علامہ اقبال ا وپن یونیورسٹی کی گولڈن جوبلی وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے سال 2024کو بطور گولڈن جوبلی تقریبات منانے کا فیصلہ کیاہے


تحریر………….عزیز الرحمن

برطانیہ کے سابق وزیر اعظم مسٹر ہیرالڈ ولسن نے 60کی دہائی کے آخر میں فاصلاتی نظام تعلیم کا خیال پیش کیا تھا، اُن کا خیال تھا کہ جو لوگ غربت کی وجہ سے بہتر تعلیم سے محروم رہ گئے ہیں،جو لوگ روزی، رزق کی تلاش میں سرکاری اور پرائیویٹ شعبوں میں ملازمت کررہے ہیں، مزدور اور دھیاڑی دار طبقے کو کیسے پڑھایا جائے تاکہ نہ صرف اُن کا معیار زندگی بہتربنایا جاسکے بلکہ انہیں ملک و قوم کے لئے بھی کارآمدبنایا جاسکے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ معاشرے کے متوسط اور غریب لوگوں کو فارغ اوقات میں تعلیمی مواقع کیسے فراہم کئے جائیں، اس نظریے کے تحت 1969ء میں برطانیہ میں دنیا کی پہلی اوپن یونیورسٹی قائم ہوئی جس کے بعداس طریقہ تعلیم کو دنیا بھر میں پذیرائی ملی، دنیا میں 70سے زائد اوپن یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، ایک مضمون میں اِن ستر جامعات کا ذکر کرنا تو مشکل ہے لیکن راقم اپنی اس تحریر میں براعظم ایشیاو افریقہ کی پہلی اور دنیا کی دوسری اوپن یونیورسٹی کی تاریخ، تعلیمی خدمات، اہداف اور کامیابیوں کو قلمبند کرنے کی کوشش کرے گا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے قیام کو اگلے سال 50سال مکمل ہوجائیں گے،پارلیمنٹ کے ایکٹ نمبرXXXIX,1974کے تحت 25مئی1974کو پیپلز اوپن یونیورسٹی کے نام سے یہ جامعہ قائم ہوئی تھی اور اِس اقدام سے اُس وقت کے وزیر اعظم، ذولفقار علی بھٹوکی خواب کی تعبیر ہوئی تھی کیونکہ قائد عوام کا خیال تھا کہ تعلیم غریبوں کا بھی بنیادی حق ہے، وہ کہتے ہوتے تھے کہ ہم غریب عوام کے بچوں کو اُن کا بنیادی حق دلاکر رہیں گے۔وہ چاہتے تھے کہ وطن عزیز کے دیہاتوں، قصبوں اور دور آفتادہ علاقوں میں مقیم افراد جہاں روایتی تعلیم کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں یا ایسی خواتین کو جو سماجی پابندیوں کے سبب سکول/کالج میں جانے سے قاصر ہیں یا وہ ملازم پیشہ افراد جو اپنی ملازمتی ترقی کے لئے تعلیمی استعداد بڑھانے کے خواہشمند ہیں لیکن اپنا گھر اور کاروبار نہیں چھوڑ سکتے ہیں ایسے افراد کو اُن کی دہلیز پر تعلیمی سہولتیں فراہم کئے جائیں، جس کے لئے وہ ملٹن کینز(انگلینڈ)میں دنیا کی پہلی اوپن یونیورسٹی کی طرز پر پاکستان میں اوپن یونیورسٹی کے قیام کے خواہشمند تھے،ذولفقار علی بھٹو کی کوششوں سے اُن کی علمی خواہش کی تکمیل ہوئی اور یہ جامعہ بن گئی۔پاکستان میں فاصلاتی و غیر رسمی نظام تعلیم پر مشتمل اوپن یونیورسٹی قائم کرکے شہید ذولفقار علی بھٹو نے وطن عزیزکے پسماندہ علاقوں تک بامقصد تعلیمی مواقع گھر گھر پہنچا کر پسماندگی ٗ غربت اور ناخواندگی کے خاتمے کے لئے عملی جہاد اور مجموعی قومی ترقی کے لئے عام شہریوں کی زندگی میں خاموش انقلاب برپا کرنے کی جو بنیاد 1974ء میں رکھ دی تھی ٗ آج صرف پاکستان کی نہیں دنیا کی چار بڑی(میگا)یونیورسٹیوں میں شامل ہوکرعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی دنیا بھر کے لئے قابل تقلید مثال بن چکی ہے۔
جامعہ کے گولڈن جوبلی پر اگر عوامی لیڈرذولفقار علی بھٹو کو یاد نہ کیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی،اس لئے تحریر کنندہ اپنی مضموں کے آغاز پر پاکستانی عوام کو فاصلاتی نظام تعلیم کی یونیورسٹی کا تحفہ دینے پرشہید ذولفقار علی بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔نومبر1977ء کو مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے صد سالہ یوم پیدائش پر نذرانہ عقیدت کے طور پر اس یونیورسٹی کو علامہ محمد اقبال سے منسوب کیا گیا جس کے بعد یہ جامعہ پیپلز اوپن یونیورسٹی سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی بن گئی۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو دنیا کی دوسری اوپن یونیورسٹی اور جنوبی ایشیاء کی پہلی اوپن یونیورسٹی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔قیام کے بعداس یونیورسٹی نے وزارت تعلیم کی طرف سے اسلام آباد کے سیکٹر G6/3میں کرایہ پر لی ہوئی مکان میں غیر رسمی سفر کا آغاز کیا تھا، کچھ عرصہ بعد سیکٹر G6/3میں ایک سرکاری پرائمری سکول یونیورسٹی کو عارضی طور پر ملا تھا جہاں سے یونیورسٹی نے تربیت اساتذہ کے کورس پی ٹی او سی سے اپنا تدریسی سفر شروع کیا تھا۔یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ولی محمد ذکی کی تگ و دو اور انتھک کوششوں سے یونیورسٹی کو اسلام آباد کے سیکٹر H8میں ایک وسیع رقبہ مل گیا تھا جہاں یونیورسٹی نے “تعلیم گھر کی دہلیز پر” کے مشن کو جاری رکھا، ہر دور میں یونیورسٹی آگے بڑھتی گئی۔یہ وطن عزیز کی واحد یونیورسٹی ہے جو دنیا کے تمام ممالک میں رہائش پذیر پاکستانیوں سمیت انٹرنیشنل طلبہ کو بھی تعلیم فراہم کررہی ہے۔اب پاکستان کی یہ قومی جامعہ سرٹیفکیٹ کورسز، میٹرک، ایف اے، ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرامز، بی ایس پروگرامز، ٹیچر ز ٹریننگ پروگرامز، پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ پروگرامز کے علاوہ 33ایم فل/ ایم ایس پروگرامز اور 27پی ایچ ڈی پروگرامز آفر کرتی ہیں جس سے معاشرے کی ایک بڑی تعداد استفادہ کررہی ہے۔یہ اس یونیورسٹی کی انفرادیت ہے کہ اس قومی جامعہ کے طلبہ کی تعداد ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے لئے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، ہر عمر اور ہر علاقے کے ا فراد اورگھروں میں رہ کر خواتین اس تعلیمی نظام سے باآسانی استفادہ کررہی ہیں۔کم اخراجات، آسان اور عام فہم درسی کتب اور طلبہ کو فراہم کی جانے والی سہولیات کی وجہ سے اب تک اس قومی جامعہ سے 46لاکھ طلبہ گریجویٹ ہوچکے ہیں۔یونیورسٹی کی موجودہ انرولمنٹ 10لاکھ 27ہزار ہے۔انتظامی شعبہ جات 26جبکہ چار فیکلٹیز ہیں جس کے تحت 39تدریسی شعبہ جات تعلیمی خدمات فراہم کررہی ہیں۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو عالمی سطح پر حاصل ہونے والے دو بڑے اعزازت میں پہلا اعزاز یہ ہے کہ یہ یونیورسٹی یو آئی گرین میٹرک کی 14۔دسمبر 2021ء کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق عالمی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں دنیا کی سبز ترین یونیورسٹیوں میں 485ویں نمبرپر آگئی تھی، اس مقابلے میں 84ممالک کی 912یونیورسٹیوں نے حصہ لیاتھا، دوسرا بڑا اعزاز یہ ہے کہ پاکستان کی اس قومی جامعہ نے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف4۔معیاری تعلیم کے تحت عالمی درجہ بندی کے معتبر ادارہ ٹائمز ہائر ایجوکیشن کی جاری کردہ درجہ بندی، امپیکٹ رینکنگ 2023ء میں پاکستان کی تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں پہلی جبکہ دنیا بھر کی جامعات میں 25ویں پوزیشن حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا، واضح رہے کہ امپیکٹ رینکنگ کے لئے دنیا بھر کے 109جامعات کا جائزہ لیا گیا تھا۔
یونیورسٹی نے قیام سے لے کر اب تک مختلف شعبہ جات میں نمایاں ترقی کی ہے، اس لئے 50سال مکمل ہونے پریونیورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے سال 2024کو بطور گولڈن جوبلی تقریبات منانے کا فیصلہ کیا ہے اوریونیورسٹی کے ڈینز، پروفیسرز اور پرنسپل افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ گولڈن جوبلی کو یادگار اور تاریخی بنانے کے لئے سال بھر کے لئے ایسے تقاریب کا اہتمام کریں کہ اس قومی جامعہ کی آواز پوری دنیا تک پہنچ پائے۔ گولڈن جوبلی تقرییاب کے لئے تشکیل کردہ کور کمیٹی نے ذیلی کمیٹیوں کو گولڈن جوبلی کو شاندار اور یادگار بنانے کے لئے مختلف ہدایات دی ہیں۔ذیلی کمیٹیوں نے کنوینرز پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے کام کو طے کردہ وقت سے پہلے ہی مکمل کرنے کی کوشش کریں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ تقریبات کے انعقاد میں کوئی کمی نہ رہے۔

10۔اکتوبرکو وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود کی زیر صدارت گولڈن جوبلی تقریبات کی کور کمیٹی کا اجلاس منعقد ہواجس میں گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالے سے غور و حوض کیا گیا۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یونیورسٹی جنوری تا مئی، 2024 اسلام آباد میں یونیورسٹی کے مین کیمپس، چاروں صوبائی دارلحکومتوں سمیت مظفر آباد اور سکردو میں کانوکیشنزمنعقدکرے گی، علاوہ ازیں 12بین الاقوامی کانفرنسز،سیمینارز/سمپوزیم،ہوم ایلومینائی ویڈیوز ریکارڈنگ، کتابوں کی نمائشوں کے علاوہ تحقیقی و ادبی محافل اورثقافتی تقریبات بھی منعقد کی جائیں گی۔وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے کہا کہ آئندہ سال ہماری کامیابیوں کے منانے کا سال ہوگا، ہم پورے سال کو بطور جشن منائیں گے۔اجلاس نے یونیورسٹی کا میوزیم بنانے کا فیصلہ بھی کیا ہے، میوزیم کے قیام پر کام تیزی سے جاری ہے، اس میوزیم میں 10گیلریاں بنائی جارہی ہیں جس میں یونیورسٹی کے 1974سے اب تک کی سفر کے تمام تاریخی دستاویزات اور ساز و سامان، فوٹوز وغیرہ نمائش کے لئے رکھے جائیں گے۔ اس میوزیم کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے طلبہ کو فرینڈلی اورصحت مندماحول فراہم کرنے کے لئے یونیورسٹی کی تزئین و آرائش اور رنگ و روغن پر بھی کام کرنے کی ہدایت کی ہے، اہم مقامات پر واٹر فالز اور فوارے، بیٹھنے کے لئے لکڑی کے بنے ہوئے خوبصورت بینچزلگائے جائیں گے۔وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود کی قیادت میں یونیورسٹی کے اسٹیک ہولڈرز سر جوز کر بیٹھے ہیں کہ یونیورسٹی کی کامیابیوں کے جشن کو کس طرح منایا جائے۔ وائس چانسلر نے ہدایات دی ہیں کہ چھوٹی سے چھوٹی کامیابی کو بھی بھرپور انداز سے منایا جائے۔کامیابیوں کی جشن منانے کا مقصد یہ ہے کہ تعلیمی اداروں، یونیورسٹی کے طلباء و طالبات، حال ہی میں بھرتی ہونے والے ملازمین کو دکھایا جائے کہ ہمیں اِن کامیابیوں پر فخر ہے تاکہ نئے ملازمین یونیورسٹی کی مزید ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔وائس چانسلر کی احکامات کی روشنی میں گولڈن جوبلی تقریبات جاری و ساری ہیں، سیمینارز، کانفرنسز و دیگر علمی تقریاب تواتر سے منعقد ہورہی ہیں۔ڈائریکٹوریٹ آف ریجنل سروسز نے “لیڈرشپ سٹوریز”کے عنوان سے سیشنز کا آغاز کردیا ہے، اِن سیشنز میں سابق سربراہان کو مدعو کیا جائے گا جس میں اُن کی سٹوری اُن کے زبانی سنی جائے گی اور اِن سیشنز کی باقاعدہ ریکارڈنگ کی جائے گی۔ 21۔نومبر کو پہلا سیشن منعقد کیا گیا جس میں ڈاکٹر اظہر حمید خان جو 1978تا 1995بطور ڈائریکٹر ریجنل سروسز خدمات انجام دے چکے ہیں کو مدعو کیا گیا تھا۔ڈاکٹر اظہر حمید نے کہا کہ دنیا میں پہلی اوپن یونیورسٹی”دی اوپن یونیورسٹی”برطانیہ میں بنی تھی جبکہ ہم نے دنیا کی دوسری اوپن یونیورسٹی بنائی۔ انہوں نے کہا کہ اُس وقت لوگ تعلیمی اداروں سے دور اور کما کر کھانے کے لئے مجبور تھے، اِن افراد کے لئے یہ یونیورسٹی قائم کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے فاؤنڈیشن کورس سے تدریسی عمل کا آغاز کیا تھا، جس کے بعد پی ٹی او سی، جنرل ایجوکیشن اور خواتین کے لئے مڈل، میٹرک پروگرامز کی طرف بڑھے تھے۔ اظہر حمید خان کا کہنا تھا کہ ہم دھیرے دھیرے بڑھتے گئے آج وہ اوپن یونیورسٹی دنیا بھر میں ممتاز مقام حاصل کرچکی ہے۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے 50سال پورے ہونے پر انہیں دلی خوشی محسوس ہورہی ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود کی قیادت میں یہ جامعہ ترقی کے نئے منازل طے کرے گی۔
==========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC