر دیئے اور تسلیم کیا کہ حماس ہی فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ توقع ہے کہ یہ سطور لکھتے وقت اسرائیل، حماس جنگ عارضی طور پر تھم چکی ہو گی اور دونوں جانب سے قیدیوں کے تبادلے اور غزہ میں امداد کی فراہمی بھی شروع ہو چکی ہو گی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ چار روزہ جنگ بندی کا مقصد 200 سے زائد اسرائیلی مغویوں کی واپسی ہے۔ اگر حماس مذید قیدیوں کو رہا کرنے پر تیار ہو تو امن معاہدہ میں توسیع کی گنجائش ہے گویا اسرائیل جنگ بندی میں توسیع چاہتا ہے۔ یہ وہی اسرائیل بول رہا ہے چند دن پہلے تک جو کہتا تھا کہ غزہ میں آخری حماسی کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ اسرائیل نے اسی دن ہتھیار ڈال دیئے تھے جب ٹونی بلنکن نے جنگ شروع ہونے کے چند دن بعد ہی سفارتی مہم شروع کی اور جب واپس امریکا پہنچا تو کانگریس سے خطاب تک نہیں کر سکا۔ امریکی سینٹروں نے ایوان میں فلسطینی بچوں کی تصویری فوٹو لہرا کے ٹونی بلنکن کا استقبال کیا۔ بارہ سینٹروں کو گرفتار کرا کر امریکی وزیر خارجہ نے سینٹ میں تقریر کی تو یہ خاک تقریر تھی۔ جوبائنڈن کو اندازہ ہو گیا تھا کہ بڑھاپے میں انسان سٹھیا جاتا ہے، پھر بھی کھسیانہ ملا رستہ روکتا رہا لیکن سیلاب کو کہاں روکا جا سکتا ہے۔ حماس ذرائع نے بھی معاہدہ کی تصدیق کی ہے۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق اس دوران 50 اسرائیلی قیدیوں کو رہائی دی جائے گی۔ جب کہ اسرائیلی جیلوں میں قید 150 فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا اور غزہ میں بھیجے جانے والی امداد کی مقدار میں اضافہ کیا جائے گا۔ بی بی سی اردو سروس کی رپورٹ کے مطابق جنگ میں یہ وقفہ جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق 10 بجے سے شروع ہو گا جو پیر کی صبح 10 بجے تک جاری رہے گا۔ یہ عارضی معاہدہ ان دانشوروں کے لیے سبق اموز ہے جو کہتے تھے حماس نے غلطی کر لی۔ جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو ہمارے کچھ خود ساختہ دانشور اور صحافیوں کا حماس کو کوس کوس کر گلہ خشک ہوتا، پانی پی کر پھر کوسنا شروع کرتے کہ، حماس سازش کا شکار ہو گئی، اس نے مشرقی وسطٰی میں امن کو تباہ کر دیا، اب اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کر لے گا، امریکا نے کہہ دیا کہ اب مکمل فیصلے یعنی حماس اور مسئلہ فلسطین ختم ہونے تک جنگ رہے گی۔ اس کا فلسطینیوں کو بہت نقصان ہو گا۔ وقت نے بتا دیا کہ حماس کا فیصلہ اور حکمت عملی درست تھی اور ہمارے لفافہ دانشوروں کی سوچ غلط تھی۔ اس پر میرا یہ پہلا کالم ہے لیکن میں دوستوں سے کہتا رہا کہ حماس نے اس حملے کے لیے درست وقت کا انتخاب کیا۔ کچھ عرصہ اور خاموش رہتی تو مسئلہ فلسطین ختم اور مسلم حکمران یوروشلم پر اسرائیل کا قبضہ جائز مان لیتے۔ سعودی عرب ویژن 2030ء کے تحت اسرائیل کو اگر تسلیم کرتا تو پاکستان کے پاس کیا صورت باقی رہ جاتی اس پر بہت زیادہ سوچ بچار کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس بعد مسلم دنیامیں مسلہ فلسطینکہاںرہ جاتا۔ اس جنگ میں 17 لاکھ فلسطینی بے گھر اور 14 ہزار سے زائد ہلاک ہو چکے، جب کے7 ہزار اسرائیل کی جیلوں میں بند اور ہزاروں زخمی ہیں ۔ بے شک ایک محکوم اور چھوٹی سی آبادی کے لیے یہ بہت بڑا جانی نقصان ہے، لیکن ایک مسلمان کے لیے یہ بہتر نہیں کہ اس کا قبلہ اول اور وہ خود جیل میں رہنے کے بجائے قبل از وقت جنت میں چلا جائے۔ بچوں اور خواتین کے قتل عام کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن اس کے باوجود حماس جنگ جیت گئی اور اسرائیل کی آج وہی حالت ہے جو تمرین فوجوں نے انقرہ میں عثمانیوں کی، کی تھی۔ حماس کی سب سے بڑی کامیابی اسرائیل کا گمھنڈ توڑنا ہے۔ اسرائیل خود ساختہ سپرپاور بنی ہوئی گھوم رہا تھا، جنگی حکمت عملی اور مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کے لیے مودی کو اسٹیٹیجی سمجھا رہا تھا اور ہمارے طاقتور ترین افراد اس سے متاثر ہو کر، قبلہ اول کی آزادی کی بات کرنے کے بجائے اس کے قبضے اور ناپاک ریاست کے وجود کو تسلیم کرنے پر زور دے رہے تھے۔۔ گریٹر اسرائیل کے خواب دیکھے جا رہے تھے۔ یہودیوں کی کھوئی ہوئی بساط کی بحالی اور دنیا پر حکمرانی کی خواب دیکھے جا رہے تھے۔ اسماعیل ہنیہ نے ایمانی قوت اور بہادری سے تن تنہا اسرائیلی بت اور اس بت کے گھمنڈ کو ایک ہی جھٹکے میں خاک میں ملا دیا۔ گریٹر اسرائیل کے خواب کو چکنا چور کر دیا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسرائیلی دفاعی حصار ایک ڈھکوسلا ہے۔ کچھ عرصے تک بلکہ جب تک مسئلہ فلسطین کا آبرومندانہ حل نہیں نکلتا سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتا ورنہ عوامی ردعمل سخت آنے کا خطرہ ہے۔ سعودی عرب کا یہ منصوبہ التواء میں گیا تو پاکستان کہاں تسلیم کرے گا۔ حماس کا کم از کم یہ خوف تو گیا کہ مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ہیں۔ حماس، کو اسرائیل، امریکا سمیت مغربی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے اور اس کے خاتمے کی بات کرتے تھے۔ حماس ان سب کو مذاکرات کےمیز پر لے آئی، دہشتگردوں سے تو مذاکرات کوئی نہیں کرتا یہ بھی حماس کی بڑی کامیابی ہےکہ وہ فلسطین کی نمائندہ جماعت تسلیم ہوئی ہے۔ حماس کو اس جنگ میں جو کامیابیاں ہوئی ہیں ان کی ایک طویل فہرست ہے جس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ یہاں چند ایک کا تذکرہ ہی ممکن ہو سکے گا۔ یہ کہ اب دنیا اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی پر غور کر رہا۔ اسرائیل اب جنگی حکمت عملی اور طاقت میں چوتھے نمبر کی ریاست نہیں رہی۔ نیز اس کا دفاعی نظام ناقابل تسخیر نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے 300 فوجی اور 150 سے زائد اعلی سول افسران کو حماس نے قید کر رکھا ہے، جن میں جنرل تک کے فوجی افسران بھی شامل ہیں۔ جس سے اسرائیل کو دنیا میں سبکی ہوئی۔ اسرائیل کی چار فوجی چھاؤنیوں کے اندر جا کر حماس کے مجاہدین نےاسلحہ چھینا۔ کہا جاتا ہے کہ 160 سے زیادہ ٹینکوں کو بھسم کیا 50 کی تو خود اسرائیل بھی تسلیم کرتا ہے۔ موساد کے مختلف ٹھکانے تباہ کر دئیے گئے جو غزہ کے قریب تھے۔ اسرائیل کے فوجی اور پولیس راڈاروں، درجنوں وائر لیس سینٹ پر حماس نے قبضہ کیا۔ حماس سے اسرائیل پر1500 راکٹ داغے جن سے اسرائیل کا بھاری جانی اور مالی نقصان تو ہوا لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت اور فوج پر عوام کا اعتماد ختم ہو گیا۔ 5 لاکھ اسرائیلیوں کو گھر بار چھوڑ کے مہاجر کیمپوں میں پناہ لینا پڑی۔ 2500 اسرائیلی ہلاک ہو گئے جن میں فوجی افسر بھی شامل ہیں۔ دنیا کے سات بڑے ملکوں کی انٹلی جینس سروس کو ناکام بنا کر حماس نے یہ ثابت کیا کہ اس کے پاس حربی ماہرین بھی موجود ہیں جس سے دنیا پر خوف طاری ہوا۔ مسلہ فلسطین جس کو لوگ ختم سمجھتے تھے کو عالمی سطح پہ مکمل زندہ ہو گیا۔ مغربی ممالک کے عوام کی حماس کو زبردست حمایت حاصل ہوئی۔ عرب حکمران ششدر رہ گئے اور ان کے ناپاک منصوبے ناکام ہو گئے۔ روس، چین سمیت مختلف ممالک نے کھل کے حماس کی حمایت اور جنگی سازو سامان مہیا کرنے کے اشارے دئیے ہیں۔ ایران کھل کر سامنے آیا کہ دنیا میں واحد مسلم ملک ہے جو قبلہ اول کی آزادی کے لیے سنجیدہ اور مخلص ہے۔ یہ حماس کی کامیابی غیبی ہے اور اللہ کا وہ وعدہ کہ جہاد میں اگر تم حق پر ہو تو غیبی مدد مہیا ہو گی۔
========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC